مدثر محمود سالار ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو مکمل منصوبے سے آگاہ کیا۔
حاطب بن ابی بلتعہ کے اقربا مکہ میں تھے اور ان کو اپنے اقربا کے متعلق خدشہ ہوا تو ایک خط لکھا اور ایک عورت کے ہاتھ مکہ بھیجا مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے اس کی خبر کردی اور آپ نے صحابہ کی جماعت بھیج کر اس عورت کو گرفتار کروالیا۔
جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا تو حاطب بن ابی بلتعہ نے کہا کہ میں نے یہ کام مرتد ہوکر نہیں کیا بلکہ خاندان کی حفاظت کے پیش نظر یہ خط لکھا تاکہ ان کو نقصان نہ پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غضبناک ہوکر اجازت مانگی کہ حاطب کا سر قلم کردیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نہیں عمر کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے بدری صحابہ کی تمام غلطیاں معاف کردی ہیں اور مستقبل میں بھی ان سے اگر کوئی غلطی تو اس پر اللہ کی طرف سے معافی ہے۔
بدری صحابہ کی یہ شان خود اللہ نے بیان کی ہے۔
بدر کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دربار میں کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ میں اپنی تمام جماعت کو تیرے دین کی سربلندی کے لیے لے آیا ہوں اور اگر تو نے آج ہماری مدد نہ کی تو تیرے دین کا نام لینے والا کوئی نہیں بچے گا۔ بچے بوڑھے سب اس معرکہ خیز جنگ میں شریک تھے معاذ اور معوذ کا واقعہ تو بچے بچے کو معلوم ہے۔
خالق کائنات کے چنیدہ بندوں کے متعلق الفاظ استعمال کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر سے ہی کسی کو بے عزت کیا جاتا ہے اور کسی کو معزز بنایا جاتا ہے۔
عمران خان صاحب کے الفاظ بلاشبہ قابل گرفت و قابل مذمت ہیں کیونکہ موصوف کسی عام جنگ یا غیرمعروف جھگڑے اور تنازع کے متعلق گل افشانی نہیں کررہے تھے بلکہ یہ بدر کا واقعہ تھا اور اسلام کی بنیاد کو اسی واقعہ سے مضبوطی ملی۔
تاریخ انسانی میں اس جنگ جیسی کسی اور جنگ کی مثال نہیں ملتی کیونکہ مسلمان دنیاوی ساز و سامان سے محروم مگر ایمان باللہ سے مالامال ہوتے ہوئے اب یا کبھی نہیں کے مصداق میدان میں اترے تھے۔
اس گروہ کے متعلق یہ کہنا کہ صرف تین سو تیرہ تھے اور باقی ڈر کے پیچھے رہ گئے تھے یہ کہنا جہالت نہیں گستاخی ہے۔ جاہل وہ ہوتا ہے جسے علم نہ ہو اور جسے علم نہ ہو وہ اس پر بات نہیں کرتا۔
موصوف نے بدر کا واقعہ پڑھا مگر سب سے اہم نکتہ بھول گئے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ تھے جو لڑائی سے ڈرتے نہیں بلکہ اسے اپنی کامیابی سمجھتے تھے کہ اللہ کے دین کے لیے جنگ کریں۔
خان صاحب کو احد کا نام تو معلوم ہے مگر صحابہ کو لوٹ مار کرنے والا سمجھے بیٹھے ہیں۔ بدر اور احد یہ دو واقعات ایسے ہیں جس پر بیسیوں کتب اور ہزاروں تحاریر ہر زبان میں مل جائیں گی۔
ان دو واقعات کے متعلق اور صحابہ کرام کے متعلق الفاظ استعمال کرتے ہوئے خان صاحب نے جہالت نہیں گستاخی کی۔ یہ بدتمیزی اور بداخلاقی ہے اور خان صاحب کو قوم سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ اپنے بڑوں کے متعلق بد تہذیبی پر ہر ذی شعور مسلمان دکھی ہے۔