نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔
شفاف دستانے پہنے اس کے ہاتھ بڑی مہارت کے ساتھ مختلف سائز کے کٹرز استعمال کر رہے تھے، خاصی دیر بعد جب وہ فارغ ہوئی تو اپنا کام دیکھ کر اس نے ایک گہری سانس لی اور ارد گرد پھیلی اشیاء سمیٹنے لگی۔ دستانے کوڑے دان میں، برتن سنک میں، کٹرز صاف کر کے کٹلری دراز میں اور خوبصورت آرٹ پیس فرج میں۔
وہ جیلی کارونگ میں کمال ہنر رکھتی تھی، ایسے نمونے بناتی کہ دیکھنے والا اش اش کر اٹھتا۔ رنگ برنگی جیلی سے بنی پھولوں کی ٹہنی، چنی منی سی ٹرین اور کتاب پر بنا ستارہ، آنکھیں تحیر سے پھیل ہی جاتیں۔ یہ سب کھانے کی میز پر جیلی سے بنا دیکھ کر۔
دنیا اسے کمال کا فنکار کہتی تھی لیکن اس کا میاں اس کے کام کو خوار کہتا۔ اس کا خوار کہنا اسے سلگا جاتا لیکن ویک اینڈز پر فروزن فوڈ مائکرو ویوو میں اپنے اور بیٹی کے لئے تیار کرتے، کارونگ میں مصروف بیوی دیکھ کر "خوار” کا تمغہ دینا، اسے سو فیصد جائز لگتا۔ بظاہر وہ گھر میں ہوتی لیکن اپنے مداحوں کے آرڈر کی تکمیل میں مگن۔
یہ شوق اس کی خودمختاری کی چابی تھی، اپنے کام کا اسے اچھا بھلا معاوضہ ملتا ،نت نئے مہنگے ترین کارونگ کورسز اسی بل پر وہ کر تی تھی۔
میاں اس کی مصروفیات سے چڑ کر ایک آدھ جملہ کہہ دیتا تو فوراً کہتی "تم کو تو ہر وقت مستعد خادمہ چاہیے.!!”
"دیکھ رہے ہو کام ہی کر رہی ہوں”
اور پھر وہ غصہ میں برتن پٹختا وہاں سے ہٹ جاتا۔ اس وقت دس سالہ کلی کو پپا اس دیو کی طرح لگتے جس نے مما کو قید کر رکھا ہو۔
اس ہفتہ کی دوپہر بھی جب وہ تیراکی کرکے گھر لوٹا تو بھوک زوروں پر تھی۔ بیٹی کو بلاتے ہوۓ اُس نے فروزن فوڈ مائیکرو کرکے میز پر رکھا، وہ مستعدی سے حسب معمول کام میں جتی تھی۔ اس نے بیوی کو ایک آدھ بار پکارتے کھانے پر ساتھ بلانا چاہا لیکن ایک آدھ مسکراہٹ اور "ہوں، ہاں” کے سوا وہ کچھ نہ کر سکی۔ کسی آرڈر پر بطخ اور اس کے بچے بنانے تھے،جیلی کم تھی۔ایک چوزہ رہ گیا تھا. تازہ بنی جیلی کی کچن میں پھیلی گرم لپٹیں اس کا مزاج گرم کر گئیں۔
"اسٹاپ ڈوئنگ آل دس شٹ” -(بند کرو یہ سب بکواس)
وہ چیخا تو بیٹی کے منہ میں اس کا پسندیدہ لے زانیہ اچانک بے ذائقہ ہوگیا، چونچ کی نوک بناتے اس نے میاں کو یکبارگی نگاہ اٹھا کر دیکھا اور کسی تاثر کے بغیر کام کرتی رہی.
کھانا رکھا رہ گیا اور اس مہینہ ایک اور لڑائی کا اضافہ ہوگیا۔
"مما آپ کو جادو آتا ہے!!” ماں کے ہاتھ میں تھاما پتلی نوکیلی دھار والا چاقو چابکدستی سے سانچوں میں جمی جیلی کو سرخ گلاب، سبز پتے یا زرد گھنٹی کی شکل دیتا تو کلی ششدر رہ جاتی تو ماں اس کی کٹورا سی آنکھیں دیکھتی گال چوم لیتی.
"مما میری سالگرہ کے کیک پر آپ نے انناس بنانا ہے.”
ایک دن وہ بولی تو جیلی سے تتلی کے پروں کو شیپ دیتی۔ ماں نے ایک نرم نگاہ کلی پر ڈالی اور پر کے کنارے کو ہلکا سا گولائی میں ڈھال دیا۔
"انناس ہی کیوں؟ "پر تیار کرنے کے بعد ماں نے پوچھا۔
"اس لیے کہ اس کے سر پر تاج ہوتا ہے” اس کی ننھے گداز ہاتھوں کی انگلیاں سر پر تاج کی مانند کھل گئیں.
مما!!
ہوں؟
"ماما کب آئیں گے ؟ "
چوکور بلوریں ٹرے میں جیلی سے بنے تتلی اور پھول بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
ماں نے اپنے آرٹ کو ستائشی نظروں سے دیکھتے اطمینان بھری سانس لی اور ٹرے کو فریج میں سیٹ کر دیا.
"آؤ ماما کو ویڈیو کال کرتے ہیں۔”ماں نے اپنے تازہ شہکار کی تصویر آن لائن پیج پر ڈالتے فرانس بھائی کو کال ملائی،رابطہ ہوتے ہی دونوں ماں بیٹی ہنس پڑے۔ ماما کا تازہ ہئیر کٹ خاصا دلچسپ سا تھا، جلد ہی تینوں کی ہنستی مسکراتی گفتگو شروع ہو چکی تھی۔
"ماما! کل آپ کی سالگرہ ہے نا، آپ کی ایج کیا ہے؟ "کلی کے آنکھوں میں شوخی تھی۔
مما، ماما اور وہ، یہ مستطیل اسے بے حد پرسکون لگتا تھا۔
"میں آپکی مما سے آٹھ سال کم ہوں بس!! "
اور مامی سے؟
شششش!!! انگلی ہونٹوں پر رکھتے ماما ہنس پڑے۔
"وہ مجھ سے پانچ سال کم "
ماما نے جواب دیتے استری آن کی تھی۔
"بہنوئی جی کے کیا حال ہیں؟ "
میاں کے ذکر پر وہ چپ ہو گئی۔
"کنزرویٹوو مرد ہیں بس "کچھ توقف کے بعد وہ بولی تو بھائی ہنس پڑا۔
” تمہارے ساتھ رہتے بھی؟” بھائی کے شرارتی لہجہ پر اس نے بھنویں اچکائیں۔
وہ استری شروع کرچکا تھا، اس کی نظریں اس کے مہارت سے چلتے ہاتھوں پر ٹک چکی تھیں۔
بیلا کدھر ہے؟ اس نے بھائی سے تاثر ظاہر کئے بنا بھاوج کے متعلق پوچھا۔
"ابھی جم سے ایروبکس سیشن کرا کر لوٹی ہے، ہم نے کچھ منٹس میں دوست کے گھر پارٹی میں نکلنا ہے۔ یہاں ویک اینڈ پر دیسی ملاقات کا اپنا مزہ!!”
"پلیز شرٹ! "
پیچھے سے آواز آئی تو وہ بات ادھوری چھوڑ کر معذرت کرتا بیوی کو استری ہوئی قمیض دینے چلا گیا۔
ناگواری کی لہر بھاوج کے لیے اٹھی، بھائی کاٹھ کا الو اسے لگا۔
ایک منٹ میں وہ آگیا، اب دوپٹہ کی باری تھی، یہ وہی سوٹ تھا جو اس نے بھاوج کو تحفتاً دیا تھا۔
اس نے کڑوے خیال کو میٹھے انداز میں کہنا چاہا لیکن الفاظ ہی نہ ملے… ” بیلا کیا کرتی ہے پورا دن ؟ "
بھائی نے ہاتھ روک کر بہن کو دیکھا،سوال سمجھ چکا تھا۔
"پندرہ منٹ پہلے میں نے ہی اس کے تیار سوٹ کو ناپسند کرتے کہا کہ وہ یہ سی گرین سوٹ پہنے کیونکہ میری ٹی شرٹ بھی اسی شیڈ میں ہے۔”
"میرے بہنوئی اور میری بہن میں فرق ہونا چاہیے آپا جی.”… وہ مزاحیہ انداز میں بولا تو وہ چڑ گئ۔
"اتنا تو بیوی کو ماننا ہی چاہیے”،وہ بڑ بڑائی۔
"جی بالکل!!”
اچانک اسکرین پر بیلا کا چہرہ چمکا،اسی سی گرین سوٹ میں جو ابھی استری ہوا تھا، مسکراتے ہوئے اس نے ہاتھ ہلایا۔
” کھانا دیر سے ملے گا، میاں صاحب کو سینڈوچ بنادوں، اطمینان سے بات کروں گی. "
” چینج کرلیں، میں تیار ہوں” بیلا نے میاں کو یاد دلایا تو وہ کھٹک گئی۔
” ماما کون سا سینڈوچ؟” کلی کو کھوج ہوئی۔
"ہنہہ ہمارے میاں تو کبھی ایسا نہ کریں، ہمارے بھائی کو جنتی بیوی بننے کا شوق ہے۔” ماما بھانجی کی باتوں سے بے نیاز ‘کنزرویٹوو’ میاں کی شکوہ کناں پل بھر میں خود بھی اسی روپ میں ڈھل چکی تھی۔