ڈاکٹر نفیس اختر،کانپور،انڈیا۔۔۔۔۔۔۔۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر میں نے احباب کے اصرار کے باوجود تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے ۔ لیکن چند باتیں اس سلسلہ میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
1 ۔ یہ نتائج یقیناً خاص طور سے اہل ایمان کےلئے بہت اچھے نہیں ہیں ۔ بی جے پی اور کانگریس میں ایک واضح فرق بہر حال ہے کہ بی جے پی دو قومی نظریے پر یقین رکھتی ہے ۔ وہ سارے ہندوستانیوں کو ایک قوم کی حیثیت سے نہیں دیکھ پاتی ہے۔ ان کے نزدیک ہندوستان میں مسلم اور عیسائی اور باقی ہندوستانی ( ہندو) تین الگ الگ قومیں ہیں ۔
پھر وہ ہندوستان کو ہندووں کا قومی وطن بھی قرار دیتی یے ۔ اس لئے اس کے نزدیک مسلم اور عیسائی جب ہندوؤں کے قومی وطن میں رہ رہے ہیں تو انھیں بہرحال ہندو قوم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اور ان کی شرائط پر رہنا ہوگا ۔
دو قومی نظریہ کے معاملہ میں وہ جناح کے مخلص فالوورز ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کا وجود اس کے نزدیک ہندوستان میں پاکستانی تجاوزات( Encroachment ) کے مانند ہے ۔ اس کی پاکستان مخالفت کا مطلب پاکستان اور ہندوستان میں اس کی تجاوزات دونوں کی مخالفت ہے بلکہ درحقیقت پاکستان سے زیادہ نام نہاد پاکستانی تجاوزات ہی اس کا نشانہ ہیں ۔
وہ عوام کو یہ بتانے میں کامیاب رہی ہے کہ یہ پاکستانی لوگ ہندوستان کو توڑ کر اپنا گھر الگ بناچکے ہیں پھر بھی ہمارے ہی گھر میں رہ رہے ہیں ۔ اور ہمارے وسائل میں زبردستی حصہ دار بنے ہوئے ہیں ۔
حالانکہ در اصل ملک یک قومی و دو قومی نظریہ کی بنیاد ہر تقسیم ہوا تھا ۔ ایک طرف مذہب کے نام پر بننے والا پاکستان تھا دوسری طرف سیکولر ہندوستان ( نہ کہ ہندوؤں کا مذہبی قومی وطن ) ۔ جو لوگ یک قومی نظریہ پر یقین رکھتے تھے وہی پاکستان گئے تھے ۔
باقی یہاں رہ جانے والے لوگوں نے سیکولر ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا تھا۔ یعنی تقسیم ہندو مسلم کی بنیاد ہر نہیں بلکہ سیکولرازم اور مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی ۔ سیکولرازم پر یقین رکھنے والے لوگوں نے ہندوستان کو اپنا قومی وطن بنایا تھا وہ چاہے ہندو ہوں ، مسلم ہوں یا کچھ اور۔ سیکولر ہندوستان ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کےلئے یکساں حصہ داری والا ملک قرار پایا تھا ۔
اب کچھ شر پسند ہندووں کا اسے قومی ہندو ملک قرار دینے کی کوشش دراصل آزادی کے بعد تشکیل پانے والے ہندوستان کی روح کے منافی ہے ۔ اور اگر ایسا ہوگا تو یہ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے ساتھ دھوکہ ہوگا ۔
اگر جدید ہندوستان ہندو قومیت کی بنیاد پرتشکیل پاتا تو یہاں مسلمان کیوں رہتے وہ بھی پاکستانی تحریک کا حصہ ہوتے اور اپنے حصے کی زمین اور وسائل لیکر الگ ہوئے ہوتے ۔
آرایس ایس گاندھی و نہرو کی مخالف اسی وجہ سے ہے کہ انھوں نے پاکستان کی طرح ہندووں کا کوئی قومی ملک کیوں نہیں بنایا؟ بلکہ ان کی منشا تو یہ تھی پورا غیر منقسم بھارت اکیلے صرف ہندووں کا قومی وطن قرار پائے ۔
آرایس ایس اسی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہے ۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے اس ملک میں اسپیس کم سے کم کرتی جائے گی ۔ کانگریس کے دور میں بھی مسلمانوں پر مظالم ہوئے وہ بھی ہندووں کے ساتھ کھڑی نظر آتی تھی لیکن یہ محض ایک گھر میں ہونے والے جھگڑوں میں کسی ایک کی طرف داری جیسا معاملہ تھا ۔
اس کے پیچھے ہندو قومی وطن بنانے کا نظریہ نہیں تھا ۔ کانگریس کے دور میں بہرحال مسلمانوں کے پاس ایک طرح کا نظریاتی و تہذیبی اسپیس تھا ۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں جان ومال کے تعلق سے مسلمانوں پر کانگریس کی بہ نسبت کم مظالم ہوں لیکن ان کا نظریاتی و تہذیبی اسپیس بہرحال ختم کرنے کی کوشش ہوگی۔
انھیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش ہوگی ۔ جس میں ان کی تہذیب اور نظریہ کو فقط ہندو تہذیب نظریہ کے زیر سایہ سانس لینے کی ہی آزادی ہوگی ۔
یہ صورت حال ہمارے لئے خوف یا ڈر کا باعث نہیں ہے ۔ کیونکہ پردۂ غیب میں ہمارے لئے کیا چھپا ہے نہیں معلوم ۔ البتہ یہ صورت حال ہمارے لئے ایک چیلنج ضرور ہے جو ہم سے ایک بہترین منصوبہ بندی کی متقاضی ہے۔
2۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں ۔احتساب اس بات کا کہ آخر کیا وجہ یے کہ ستر سال کا ایک لمبا عرصہ ہمیں ملا اور ہم ہندوستانی سماج کا ایک نافع جز نہیں بن سکے ۔ قرآن کی سورہ رعد میں اللہ نے ایک اصول ذکر کیا ہے کہ زمین پر ثبات وقرار اسے ملتا ہے جو انسانوں کے لئے نافع ہو۔
ہم ہندوستانی مسلمان ہندوستانی سماج کی ایک ناگریز ضرورت نہیں بن سکے ۔ انبیاء کرام جب اپنی قوم کو دعوت دیتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ ہم تمھارے ناصح یعنی خیر خواہ ہیں اور امین یعنی بھروسہ کرنے کے لائق لوگ ہیں ۔ ہم ستر سال میں خود کو برادران وطن کے لئے خیر خواہ اور قابل اعتماد گروہ ہونے کا احساس پیدا کرنے میں ناکام رہے ۔
اگر ہم نے برادران وطن میں اپنے تعلق سے یہ احساس پیدا کیا ہوتا تو آرایس ایس ہمیں ان کے سامنے دشمن کی حیثیت سے متعارف کرانے میں کیسے کامیاب ہو پاتی ۔ موجودہ صورت حال یقینا ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ۔ وہ نفرت کے سہارے جنگ جیت رہے ہیں ہمارے پاس محبت کا ہتھیار تھا جسے ہم نے چلایا ہی نہیں ۔
ضرورت ہے اس نہج پر منصوبہ بندی کرنے اور عمل کرنے کی ۔