مارچ 2016ء کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مجموعی طورپر1810 کھرب پتی ہیں۔ جبکہ مارچ2014ء میں ان کی دنیا میں مجموعی طورپر تعداد1,645 تھی جن میں سب سے زیادہ امریکہ میں(492) تھے، دوسرا نمبر چین(152) اورتیسرا نمبر روس(111) کا تھا۔ اسی دنیا میں (دی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق )آدھی آبادی 245روپے روزانہ کماتی ہے، تین ارب آبادی اس سے بھی کم کماتی ہے، روزانہ 22ہزار بچے صرف غریب ہونے کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں۔ یہ بائیس ہزار بچے اس لئے نہیں مررہے ہیں کہ انھیں قدرت نے وسائل مہیانہیں کئے تھے، بلکہ سبب یہ ہے کہ ان کے وسائل پر مذکورہ بالا کھرب پتی قابض ہیں اور وہ لوگ بھی جو کھرب پتی اور ارب پتی بننے کی دوڑمیں شامل ہیں۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے روپیہ پیسہ جمع کرنے اور کاروبار بڑھانے والوں کی۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا!! چاہے یہ دولت کمائی جائے یا دوسرے انسانوں سے ہتھیائی جائے۔
دوسری طرف اسی دنیا میں ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جن کیلئے مال و دولت کا حصول ترجیحِ اول نہیں ہے۔ وہ روپیہ پیسہ کمانے کو ناجائز نہیں سمجھتے تاہم وہ اتنا ہی کماتے ہیں جتنا ضرورت ہوتی ہے، درصل ان کے لئے اس دنیا کی زندگی بھی پہلی ترجیح نہیں ہوتی، وہ کسی اور ہی دنیا کے خواب دیکھتے اور اس کیلئے تیاری کرتے ہیں۔ تیسری طرف اسی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جنھوں نے کرنسی کو مکمل طورپر اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے ، ان کا کہناہے کہ وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ پرسکون زندگی گزار رہے ہیں، وہ اسے ایک مکمل فطری زندگی قراردیتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ ایک دن وہ پوری دنیا کو اپنے نظریہ پر اکٹھا کرلیں گے اوردنیا کو کرنسی سے پاک کردیں گے۔
عصرحاضر میں اس نظریے کے تحت جینے والوں میں ایک جرمن خاتون ہائیدے میری شوارمر ہیںجو گزشتہ 17برس سے نقدی کے بغیر زندگی گزاررہی ہیں۔ انھیں زندگی کے 50سال گزارنے کے بعد کیش کے بغیر رہنے کا خیال آیا، 1942میں پیدا ہوئیں تو ان کے والد کی ایک کافی شاپ تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ ایک باغ کی رکھوالی بھی کرتے تھے، یوں اس گھرانے کا گزارہ ہوتاتھا۔ لوگ انھیں ایک امیرخاندان سمجھتے تھے لیکن ہائیدے میری شوارمر کہتی ہیں کہ میں کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی کہ اس وقت ہم امیر تھے یا غریب۔
ہائیدے میری شوارمر دوسری جنگ عظیم دوم میں اپنے گھروالوں کے ساتھ جرمنی آگئیں، یہیں پلی بڑھیں،جوان ہوئیں تو اگلے بیس برس تک بطور ٹیچرملازمت کرتی رہیں، ریٹائرمنٹ کی عمر سے بہت پہلے ملازمت کو خیرباد کہا اور سائیکوتھراپسٹ کے طورپر کام شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ کرنسی کے بغیرہی زندگی گزارنے کے نت نئے طریقے تلاش کرتی رہیں۔ انھیں ہرایسی تدبیرمسحورکردیتی تھی،1994ء میں انھوں نے گیو اینڈ ٹیک سنٹرل( Give And Take Central)کے نام سے ایک ایکسچینج سرکل تشکیل دیا۔ اس سرکل میں شامل لوگ مختلف چیزوں کے بدلے گھر کی صفائی یا اسی قسم کی دوسری خدمات فراہم کرتے تھے۔
ہائیدے میری شوارمر کہتی ہیں کہ اس دوران میں نے محسوس کیاکہ میری زندگی میں کرنسی کی ضرورت کم سے کم ہورہی ہے۔ تب میں نے سوچا کہ میں کرنسی کے بغیر ایک سال گزارکے دیکھتی ہوں۔ ایک سالہ تجربہ نے ایسی نئی زندگی کا مزہ دیا کہ پھر پرانی زندگی کی طرف پلٹنے کو دل ہی نہ چاہا۔مسز شوارمر نے یہ تجربہ ایک بار نہیں، چاربارکیا۔ وہ کہتی ہیں کہ کرنسی کے بغیردنیا قائم کرنا ممکن ہے، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اقدار میں تبدیلی پیداکریں۔ اس دوران انھوں نے بغیر کرنسی کے ایک سفر کیا اور اسے ایک ڈاکومنٹری فلم کی صورت میں محفوظ بھی کیا۔ کرنسی کے بجائے بارٹر سسٹم(اشیاء کے بدلے خدمات حاصل کرنے) کے مطابق جینے کا ایسا مزہ ملا کہ انھوں نے اگلے سولہ برس بھی اسی طرح گزاردئیے۔ان کااب بھی یہی طرززندگی ہے۔
آغاز میں انھیں کچھ عجیب سی باتوں سے پالا پڑا، مثلاً ایک سال کے دوران انھیں اپنے دو بچوں سے ملنے کیلئے زیادہ موقع نہیں مل سکا، اس پر اولاد نے شکوہ بھی کیا تاہم پھر ایسا وقت بھی آیا جب اسی اولاد نے اپنی ماں کے اس نئے طرزعمل پر فخرکیا۔ یادرہے کہ ہائیدے میری شوارمر اب70کے پیٹے میں ہیں۔40برس قبل انھوں نے شوہر سے طلاق لے لی تھی ، پھرشادی کا نہ سوچا۔ ریٹائرمنٹ کے بعدانھوںنے باغیچوں میں بیٹھ کر زندگی گزارنے کے بجائے، گھومنے پھرنے کو ترجیح دی۔
نئی زندگی کے شروع میں انھوں نے مختلف لوگوں کے باغیچے درست کرنے اور ان کے گھروں کی کھڑکیاں دھونے کا کام کیا اور بدلے میں اپنی زندگی کی ضروریات پوری کیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں کے خیال میں، میں فساد پیداکررہی ہوں، اشتعال انگیزی کا سبب بن رہی ہوں تاہم بعض لوگ کہتے ہیںکہ میں ان کے مسائل کا حل پیش کررہی ہوں۔
ان کا بریف کیس بہت ہلکا پھلکا ہوتا ہے، جب بھی کوئی موسم تبدیل ہوتاہے تووہ پرانے کپڑوں سے جان چھڑالیتی ہیں اور نئے کپڑوں کا انتظارکرنے لگتی ہے۔ یہ کپڑے ان کے دوست احباب دیتے ہیں۔ ہائیدے میری شوارمر ان کپڑوں کو خیرات کے بجائے معجزے قراردیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سے حیران کن اور دلچسپ واقعات دیکھے ہیں، مثلاً شروع دنوں کی بات ہے، میں نے ایک روز کچھ کھانے کو سوچا، جب میں گھر سے باہر نکلی تو کوئی میرے لئے وہی خوراک لے آیا۔ میں حیران رہ گئی کیونکہ میں نے کسی پر اپنی خواہش ظاہر ہی نہیں کی تھی۔
ہائیدے میری شوارمرکا شیڈول بہت سخت ہوتاہے، ہرہفتے وہ اپنی ڈاکومنٹری کی پروموشن کے لئے یورپ کے کسی نہ کسی علاقے میں کہیں نہ کہیں لیکچر دے رہی ہوتی ہیں۔ اپنی ڈاکومنٹری وہ اسی قدر رقم میں فروخت کرتی ہیں جس سے ان کے ریل کے کرایے کاانتظام ہوجاتاہے۔ وہ یہی سوچ کر خوش ہوتی رہتی ہیں کہ وہ دنیا کو کس قدر بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں، وہ اپنے آپ کو امن کی سفیر تصور کرتی ہیں، جو گھر گھر جاکر اپنا فلسفہ لوگوں کو سمجھاتی ہیں۔
وہ کہیں بھی زیادہ قیام نہیں کرتیں، ان کے دوست احباب ان کے فوراً آنے اور فوراًجانے والے طرززندگی سے بہت تلملانے لگتے ہیں، اپنے بہت سے چاہنے والوں کی طرف سے ان کے ہاں قیام کو طول دینے کی درخواستیں ہمیشہ مسترد کردیتی ہیں، بعض نے انھیں مستقل اپنے ہاں رہنے کی درخواست بھی کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں ہرطرح کے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا فرض سمجھتی ہوں۔وہ جرمن طلبہ وطالبات کے ایک گروہ کو بارٹرنگ سسٹم کے بارے میں سکھارہی ہیں۔ ہروقت ان کے پاس سٹکرز ہوتے ہیں، ان پر لکھا ہوتاہے:’’Gibb & Nimm‘‘۔ اس کا انگلش میں مطلب ہے:Give & Take۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرآپ ایک طرف کو چھوڑ دیں تو زندگی توازن کھو بیٹھتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ہم سب ایک ہی بنیاد رکھتے ہیں، اس لئے ہم سب کو مل جل کر کام کرناہوگا۔
ہائیدے میری شوارمر تو بارٹرسسٹم کی داعیہ ہیں،یعنی چیزوں کے بدلے میں چیزوں کا حصول۔ تاہم ایک ایسا بھی امریکی نوجوان سامنے آیا ہے جس نے فطری زندگی گزارنے کے لئے بہترین ملازمت اور عیش بھری زندگی قربان کردی۔ یہ ہے ڈینیل جیمز شیلابارجر جسے ڈینیل سیولو یا پھر محض سیولو بھی کہا جاتا ہے۔سن2000ء میں اس50سالہ شخص نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اب کبھی کرنسی استعمال نہیں کرے گا، ایک سکہ بھی نہیں۔ کولوریڈو میں پیداہونے والا یہ انسان اس وقت جنوبی امریکی علاقے مواب میں ایک غارمیں زندگی بسرکررہاہے۔ وہ زیادہ منظم اور وسیع پیمانے پر اس مقصد کے لئے کام کررہاہے ۔اس کی آپ بیتی’’The Man Who Quit Money‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ سیولو نے اپنے نظریے کی ترویج واشاعت کیلئے ایک ویب سائٹ بھی بنارکھی ہے جسے عیسائیت اور اسلام سمیت دیگرمذاہب کی تعلیمات ، مذہبی رہنماؤں اور مفکرین کے اقوال سے سجارکھاہے۔ جن سے یہی بات مترشح ہوتی ہے کہ روپے پیسے کے بغیر ہی بہتر زندگی بسرکی جاسکتی ہے۔بھلا! کیسے؟ اس کا جواب وہ خود دیتاہے:
’’جیسے میں خود جی رہاہوں، جیسے چیونٹیاں، ہرن ،گلہریاں اور چڑیاں جیتی ہیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پوری کائنات کی زندگی کرنسی کے بغیر ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ سیولو نے رسول مہربان ﷺ کا یہ فرمان بھی آویزاں کیاہے’’ الفقر فخری‘‘ یعنی فقر میرافخر ہے۔ رسول مہربانﷺ کا وہ فرمان بھی آویزاں ہے کہ جس میں آپﷺ نے قرض کے بوجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ بھی ویب سائٹ پرلگائی گئی ہے’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیجا ہو اور اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہ نہ کہا ہو کہ جو پیغام تم لے کرآئے ہو، اس کو ہم نہیں مانتے‘‘( سبا:34)۔ سیولو کافہم یہ ہے کہ دولت والے ہی حق کا انکارکرتے ہیں۔اس نے بائیبل اور تورات سے بھی دولت اور دولت مندوں کی مذمت والے حوالے دئیے ہیں۔
سیولو کاکہنا ہے کہ وہ گزشتہ گیارہ برس سے مسلسل نقدی کے بغیر زندگی بسرکررہاہے۔ اس دوران صرف ایک مہینہ ایسا آیا جب ڈالرز نے میری زندگی کو آلودہ کیا۔ اس کے علاوہ میں نے کبھی حکومت یا کسی تنظیم کی مدد حاصل نہیں کی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت کا لوگوں کی مدد کرنا غلط ہے یا سرکار سے مدد حاصل کرنے والے لوگ غلط کار ہیں۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ صرف میں ہی ڈالرز کے بغیر زندگی نہیں بسرکررہا بلکہ اس دنیا میں اور بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔سیولو نے یہ طرززندگی کیوں اختیارکیا؟ وہ کہتاہے:’’ سادہ سی بات ہے، ڈالر غیرفطری چیز ہے اور میں اس کے ساتھ غیرفطری زندگی گزارتے ہوئے تھک سا گیاتھا۔ مہذب زندگی کے مقابلے میں جنگلوں میںزندگی کی گاڑی تحفوں پر ہی چلتی ہے۔ مفت دو، مفت لو،اور اس کے درمیان ایک توازن قائم ہے۔کمرشل سویلائزیشن میں قرض دیاجاتاہے اور قرض لیاجاتاہے چنانچہ یہ طرز زندگی غیرمتوازن ہے۔ سیولو کو بغیر روپے زندگی بسر کرتے ہوئے گیارہ برس بیت چکے ہیں۔ اس کا اصول ہے کہ مفت دو، مفت لو۔ اس کا کہناہے کہ انسانوں کو کرنسی کے بغیر زندگی درج ذیل اسباب کی وجہ سے گزارنی چاہئے:
یہ ایک قدرتی طرززندگی ہے۔ جب ہم پیدا ہوئے تھے تو ہم پر کوئی قرض تھا نہ ہی ادھار، اس طرح ہم روپے پیسے کی زندگی کے بغیر ہی تھے، یہی فطری طرزحیات ہے اور بچوں کی خواہش کے عین مطابق۔ پوری کائنات اور اس میں رہنے والی تمام مخلوقات روپے پیسے کے بغیرہی زندگی گزاررہی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک توازن موجودہے۔ یہ لوگ اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو بھی چیلنج دیتے ہیں کہ وہ روپے پیسے والی زندگی میں ایک متوازن بجٹ تیار کرکے دکھائیں۔
اس کے سیاسی اسباب بھی ہیں۔ مثلاً سیاست کو دیکھئے! امریکا اور باقی دنیا کی مادہ پرستی کو دیکھ لیجئے۔ کلیساؤں کو دیکھ لیجئے کہ وہ کس بنیادپر سیاست کی پشت پناہی کرتے ہیں، وہاں نیکی کے پردے میں لالچ چھپاہوتاہے۔ دنیا میں کاروبار کرنے والی کارپوریشنز ہی کو دیکھ لیجئے، دنیا میں ہونے والی تجارت کو دیکھ لیجئے، کیا اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی رہتی ہے؟ ان کاجائزہ لینے کے بعد خود بخود جواب ملنے لگتے ہیں۔
اس کے روحانی اسباب بھی ہیں۔سیولو کہتا ہے:’’ میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا اور پرورش پائی، میں اپنے مذہب پر عمل کرنے میں سنجیدہ تھا، میں سوچا کرتاتھا کہ عیسائی کیوں یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے! ان کی یسوع مسیح کی تقریر کو دیکھ لیجئے جو متی کی انجیل میں درج ہے، کہاگیا ہے کہ قبضے چھوڑ دو، ادھار اور قرض کی زندگی سے ماورا ہوکر جیو، مفت دو اور مفت لو، دینے کے بعدکسی چیز کے ملنے کی توقع نہ رکھو، قرضے معاف کردو، کوئی بھی فرد اپنی ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ رکھے، اچھائی کا بدلہ اچھائی سے ملنے کی توقع اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے جذبہ سے پاک ہوکر زندگی بسر کرو، پورے وقار سے جیو۔
سیولو کہتاہے کہ جب میں بڑا ہوا تو دماغ کھلنے لگا، میں نے دیکھا کہ عیسائیت کے یہی اصول دنیا کے ہرمذہب میں بھی ہیں، مثلاً تاؤ ازم، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت، اسلام، مورمون ازم وغیرہ۔یہ سارے مذاہب فطرت کے اصولوں کی تعلیم دیتے ہیں،یسوع مسیح بھی اپنی گفتگوؤں میں فطرت ہی کی مثالیں دیاکرتے تھے۔ اسی پوائنٹ نے مجھے مذہب کی ان تعلیمات کی طرف مائل کردیا، میں نے ان کا مطالعہ شروع کردیا، حالانکہ میں پہلے مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتاتھا‘‘۔
’’میں کولوریڈو کے علاقے ڈینور اینڈ بولڈر میں رہائش پذیرتھا، زندگی کی تیزرفتاری سے بہت تنگ آچکا تھا، چنانچہ میں نے ملازمت کو خیرباد کہا اور امریکا کی مغربی ریاست یوٹاہ کے علاقے مواب کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ یہاں میں نے محسوس کیاکہ ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ اپنے طرزفکر کو سادہ رکھناہے، بدھ مت بھی تو یہی کہتاہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے مسائل میری سوچیں ہی تو ہیں۔چنانچہ جب میں نے فضول سوچوں سے نجات حاصل کرلی، فضول چیزوںسے نجات حاصل کرلی، تو میں نے محسوس کیا کہ زندگی گزارنے کی میری ضرورتیں بہت کم ہوگئی ہیں، اور میرا ڈپریشن بھی ختم ہوگیا۔ تاہم ابھی سکون حاصل کرنے کا یہ سفرختم نہیں ہوا تھا‘‘۔
’’میں ہربارملازمت حاصل کرنے کے لئے اپنا سی وی تیارکرتا، بعض اداروں میں ملازمت مل جاتی، ان کے ساتھ کنٹریکٹ کی دستاویزات پر دستخط بھی کردیتا، بنک اکاؤنٹ بھی کھول لیتا، سپرمارکیٹوں سے خریداری کرتا تاہم اس سب کچھ کے ساتھ میں محسوس کرتاکہ میں اپنے آپ کے ساتھ دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کررہاہوں۔پھر ایک سال کے لئے میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کرالاسکا چلاگیا، پہلے میں نے ڈیک پر ملازمت کی۔ مجھے کوئی بھی دیانت دار نظرنہ آیا۔ چنانچہ میں نے اس ملازمت کو بھی چھوڑدیا۔ اب میں انسانوں کی دنیا سے پرے تنہا جینے کے لئے چل نکلا۔اسی اثناء میں مجھے ایک اور ساتھی بھی مل گیا، وہ بھی میری جیسی کیفیت کا ہی شکارتھا، اب ہم دونوں کھمبیاں اور بیریز جیسی چیزیں کھاکر اچھی بھلی زندگی گزارنے لگے۔ الاسکا میں گزارے دنوں میں، میں دنیا میں قرضوں کے نظام پر غورکرتارہا، بنکنگ سسٹم، کارپوریشنز، جنگوں اور غربت کے بارے میں سوچتارہا‘‘۔
’’میں ہندوسادھوؤں سے بہت متاثرہوا جو پورے بھارت میں خالی ہاتھ گھومتے پھرتے رہتے ہیں، میں بھی ان جیسا بننا چاہتاتھا۔ الاسکا میں دو سال بھرپور اندازمیں گزارنے کے بعد میں نے اپنے قریبی دوست مائیکل کے ساتھ بھارت جانے کا ارادہ باندھ لیا۔ سب سے پہلے تھائی لینڈ پہنچے، چھیانگ مائی کے علاقے میں جانے کا تجربہ زندگی بدل دینے والا تھا۔اس کے بعد ہم بھارت چلے گئے۔چند مہینے وہاں گھومتے پھرتے رہے، ہم میکلوڈ گنج بھی گئے جہاں تبت کے پناہ گزیں زندگی بسر کررہے ہیں، دلائی لاما سے بھی ملاقات ہوئی، ایک ہفتہ تک ان کے لیکچرز سنتارہا، انھوں نے مغربی باشندوں کو اپنے درمیان پاکر بہت خوشی کا اظہارکیا کہ دنیا کے سارے حصوں سے لوگ تبتی بدھ مت کاجائزہ لینے کے لئے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرمذہب میں سچائی موجود ہے البتہ چند ایک لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے ذریعے تسکین حاصل کرتے ہیں۔اب میں سوچ رہاتھا کہ کیا مجھے بھارت ہی میں سادھو بن کر زندگی گزارنی چاہئے ؟ تاہم میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میں امریکا میں بھی سادھو بن کر رہ سکتاہوں۔ یہ آئیڈیا میرے لئے بہت دلچسپ تھا۔چنانچہ اگلے چندماہ بعد ہی میں امریکی سادھو بن چکاتھا۔ اب یہ نوبرس پرانی بات ہوچکی ہے‘‘۔
اس راہ پر چلنے والا ایک تیسرا نوجوان مارک بوائلے بھی ہے، وہ بنیادی طورپر ایک لکھاری ہے اور اب وہ فری اکانومی کمیونٹی تشکیل دینے کے لئے غیرمعمولی سرگرمی دکھا رہا ہے۔ نومبر2008ء سے کرنسی سے آزاد زندگی گزاررہے ہیں، وہ ’’فری اکانومی بلاگ‘‘ باقاعدگی سے لکھ رہا ہے، برطانوی اخبار’’ گارڈین‘‘ میں اس کی تحریریں شائع ہورہی ہیں۔ اس کی پہلی کتاب The Moneyless Man: A Year of Freeconomic Living سن2010ء میں شائع ہوئی۔اس کی کتاب میں اپنے پہلے سال کی زندگی کااحوال بیان کیاگیاہے۔اپنے تجربات اور چیلنجز کا تذکرہ ہے۔ ان دنوںجنوب مغربی انگلینڈ کے شہر باتھ کے قریب رہتا ہے۔ اُس نے گیلوے میو انسٹی ٹیوٹ سے بزنس کی تعلیم حاصل کی، فائنل ائیر میں اُسے فلم ’’ گاندھی‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ فلم موہن داس کرم چند گاندھی کی زندگی پر مبنی ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس فلم نے اس کی زندگی کو بدل ڈالا۔ برطانیہ میں گزرے چھ برسوں کے دوران بوئلے برسٹل میں رہا اور دو آرگانک فوڈ(کھاد کے بغیر خوراک تیارکرنے والی) کمپنیوں کا مینیجر بھی رہا۔2007ء میں اس کا اپنے ایک دوست ایک دوست کے ساتھ طویل مباحثہ ہوا جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دولت ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیتی ہے۔اس کے بعد اس نے فری اکانومی کمیونٹی قائم کی۔
فری اکانومی کمیونٹی قائم ہوئے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ مارک نے اگلے ڈھائی برس گزارنے کے لئے بھارت کے شہر ’پوربندر‘ جانے کا پروگرام بنایا۔ اس مقام پر گاندھی پیدا ہوئے تھے۔ مارک ان کے ’نمک مارچ‘ سے بہت متاثر تھا جو انھوں نے 1930ء میں کیاتھا۔ جنوری2008ء میں وہ اس حال میں امن کا سفیر بن کر چل نکلا، کہ ان کی جیب میں ایک ڈالر بھی نہیں تھا، کچھ سازوسامان تھا بس! جو کھانے پکانے میں کام آتاتھا۔ وہ فرانس کے شہر کیلائس پہنچا کہ اسے وہاں سے زبردستی واپسی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیاگیا۔ پھر اسی سال مارک نے ایک متبادل منصوبہ بنایا، اب وہ دولت کو اپنی زندگی سے مکمل طورپر نکال دیناچاہتاتھا۔ اس نے شمسی توانائی سے کام کرنے والا ایک پینل خریدا اور لکڑی کی آگ پر کھانا وغیرہ پکانے والا چولہا۔ اس نے نئے طرز زندگی کا آغاز ’Buy Nothing Day‘ سے کیا، اس روز صارفین کاروباری طبقے کے ظلم واستحصال کے خلاف احتجاجاً خریداری سے مکمل پرہیز کرتے ہیں، یہ دن 24نومبرکو بین الاقوامی سطح پر منایاجاتاہے۔
مارک کو نیا طرز زندگی اختیارکرنے پرمختلف حلقوں کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا سامنا کرناپڑا، کچھ نے پسند کیا، کچھ نے مذمت کی اور کچھ نے کہا کہ بھلا، کتنے دن چلے گا یہ ڈرامہ!! اس دوران اسے برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، امریکہ اور روس کے ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو سمیت میڈیا کے دیگرذرائع پر بھی اپنا فلسفہ پیش کرنے کا موقع ملا۔ ان سارے ممالک کے میڈیا نے زیادہ تر اس کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں رپورٹس شائع اور نشر کیں کہ وہ کیا اور کس طرح کھاتاپیتاہے، اپنی صحت کو کیسے برقرار رکھتاہے، زندگی کی مہنگی روایات سے کیسے نمٹتاہے؟ وہ اپنی تحریروں میں قارئین کو مسلسل باور کراتا رہتاہے کہ دولت کے بغیر زندگی بسر کرنا کوئی نیا آئیڈیا نہیں ہے، انسان ازل سے اسی انداز میں جی رہاہے۔ انسانی زندگی میں دولت کا دخل بذات خود نئی طرح ہے۔ انسانی زندگی کے بعض مراحل پرہی اس کا وجودنظر آتا ہے۔
مارک بوائلے کی قائم کردہ فری اکانومی کمیونٹی کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیاگیاکہ اس وقت دنیا کے 168ممالک میں42ہزار425 رکن موجود ہیں۔ یہ کمیونٹی دنیا کے دیگرانسانوں کو یہ منفرد طرززندگی اختیارکرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو آمادہ ہوجائیں انھیں بتایاجاتاہے کہ کیسے یہ پرسکون زندگی گزاری جاتی ہے۔ اس کی باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں۔انھیں اپنے غصے پر قابو پانا، تحمل کے ساتھ زندگی گزارنا سکھایاجاتاہے، سائیکل کی سواری کی طرف مائل کیاجاتاہے، روٹی بنانا سکھایا جاتا ہے، حتیٰ کہ یہ لوگ فنڈریزنگ بھی کرتے ہیں۔
فری اکانومی کا ایک بلاگ بھی ہے، 2007ء میں جب سے یہ بلاگ شروع ہوا ہے ، مارک بوائلے ہی اس کا بنیادی لکھاری رہا۔ حال ہی میں مہمان بلاگرز کو بھی یہاں لکھنے کی اجازت ہے۔ان میں ہائیدے میری شوارمر اور ڈینیل سیولو اور ٹومی اسٹکینن بھی شامل ہیں۔ مارک بوائلے آج کل فری اکانومی کمیونٹی کا ایک گاؤں قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اب مارک فی اکانومی ٹرسٹ قائم کرنے کا سوچ رہاہے، اس کے لئے زمین خریدی جارہی ہے۔ مارک کا کہناہے کہ اگر ہم اپنی خوراک خود اگائیں تو انسانی خوراک کا تیسرا حصہ کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ اگرہم اپنی کرسیاں اور میز خود ہی بنائیں تو جب ہم اپنے گھر کی اندرونی سجاوٹ اور ترتیب بدلناچاہیں گے تو کبھی انھیں اٹھا کر باہرنہیں پھینکیں گے۔
ٹومی سٹیکائنن(Tomi Astikainen) بھی ایسے ہی ایک فطرت پسند شخص ہے۔ جون2009ء میں انہوں نے اپنا گھربار بیچ کر بے گھر کی زندگی گزارناشروع کردی اورپھر جولائی2010ء میں اپنی جیب سے ڈالرز بھی نکال کرپھینک دئیے۔ان کا بھی کہنا ہے کہ دولت انسانی زندگی کا حصہ رہی ہے لیکن اب یہ فائدے سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہے۔ اس نے انسانی زندگی میں خوف پیدا کردیا ہے ، لوگوں کے باہمی اعتماد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قسم کے نظام کا مزیدحصہ نہیں رہناچاہتاتھا۔ میں محض زندہ رہنے کے لئے زندگی نہیں گزارناچاہتاتھا بلکہ میں اس سے لطف اندوز ہوناچاہتاتھا، اگرمیں دوسروں کا اعتماد جیتنا چاہتاہوں تو مجھے ان پر انحصار کرناہوگا اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھرپورانداز سے گزارسکتاہوں۔
میں بچپن ہی سے موجودہ طرزحیات کے بارے میں سوالات پوچھا کرتاتھا کہ آخرایسا کیوں نہیں ہے کہ میں ایک گروسری سٹورمیں جاؤں، وہاں سے اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھاؤں اورگھر آجاؤں؟ میرے اردگرد موجود بالغ افراد میرے اس سوال اور ایسے دیگرسوالوں کے جوابات نہیں دیتے تھے۔ یونیورسٹی میں حصولِ تعلیم کے دوران میری اس سوچ کا سفر جاری رہا۔ حتیٰ کہ اکنامکس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم نے بھی مجھے میرے سوالوں کے جواب فراہم نہیں کئے۔ میں نے گریجویشن کے بعد ہی اپنے سوالوں کے جواب پائے۔ اس کے بعد میں نے اپنی زندگی بھی اپنی فکر کے مطابق تشکیل دیناشروع کردی۔ 2004ء میں اپنی کار سے جان چھڑا لی اور پھر جون 2009ء میں فلیٹ سے بھی۔ میں اس نتیجے پر پہنچاتھا کہ میری جیب میں جو ایک پینی بھی ہے ، وہ بھی کسی کو مقروض کرتے ہوئے میری جیب میں پہنچتی ہے۔ یوں رفتہ رفتہ میں نے پونڈ اور پینی سے جان چھڑالی۔
جب ٹومی سٹیکائنن سے پوچھا جاتاہے کہ کیا رقم کے بغیر زندگی بسر کرنا مشکل نہیں لگتا ؟ وہ کہتے ہیں کہ بالکل بھی نہیں، بلکہ اب میں زیادہ سہولت کے ساتھ زندگی بسر کررہاہوں۔ جب رقم میری ملکیت سے باہر ہوئی تو میری زندگی میں زیادہ سادگی آگئی۔ ایسے میں کوئی بھی آپ کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ ہرروز ایک نئی مہم شروع ہوتی ہے۔
’’ ہمارے اردگرد لوگ بہت مہربان ہیں، وہ کھانے کی پیشکش کرتے ہیں جو میں قبول کرتاہوں۔ بعض اوقات میں ریستوران والوں سے بچاہوا کھانا مانگ لیتاہوں، یاپھر وہاں میزوں پر جو کچھ باقی بچاہوتاہے، اسے محفوظ کرلیتاہوں۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ بیمار ہوتے ہیںتوکیاکرتے ہیں؟ انشورنس کمپنیوں کے ہاں رجسٹرڈ ہیں تو جواب نفی میںملا، کہنے لگے کہ جب کبھی میں بیمار یا زخمی ہوتاہوں اور اپناعلاج خود نہ کرسکوں تو میں سمجھ لیتاہوں کہ اب یہ مسئلہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ عام طورپر میں درد کو برداشت کرلیتاہوں، اس کے باوجود مجھے طبی مدد کی ضرورت ہوتو وہ خود بخود میرے پاس آجاتی ہے۔ ایک بار میرے زخم کے ٹانکے کھلنے تھے، میرے میزبان نے اس مرحلہ پر میری مدد کی اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ایک بار میرے دانت میں درد شروع ہوگیا، اس بار بھی مفت طبی مدد ملی‘‘۔
ان کا کہنا ہے’’میں سمجھتاہوں کہ ہمارا 18000قسم کے جذبات سے پالا پڑتا ہے، ان کا تعلق خوف سے ہوتاہے یا پھر محبت سے۔ زمانہ حال میں زیادہ تر لوگوں کے جذبات خوف سے جڑے ہوتے ہیں، زندگی ہارجانے کا خوف، صحت خراب ہونے کا خوف، ملازمت چھوٹ جانے کا خوف، ساتھی سے بچھڑجانے کا خوف، بچوں سے جداہونے کا خوف، مقام ومرتبہ چھوٹ جانے کا خوف، ساکھ خراب ہونے کا خوف، گھر سے بے گھر ہونے کا خوف، دولت چھن جانے کا ڈر۔ خوف کا یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتاچلاجاتاہے۔ہم شعوری طورپر خوف کا انتخاب نہیں کرتے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ساری کائنات باہم جڑی ہوئی ہے۔ جب ہم اچھی چیز کا انتخاب کرتے ہیں تو پھر اچھی باتیں ہی ہوناشروع ہوجاتی ہیں، مثبت توانائی کی ریڈی ایشن ہوتی ہے، زندگی میں دلچسپ لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں ، دلچسپ واقعات رونما ہوتے ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ آپ خوف کے قابو سے نکل جاتے ہیں‘‘۔
کہتے ہیں:’’ میرا کوئی مستقل پتہ نہیں ہے، میں مسلسل حرکت میں رہتاہوں، تاہم میں اسے سیروتفریح نہیں سمجھتا۔ یہ میرا طرززندگی ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنے دوستوں سے ملنے اور نئے دوست بنانے کا موقع ملا۔ موسم گرما کی راتیں ستاروں سے سجے آسمان تلے گزارنا پسند کرتاہوں، اس طریقے سے میں فطرت سے زیادہ متعلق رہتاہوں۔ میں کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتاہوں۔ اگر ساری دنیا گفٹ اکانومی کا نظریہ اختیارکرلے گی تو میں پھر کچھ الگ کام کرناشروع کردوں گا۔ میں ہروقت کسی نہ کسی کام میں لگا رہتاہوں۔ لکھتا ہوں، کچھ پکانے میں لگارہتاہوں، اور مختلف تدابیر کے ذریعے میں لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہوں۔ میں معاشرے کو کچھ دینے میں بہت سنجیدہ ہوں، لوگوں کی زندگیوں کو قلیل المدتی اور طویل المدتی سطحوں پراچھی زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتاہوں۔ اس کام کے لئے مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ ہی میں کسی ایک پیشے کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرناچاہتاہوں‘‘۔
ٹومی سٹیکائنن اس راہ پر چلنے کے خواہش مندوں سے کہتاہے کہ ان کا ذہن اس حوالے سے بہت زیادہ واضح ہوناچاہئے۔ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ طرز زندگی رقم بچانے کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس کو مفت میں سیروتفریح کا بہانہ سمجھیں۔ آپ یہ بھی واضح کرلیں کہ آپ کہیں اسے تجرباتی طورپر اختیارتو نہیں کررہے ،کیا آپ اپنی زندگی کو مستقل بنیادوں پر تبدیل کرناچاہتے ہیں۔ آغاز میں آپ ایک سال کیلئے یہ تجربہ کریں، آپ ثابت قدم رہ سکیں تو زندگی کا اگلا سفر بھی اسی ڈگر پر گزاریں۔ لوگ جب زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ مختلف راستے اختیارکرتے ہیں۔کچھ اپنی جگہ پر ہی رہتے ہیں جبکہ کچھ سفر کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں تاکہ انھیں نئے لوگوں سے ملنے اور نئے ماحول میں جینے کا موقع ملے۔ بغیر روپے پیسے کے جینے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنے آپ پر قدغنیں خود لگائیں اور اس میں اپنی سہولت کو ملحوظ خاطررکھیں۔ریستورانوں کی میزوں پر بچا ہوا کھانا کھانے کا معاملہ ہو، مانگی ہوئی خوراک کی بات ہو، جنگلوں میں گھومنے پھرنے کی بات ہو، پیدل چلنا ہو، سائیکلنگ کی بات ہو، جو بھی انداز اختیارکرناچاہیں، اس کا تمام ترفیصلہ آپ ہی نے کرناہے۔
بارٹرسسٹم(Barter) اور گفٹ اکانومی ہے کیا؟
اس نظام میں اشیاء اور خدمات حاصل کرنے کے بدلے میں اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ آج بھی پاکستان کے دیہاتوں میں کہیں نہ کہیں یہ نظام چل رہاہے، کمہار اپنے گدھوں پر کسی کے کھیت سے گندم یا چاول وغیرہ لاتے تھے تو بدلے میں انھیں گندم اور چاولوں کی ایک طے شدہ مقدار دی جاتی تھی۔ اسی طرح انہی دیہاتوں میں سائیکل پر پھل وغیرہ بیچنے والے بارٹر سسٹم کے تحت پھل وغیرہ فراہم کرتے تھے۔ اگرکوئی لوہار ایک کسان کومویشی باندھنے کی زنجیر فراہم کرتا ہے تو بدلے میں اسے اناج یا کسی فصل کا کچھ حصہ دیا جاتاہے۔ ضروری نہیں کہ اشیاء کا یہ تبادلہ برابری کی سطح پر ہو، اصل اہمیت قدر کی ہوتی ہے۔یعنی دو افراد یا دواقوام کو کس چیز کی کتنی ضرورت ہے۔ اس سسٹم کو سمجھنے کے لئے اس مثال کا بھی مطالعہ کرلیجئے۔ اگر ایک فرد کے پاس کچھ مویشی ہیں تاہم ایک گائے اس کی ضروریات سے زائد ہے۔ اس فرد کو کچھ بکریوں کی ضرورت ہے یا گندم کے بیج کی یا کہیں سے سامان وغیرہ اٹھانے کے لئے ٹرالی کی یاپھر بچوں کے لئے کپڑوں کی۔ اب وہ اعلان کرتاہے کہ کون اسے ایک گائے کے بدلے میں 15بکریاں دے گا؟ یاپھر12یا پھر 11 بکریاں۔کسی بکریوں والے فرد کو ایک گائے کے بدلے میں جو قیمت منظور ہوگی تو اس تعداد میں بکریاں فراہم کردے گا۔ اس طرح دونوں افراد کی ضرورتیںباہمی رضامندی سے پوری ہوجائیں گی۔ یہی معاملہ بیج اور ٹرالی کے ضمن میں بھی ہوگا۔
جن معاشروں میں کرنسی اپنی قدر مکمل طورپر کھودیتی ہے، ایک روٹی خریدنے کے لئے نوٹوںسے بھرے بریف کیس کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں بارٹرسسٹم ہی کام دیتاہے۔ آج کی دنیا میں زمبابوے، جنوبی سوڈان ، اریٹیریا سمیت افریقہ کے بعض حصوں میں یہ نظام کام کررہاہے۔ جنوبی مشرقی ایشیا اور جنوبی امریکا میں بھی اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتاہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں یہ نظام اب بھی کام کررہاہے۔
یہ نظام کب سے رائج ہے، تاریخ دان اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں تاہم خیال ہے کہ خدمات کے بدلے میں اشیاء دینا روز اول سے ہی رائج ہے۔ اسے گفٹ اکانومی کا نام بھی دیاجاتاہے۔ یہ منفرد اکنامکس صرف افراد ہی کے درمیان نہیں بلکہ مختلف اقوام کے درمیان دوستی ، دشمنی اور تجارت غرضیکہ مختلف حالتوں اور صورتوں میں ہوتی ہے۔
ہائیدے میری شوارمر ہو یاڈینیل سیولو ،مارک بوائلے ہو یاپھر ٹومی سٹیکائنن، ان میں سے ہرکوئی یہی چاہتاہے کہ اب انسانی ضرورت اسی اندازمیں تشکیل دی جائے۔ وہ انسانی زندگی کولالچ، حرص اور ہوس سے مکمل طورپر پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بارٹر سسٹم یا گفٹ اکانومی کو ان تمام مسائل کا حل قراردیتے ہیں، ایک ایسی اکانومی جس میں دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے رضاکارانہ سرگرمی کا عمل دخل ہوتاہے۔