بعض اوقات ہمیں کوئی ایسی کہانی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے جو اذہان وقلوب سے مذہب کے بارے میں قائم غلط تاثرات کا صفایا کردیتی ہے، ایسے تاثرات جو روزانہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو پراگندہ کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم مذہب اسلام اور اس کے ماننے والے ہیں۔
ان دنوں سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر قائم کیاجارہاہے۔ برطانوی بچوں کے ذہن اس قدر خوف اور نفرت کے ملے جلے خیالات سے بھر دئیے گئے ہیں کہ ہر تیسرا برطانوی بچہ سمجھتاہے، مسلمان برطانیہ پر غلبہ حاصل کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے برطانوی اخبار’ دی انڈی پینڈنٹ ‘ نے اس حقیقت کا اعتراف کیاہے کہ یہاں سب سے زیادہ امتیاز مسلمانوں سے برتاجارہاہے۔
32 فیصد برطانوی مسلمانوں کا کہناہے کہ انھیں ائیرپورٹس پر امتیاز کا سامنا کرناپڑتاہے جبکہ 80 فیصد مسلمانوں کو اس ملک میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی اندازمیں اسلام اور مسلمان مخالف جرائم کا شکار ہوناپڑتا ہے۔ برطانیہ میں مساجد پر حملے ہوتے ہیں، مسلمانوں کے اداروں کو نذرآتش کرنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں، مسلمان مردوزن پر تشدد کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ مسلمان خواتین اور لڑکیوں کے حجاب کھینچ لئے جاتے ہیں اور ان پر ’دہشت گرد‘ ، ’دہشت گرد‘ کے آوازے کسے جاتے ہیں۔
برطانوی صحافی ہیلن سٹون بھی کسی لمحہ مسلمانوں کو ایسا سمجھتی تھی تاہم پھر کچھ ایسا ہوا، جس نے اس کے قلب وذہن کو مسلمانوں کے بارے میں ایسے آلودہ خیالات سے صاف و شفاف کردیا۔ اس نے چند روز پہلے معروف برطانوی اخبار ’ دی انڈی پینڈنٹ ‘میں اپنی والدہ کی فرسٹ کزن ، بزرگ خاتون للی کے بارے میں ایک کہانی لکھی۔ یہودیت سے تعلق رکھنے والی آنٹی للی کی عمر اس سال مارچ میں 105برس ہوئی ۔
اس موقع پرملکہ برطانیہ نے انھیں دوسری بار سالگرہ مبارک کا کارڈ بھیجا۔ للی سن 1939ء میں جرمنی سے برطانیہ منتقل ہوئی تھیں۔ پہلے پہل وہ ایک گھر میں کام کرتی رہیں، اس کے بعد شادی کی اور ایک بیٹی کی ماں بن گئیں ۔گزشتہ 54برس سے وہ لندن کے شمال مغربی علاقے میں تین کمروں کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ 25 برس پہلے ان کے شوہر کا انتقال ہوا، تب سے گھر کے سارے کام خود ہی کرتی تھیں۔
وہ 99 برس کی تھیں کہ ایک روز گرگئیں، ان کے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہرکوئی سوچ رہاتھا کہ اب ان کی زندگی میں کوئی ڈرامائی تبدیلی آئے گی۔ یقیناً اب للی کو اولڈ ایج ہوم میں جانا ہی پڑے گا۔ تاہم آنٹی للی کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہاتھا۔ ہسپتال میں کچھ عرصہ علاج اور صحت کی بحالی کے بعد وہ واپس اپنے گھر آئیں اور ایک بارپھر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی خواب گاہ تک پہنچ گئیں۔
آنٹی کی واحد اولاد بیٹی ریگنا، شادی کے بعدسے امریکا میں مقیم تھیں۔ تین ہزار میل دوری پر رہ کر وہ دن میں دوبار اپنی والدہ کو فون یا فیس ٹائم( ویڈیوفون) پر بات کرتی تھیں۔ سال میں متعدد بار اپنی والدہ کے ہاں چکر بھی لگالیتی تھیں۔ بعض اوقات وہ خاندان کے کچھ دیگر لوگوں کو بھی یہاں لے آتی تھیں۔
آنٹی للی94سال کی تھیں، ایک دن وہ اپنے گھر کے سامنے والے باغیچہ میں مصروف تھیں، ساتھ والے گھر میں نئی آنے والی پاکستانی فیملی کی خاتون بھی وہاں پہنچ گئیں، دونوں میں گپ شپ ہونے لگی۔ اس پاکستانی گھرانے کے مجموعی طور پر چودہ ارکان تھے۔ محمد اور شامین اسلام، دونوں میاں بیوی پہلی بار 1977ء میں انگلینڈ آئے تھے۔ کچھ عرصہ مڈلز بورغ میں رہے، پھر 2002ء میں کیلبرن منتقل ہوئے، اس کے بعد اب یہاں ویلزڈن گرین میںآبسے تھے۔ یہ سب لوگ راسخ العقیدہ، باعمل مسلمان تھے۔ بزرگوں کا احترام ان کے مذہب کا لازمی تقاضا ہے۔
چاہے بزرگ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اس روز شامین کی سب سے چھوٹی دو سالہ بیٹی للی کو ’نانی جی‘ کہہ کر مخاطب کرتی رہیں۔ تب سے اس گھرانے اور آنٹی للی کے مابین بے مثال حد تک گہرا دوستانہ ہوگیا۔ صرف دوستانہ ہی نہیں، بلکہ اس مسلمان گھرانے نے آنٹی للی کو اپنے گھرانے کا باقاعدہ فرد بنالیا۔
شامین کے شوہر محمد نے آنٹی کے گھر اور باغیچہ کے مشکل کام سنبھال لئے، بعض اوقات وہ آنٹی کے ساتھ چائے کی میز پر گپ شپ میں بھی وقت گزارتے۔ شامین اور ان کی بیٹیوں نے آنٹی کے لئے خوراک کی تیاری کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ وہ آنٹی کی ہلکی سی آواز پر ان کے پاس کھڑی ہوتی تھیں۔ اسی طرح وہ ریگنا کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ میں رہتے تھے تاکہ اسے تسلی رہے کہ آنٹی کا پوراخیال رکھاجارہاہے۔ آنٹی کی 100ویں سالگرہ کا اہتمام بھی اسی مسلمان پاکستانی فیملی نے کیا جو بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔
آنٹی للی کی ایک سوپانچویں سالگرہ کی تقریب میں ایک دوسری مسلمان خاتون امریش اور ان کی دوسالہ بیٹی زینا اور بہن تنیم بھی شریک ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں آنٹی للی کی ایک بڑی تصویر تھی ،جس پرلکھاتھا:’’ دادی اماں! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ بچی نے تصویر دی اور پھر آنٹی سے زور کی جپھی ڈالی اور بوسہ لیا۔
اگرچہ یہ پاکستانی فیملی آنٹی للی کی خوب خدمت کرتی تھی تاہم 105سال کی عمر تک آنٹی للی اپنے کام کسی حد تک خود بھی کرنے پر قادرتھیں۔ اپنے لئے کھانا بھی تیارکرسکتی تھیں اور اپنی دیگر دیکھ بھال بھی کرسکتی تھیں۔ ہاں! وہ بعض اوقات یہ ضرور کہتی تھیں کہ اب ان سے زیادہ تیزی سے چلا نہیں جاتا، پہلے جیسی رفتار سے کام نہیں ہوتے۔ اس بزرگ خاتون کی بھانجی ہیلن سٹون کہتی ہیں:’’ جب میں آنٹی سے ملنے گئی تو اپنے نواسوں کو بھی ساتھ لے گئی۔ آنٹی ان بچوں کو اپنے باغیچہ میں کھیلتے دیکھ کر بہت خوش ہورہی تھیں۔
جب ہم واپس آنے لگے تو آنٹی نے بڑے اصرار کے ساتھ ہربچے کو پانچ پونڈ کا نوٹ دیا، کہنے لگیں کہ آپ کو کوئی تحفہ نہیں دے سکتی کیونکہ میں مارکیٹ نہیں جاسکتی۔ آنٹی کی روزانہ کی زندگی بہت خوش کن اور مثبت ہوتی تھیں،وہ ہر آنے جانے والے کے ساتھ بے حد دلچسپ ملاقات کرتیں‘‘۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے آنٹی کی زندگی میں کچھ مشکلات داخل ہوئیں۔ چنانچہ ان کے شاندارپاکستانی ہمسائیوں نے اب روزانہ صبح سویرے ان کی صفائی وغیرہ کے لئے باقاعدگی سے آنا شروع کردیا۔ ان کے کپڑے بھی یہی لوگ تبدیل کرتے تھے۔ اسی طرح شام کو بھی شامین اور ان کی بیٹیاں آتیں اور آنٹی کے سونے تک ان کے ساتھ رہتیں۔ جب آنٹی اس قدر کمزور ہوگئیں کہ سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکتی تھیں تو شامین کی دوبیٹیوں نے ڈبل بیڈ نیچے والے کمرے میں سیٹ کرکے اسے آنٹی کی خواب گاہ بنادیا اورپھر فیس ٹائم پر ریگنا کو بھی سب کچھ دکھادیا۔
جب آنٹی مزید کمزور ہوگئیں تو ریگنا ان کے یہاں آگئیں تاہم انھیں محسوس ہوا کہ وہ تن تنہا اپنی والدہ کو نہیں سنبھال سکتیں۔ چنانچہ شامین اور ان کی بیٹیاں بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے دن میں دوبار آجاتی تھیں جیسے ان کا معمول تھا۔ یہ مسلمان پاکستانی گھرانہ جس طرح آنٹی للی سے محبت کرتاتھا، احترام کرتاتھا اور دیکھ بھال کرتاتھا، اسے دیکھ کر ایسا لگا جیسے دنیا میں مذہبی اور نسلی عصبیتیں ختم ہورہی ہیں۔
یہ فیملی بہترین ہمسایہ ثابت ہوئی۔ اس گھرانے کی خواتین آنٹی کی بہت قریبی اور بہت قیمتی دوست بن گئیں۔ ریگنا جانتی ہے کہ وہ اس فیملی کی اس قدر بڑی قرض دار بن چکی ہے کہ اس سے یہ قرض چکایا نہیں جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اس گھرانے کے ہرفرد کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک رابطہ میں رہے گی۔
آنٹی للی 26 مارچ 2015ء کو انتقال کرگئیں۔ اس وقت ان کے ساتھ بیٹی موجود تھی، یہ بزرگ خاتون نہایت خاموشی اور سکون سے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ یہودی روایت کے مطابق خاتون کی تدفین اگلے روز ہرٹفورڈشائر کے یہودی قبرستان میں ہوئی۔ ان کا داماد اور دو نواسے امریکا سے سیدھے عین اس وقت قبرستان میں پہنچے جب تدفین ہونے والی تھی۔
للی کا ٹیکسی ڈرائیور محمد اقبال بھی پاکستانی تھا، وہ امریکا سے آنے والے مہمانوں کو ائیرپورٹ سے لے کر پہلے للی کے گھر اور پھر قبرستان پہنچا۔ اقبال للی کی تدفین کے وقت قبرستان میں ہی موجود رہا۔ اس نے امریکا سے آئے مہمانوں سے ائیرپورٹ سے گھر اور پھر قبرستان تک لے جانے کا کرایہ وصول نہ کیا۔
تدفین کے وقت محمد اور شامین روایتی سفید شلوارقمیص پہنے موجود تھے۔ للی کے مسلمان عراقی ہمسائیے بھی موجود تھے۔ انھوں نے بھی ثابت کیا کہ وہ آنٹی للی کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھتے تھے۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق مرد میت کو قبرمیں اتارتے ہیں۔ یہ کام شامین کے شوہرمحمد، ٹیکسی ڈرائیور اقبال اور ان کے عراقی دوست نے سرانجام دیا۔ انھوں نے للی کے انتقال پر بھی اسی محبت اور احترام کا شاندار مظاہرہ کیا جو آنٹی کی زندگی میں کرتے تھے۔
اب ہیلن سٹون کہتی ہے: ’’اس دنیا میں جہاں ہرطرف سے لڑائی، جھگڑے، انتشار دیکھنے کو مل رہاہے، وہاں یہ کہانی انسان کی روح کو خوشی اور سکون سے سرشار کردیتی ہے اور یہ ایمان تازہ کردیتی ہے کہ اس دنیا میں اچھے اور مہربان انسان موجود ہیں‘‘۔
برطانیہ یا مغرب میں صرف ایک ہی محمد، شامین اور اقبال نہیں ہیں، ان جیسے بہت سے دوسرے محمد ، شامین اور اقبال بھی ہیں لیکن وہ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت کی گردوغبار میں دبے ہوئے ہیں۔
امریکا، برطانیہ سمیت پورے مغرب میں دہشت گردی کی وارداتیں سب سے زیادہ دوسرے گروہ کرتے ہیں لیکن تاثر اس طبقے کا خراب کردیاجاتاہے جس کے چند ایک افراد ہی ایسی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔’گلوبل ڈیٹابیس ٹیررازم‘ کے اعدادوشمار کے مطابق اگر 1970ء سے2007ء تک،سینتیس برسوں کے دوران پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیاجائے تو مجموعی طورپر دنیا بھر میںدہشت گردی کے87000 واقعات ہوئے تھے جن میں سے 2695 یعنی 3 فیصد واقعات ان لوگوں نے کئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔
ان میں سے 2369 واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد10یا اس سے کم تھی،201 واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد11 سے50 تک تھی، 16 واقعات میں ہلاک ہونے والے51 سے100 تھے اور 4واقعات میں 101یا اس سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ ان اعدادوشمار سے وہ لوگ بھی باخبر ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان پیدا کرتے ہیں، افسوس! کہ نفرت پیدا کرنے والے یہ لوگ دنیا میں ’’امن کے علمبردار‘‘ کہلاتے ہیں اور محمد، شامین اور اقبال جیسے لوگ دہشت گرد۔
ایک تبصرہ برائے “مسلمان تو ایسے ہوتے ہیں”
بہت دلچسپ اور سچی کہانی ھے، انسانیت ،اخلاقیات اور محبت کی کمی کے اس دور میں ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ھے