نصرت یوسف ۔۔۔۔۔
اس رات آسمان بڑا پر سکون تھا، مختلف رنگوں سے سجا، گرے ، دھیمی سفیدی، ہلکے گلابی، اور نت نۓ پیراہن سے آراستہ، تیزی سے کام کرتے خدام احکامات کی بجا آوری میں مصروف تھے… کتنی ہی عالی شان عمارتیں جگمگا رہی تھیں ، ہر آن، ان کی وسعت اور آرائش میں اضافہ ہو رہا تھا،اضافہ بھی تحیر آمیز!!
اچانک کوئی نہر بن جاتی، درختوں کی قطاریں نمودار ہو جاتیں، عمارت کی روشنیوں کے رنگ بدل جاتے، سجاوٹ بدل جاتی، دیواروں میں قیمتی پتھر نمونہ بنانے لگتے، شفاف موتیوں کی پھوار شروع ہوجاتی،عمارتوں کا طول وعرض تیزی سے پھیلتا لا متناہی ہوتا لگتا اور خوشبو!!!
آہ!! اس پھیلی خوشبو میں کیف ہی کیف!!
لگتا تھا خاص مہمانوں کا انتظار ہے،اور میزبان اپنی بے حد و حساب محبت ان پر نچھاور ہر لمحہ کر رہا ہے۔
مختلف نوع کی طرز تعمیر باکمال تخلیق کار کا تعارف دے رہی تھیں۔ جھومتے فوارے رنگ برنگی روشنیوں میں بے خود تھے، درختوں کی ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی تھیں اور ان کی اوٹ میں چھپے پرندے سوچتے تھے کون آنے والا ہے؟
کون ہے جس کے لیے اتنے اعلیٰ درجے پر معبد سے مے خانے تک ضیافت کے انتظامات ہیں۔
مطرب گیت چھیڑ چکے ہیں، فانوس جل اٹھے ہیں.
پردہ سے جھانکتی شرمیلی آنکھیں بھی اس نظارہ سے مبہوت تھیں..
نہ جانے کون ہیں وہ؟
نہ جانے کیسے ہیں وہ؟
نہ جانے کب آئیں گے وہ؟
رشک، محبت،اور بے قراری سے لگتا تھا پورا عالم ان مہمانوں کا انتظار کرتا یہ سوال مالک سے پوچھنا چاہتا ہے، مگر مالک کا رعب ان کے سوالات پر مہر لگاۓ تھا. مگر ایک ایسا بھی تھا جس کو ان سارے جوابات کا علم ملا تھا۔
وہ کون تھا؟
وہ کہاں تھا؟
وہ بیڑیوں میں جکڑا وجود تھا۔
عالم رعنائی کے یہ سارے روپ رنگ پاتے تو اس کی اذیتیں شدید ہو جاتیں، وہ جانتا تھا کہ کس کے لیے یہ سب عنایتیں جمع ہیں، نفرت سے اس کے وجود میں آگ بھری تھی، حسد اور بغاوت اس کے ریشے ریشے میں جمع تھی لیکن وہ کہیں نہ بھاگ سکتا تھا۔
قیدخانے میں وہ آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی میں مصروف رہتا…
اس نے عہد کیا تھا کہ وہ اسی قیدخانے میں اپنے دشمن کو لا پٹخے گا… جہاں کی اذیتیں اسے جلتا ایندھن بنا دیں گی… صرف میں کیوں؟؟اسے بھی یہ سب سہنا ہوگا۔
نفرت کی قےاور چنگاریاں اس کے جسم سے پھوٹنے لگیں۔۔ بیڑیاں شدید گڑ رہی تھیں مگر دشمن کو اپنے ساتھ ان بیڑیوں میں قید دیکھنے کے منصوبے اس نے ہر صورت کامیاب کرنے تھے۔
اور کتنے ہی کامیاب ہوچکے تھے، استہزاء اور کینہ کی لہریں اس کے وجود پر ثبت تھیں
“میں تجھے اس ٹھنڈک سے کھینچ لاؤں گا”
وہ بڑبڑایا۔
آسمانوں تلے اس کا دشمن تھا، بہت جلد اس پر حملے کرنے تھے… پرجوش وہ قہقہہ لگا پڑا.
اس کے قہقہے بلند ہوتے جارہے تھے.. دن ہوئے اس کا کوئی یار بیلی بھی نہ آیا تھا، کچھ تو خبر لاتا، کچھ تو سن گن دیتا, اس کی کاشت کتنی پھلی پھولی…
ہاۓ!!!
دکھ سے کراہ نکل گئی۔
لیکن اگلے لمحے وہ پھر سھاب واعد بن گیا… ایسا بادل جو بارش کی امید دلاتا ہو، اور وہ ایسا وجود تھا جو اپنے دشمن کے لیے برسات آتش پر ڈٹا تھا…
خود اس نے بھی اسی الاؤ میں گرنا تھا، جو وہ بھڑکا رہا تھا. اور ایسا بالیقین ہونا ہی تھا کیونکہ یہ وعدہ مالک کا تھا…
وہ مالک جس نے اسے اپنے ہاتھوں سے بناۓ وجود کی برتری تسلیم نہ کرنے پر سرزنش کی تو وہ اڑ گیا…مالک سے حجت بازی کر گیا، برھان اس سے لے لیا گیا کیونکہ وہ متکبر بن گیا تھا، سرکشی اختیار کر گیا تھا، کیسا جہل تھا!!
کیسا حسد!!
رب کی ربانیت کو للکار اٹھا.
پس پھر مہلت دے ڈالی، اس کے دونوں ہاتھوں سے بنائی مخلوق پر بغض اور عداوت کی چالیں چلنے کی..
اور پھر مالک نے وعدہ کیا جو تیرا بنا وہ تیرے ساتھ رہے گا..
جو میرا بنا وہ میرا کہلاۓ گا.
معاہدہ نور اور نار کے درمیان ایک وقت مقررہ تک کے لیے طے پایا، نہ نور کی راحتوں کا کوئی ٹھکانہ مالک نے رکھا اور نہ نار کے شعلوں کا پیمانہ.
ہر آن گروہ در گروہ وہ اپنا بناتا گیا… ہر آن اس کی کھلی دشمنی مالک کی شرف بخشی مخلوق پر عیاں رہی،
ہر ساعت اسکا سحر کارگر بنا.
گھنی چھاؤں کے لۓ بناۓ گۓ کو دہکتی خندقوں کی طرف وہ ہنکاتا جا رہا تھا کہ وہ ساعت آگئ جب مالک اس کو یکا یک بیڑیوں میں جکڑ کر تمام طاقت اس سے چھین کر اسے مفلوج بنا ڈالتا ہے ، اور اس کے دشمن پر اپنا ابر کرم بے حد و حساب برساتا ہے.
ہر آن نئی شان اس کے دشمن پر مالک مہربان… ایک دن نہیں.. دو دن بھی نہیں… نۓ چاند نکلنے سے ماہ کامل بننے تک… ماہ کامل سے طلوع ہلال تک…
ہر ساعت اس خاکی پر مالک کی رحمتیں نچھاور ہوتیں…
اور وہ!!!
وہ بھی اس کی ہی مخلوق تھا مگر متکبر تھا.
اس کے قبضے سے خاکی کو آزاد کرا لیا جاتا.گھنی چھاؤں اس زمینی پر تن جاتی اور آسمانی شعلے بجھا دیۓ جاتے.
یہ دن اس پر بڑے بھاری گزرتے تھے..
اکرام کی یہ انتہا!!
ہر رات مالک خاک سے بنی مخلوق کو اپنی طرف کر لیتا… وہ لرزتے ہوئے کہتے” ارحمنی!!”
مالک کہتا “وادخلی جنتی ”
اسکا حسد مذید بڑھ جاتا،
اچانک اسے زوردار گرز پڑا، قیدخانے کے یہ گرز اس کو تکلیف سے چرمرا دیتے…
یہ گرز دشمن کی آنکھ سے نکلے عاجزی اور ندامت کے قطرے تھے مالک کے سایہ میں پناہ کی پکار تھی ، وہ اذیت سے بے حال تھا کہ مالک کی رحمت ایسی فریاد پر جوش میں تھی…باب بہشت پر آویزاں فہرست طویل ہوتی جارہی تھی. خوش بخت تھے جو گڑ گڑاتے تھے … ارحمنی مولایا۔