ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارہ امتیاز)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعروں نے جوانی کے ایام کو زندگی کے سنہری دنوں سے تشبیہ دی ہے۔ واقعی زندگی کے اس دور میں عزم جواں ہوتا ہے، جذبہ زندہ ہوتا ہے، جھپٹنے، پلٹنے، اور پلٹ کر جھپٹنے کے لیے خون ہر دم گرم رہتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اگر زندگی کے اس حسین دور میں امنگیں پوری نہ ہوں، آرزوئیں پایہ تکمیل کو نہ پہنچیں، ناکامیاں گھیراﺅ کرلیں تو پھر زندگی کا یہ حسین وقت بدترین بھی بن سکتا ہے۔
ہر نوجوان چاہتا ہے کہ اس کی ہر آرزو پوری ہو، اسے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مناسب مواقع ملیں اور اسے ہر قسم کی سہولیات حاصل ہوں، مگر آج کل کے مادی اور انتشار کے دور میں چونکہ مسائل میں پے در پے اضافہ ہو رہا ہے، ہر کوئی کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے۔
نوجوانوں میں پژمردگی، پریشانی، ڈیپریشن، نفسیاتی الجھنیں، ذہنی دباﺅ، سٹریس وغیرہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ذہنی مسائل کی مختلف وجوہات درج ذیل ہیں۔
-1 وسائل کی کمی، -2 مناسب مواقع کا نہ ملنا، -3 مالی پریشانیاں، -4 امتحان میں ناکامی، -5 مناسب توجہ کا نہ ملنا، -6 ماں باپ میں آپس کی لڑائی، -7 دوستی یا محبت میں ناکامی، -8 بیروز گاری۔
ان وجوہات کی بنا پر اکثر لوگ پریشانیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ذہنی پریشانیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بندہ اپنی جان لینے کے در پے ہو جاتا ہے۔
ذہنی پریشانیوں سے بچاﺅ:
قدرتی طور پر حالات آدمی کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کے حالات گھریلو سطح پر یا ملکی سطح پر صحیح نہ ہوں تو وہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ان سے بچاﺅ کے لیے بہت ضروری ہے کہ زندگی کے اس دور میں نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولیات پہنچائی جائیں۔ جہاں تک ہو سکے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جائے تاکہ وہ نہ تو بھٹکیں اور نہ نشہ جیسی جان لیوا عادتوں میں مبتلا ہوں،کیونکہ پریشانیوں سے تنگ آ کر بندہ خاص کر نوجوانی میں کوئی نہ کوئی مصنوعی سہارا ضرور ڈھونڈتا ہے جس میں سب سے زیادہ خطرناک ہیروئن کا نشہ ہے۔
ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہمارے ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نوجوان بچوں کے ساتھ بالکل دوستانہ رویہ رکھیں۔ پریشانی و ناکامی کی صورت میں ان کی ہمت بڑھائیں اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں کیونکہ اگر جوان بچوں کو زیادہ ڈانٹا جائے تو پھر وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں جس کا نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
ماں باپ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ یہ آپ کی عمر کے بہترین دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور ہمت دی ہے۔ اپنی توانائیوں کو بھرپور اور مثبت طریقے سے استعمال کریں۔ اپنا کام دیانتداری اور خوب لگن سے کریں۔
کسی بھی ناکامی کی صورت میں کبھی ہمت نہ ہاریں۔ اپنے کام میں دل جمعی سے لگے رہیں اور اپنے خیالات کو پراگندہ ہونے سے بچائیں۔ نشہ جیسے جھوٹے سہارے لینے سے آپ نہ صرف اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں بلکہ اس سے سارا خاندان برباد ہو جاتا ہے۔
اپنے آپ کو پہچانیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ آپ اپنی ہمت سے ہر مشکل پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں۔
اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی
”جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔“
اکثر طالب علم یہ شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں……..
علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
وجوہات:
موقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگاﺅ اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔
اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔
نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں،
ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔
علاج اور بچاﺅ:
جو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
-1 ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔
-2 روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔
جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔
-3 بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ”سٹڈی فوبیا“ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ ان شاءاللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔
-4 ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کے لیے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔
-5 بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کے لیے بعض دواﺅں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاءپر مشتمل ہوتی ہیں۔ جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔
-6 اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سست اور اونگھتے رہتے ہیں۔
-7 امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔
توجہ اور دھیان کا فقدان کیوں؟
”جب بھی پڑھائی شروع کرتا ہوں، توجہ بٹی رہتی ہے۔ پڑھائی کے علاوہ دوسرے خیالات بھی آتے رہتے ہیں۔ اکثر بھولی بسری باتیں یاد آتی ہیں اور یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے اور گھنٹوں بیٹھنے کے باوجود کتاب میں سے نہ کچھ یاد رہتا اور نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔“
اکثر اوقات طالب علم اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور امتحان وغیرہ میں اپنی ناکامی کی وجہ اس بات کو گردانتے ہیں۔
اس کے برعکس وہ طالب علم جو یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ کم وقت میں اپنے مضامین کو نہ صرف یاد کرلیتے ہیں بلکہ ان پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتے ہیں اور یوں وہ اعلیٰ کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں۔
طلبہ کے ان دونوں گروپوں میں بڑا فرق توجہ اور دھیان کا ہے۔ ایک مکمل دھیان اور توجہ کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسرے بغیر توجہ اور دھیان کے کام مکمل کرنے کی بے سود کوشش کرتے ہیں اور یوں پریشانی و ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔
وجوہات:
پڑھائی ہو یا کوئی اور کام، جس میں دلچسپی نہ لی جائے، اس میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کسی کام یا پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کی بڑی بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
-1 خاص مضمون میں رجحان نہ ہونا -2 بے قاعدہ طرز زندگی
-3 پلاننگ کا فقدان -4 ورزش کا نہ ہونا
-5 پے در پے ناکامیاں -6 کھانے پینے میں بے اعتدالی
-7 جسمانی اور ذہنی عوارض -8 مالی مسائل وغیرہ
توجہ اور دھیان کیسے حاصل کیا جائے؟
-1 اپنے کام میں مکمل دلچسپی لیں:
جب بھی آپ کوئی کام کرنے لگیں تو اس میں پوری دلچسپی لیں۔اپنے آپ کوپوری طرح اس میں شامل کریں۔ذہن کو بالکل خالی کر لیں۔اس وقت دنیاومافیہا سے بے خبر ہو جائیں۔کام شروع کرنے سے پہلے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں اور تمام ذہنی تفکرات کو بھلا کر خدا سے مدد مانگیں اور اس کے بعد کام یا پڑھائی میں لگ جائیں۔
ان شاءاللہ یکسوئی حاصل ہو گی اور توجہ اور دھیان کے ہوتے ہی مسائل کا حل آسان ہوجائے گا اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی(ان شاءاللہ)۔
-2باقاعدگی کی اہمیت:
زندگی کو ایک قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنے سے اکثر مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کو ایک پلاننگ کرکے اور کاموں کا شیڈول بناکر گزارتے ہیں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔
-3 اپنے فیصلے خود کیجیے:
اکثر اوقات ہمیں وہ کام کرنے پڑتے ہیں جو دوسرے ہم پر ٹھونستے ہیں جس کی وجہ سے توجہ اور دھیان بالکل حاصل نہیں ہوتا۔ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔
اپنے فیصلے خود کرنے سے بندہ بہت ساری قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔ کسی بات میں اپنے قریبی لوگوں سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے مگر جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے وہ آپ کا اپنا ہونا چاہیے۔ جو کام خود فیصلہ کرکے کیا جائے اس میں بندے کی دلچسپی سو فیصد بر قرار رہتی ہے اور ذہن پوری توانائیوں سے اس کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
-4 خوراک کی اہمیت:
کھانے پینے کی بے اعتدالیاں آدمی کو سو طرح کے مسائل کا شکار کرتی ہیں۔ جسم ٹھیک نہ ہوتو ذہن بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا اور بیمار ذہن کبھی بھی توجہ اور دھیان سے کام نہیں کرسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کھانا کھاتے وقت اعتدال سے کام لیا جائے۔ بھوک رکھ کر کھایا جائے اور سادہ غذا استعمال کی جائے۔
-5 ورزش کی اہمیت:
جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش کی بھی بہت اہمیت ہے۔ سادہ اور مکمل غذا کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ورزش بھی بہت ضروری ہے۔ اس سے جسم کے ساتھ ساتھ ذہن بھی تروتازہ رہتا ہے۔
غرضیکہ توجہ اور دھیان حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کام میں پوری دلچسپی لیں۔ اپنی غذا کو سادہ رکھیں۔ زندگی میں باقاعدگی پیدا کریں۔ روزانہ ورزش کو معمول بنائیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔