مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے میں بہت بچپن سے ہی جنید جمشید شہید کی مداح تھی،اکثر و بیشتر دل دل پاکستان،اور کبھی سانولی سلونی سی محبوبہ گنگناتی پائی جاتی۔ کچھ ان کے دلکش سراپے سے متاثر رہتی کہ کیسا لمبا قد،خوبصورت آواز اور نہایت وجہیہ سراپا،”امی! کس قدر پیارے ہیں۔۔۔”میں جب جب انھیں دیکھتی، بے ساختہ یہ فقرہ ضرور کہتی۔۔۔
وقت گزرتا گیا ہم بچپن کی سرحد پار کر کے آگے بڑھتے گئے کہ ایک دن سنا جنید جمشید نے موسیقی کو خیرباد کہہ دیا ہے اور دین کی طرف پلٹ آئے ہیں۔
اماں خوب متاثر رہتیں اُن دنوں کہ کیسے دل بدلا لڑکے کا ماشاءاللہ اور ہم خوب متاسف رہتے کہ ہائے کیوں چھوڑ دی گلوکاری! اتنا اعلیٰ گاتے تھے۔ بالی عمریا میں کہاں اتنی پختگی ہوتی ہے کہ ہم بھی اماں کی طرح اُن کے فیصلے کو سراہتے ۔
سو ہم یک دم ان کے گلوکاری چھوڑنے پہ خاصے بد مزہ ہوئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بدمزگی ستائش میں بدل گئی کہ ماشاءاللہ! کیسا بہترین ضبط پایا ہے اپنے نفس پہ کہ عروج کے زمانے میں آلاتِ موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ذرا سا بھی افسوس نہیں بلکہ “سمعنا واطعنا” کی عملی تصویر بن گئے۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ کے اس بندے کو اللہ نے اپنی راہ میں خوب پذیرائی دی۔
”محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے “ یہ غالبًا اُنکی پہلی نعت تھی جو زبانِ زدِ عام ہوئی اور پھر بہت سی پیاری نعتیں اُس خوش گلو نے پڑھیں،اتنے جذب اور دل سے پڑھیں کہ سب کے دلوں کو جکڑتی گئیں۔
اللہ کی سنت ہے ناں کہ جو اللہ کا بن جائے پھر اللہ سب کو اُس کا بنا دیتا ہے اور وہ انتہائی حسین ،قابل اور پیارا انسان جو دنیاوی جاہ و جلال رکھنے کے باوجود عاجزی کا پیکر بنے ہر وقت اس احساس کو دامن گیر رکھ کر اللہ کے آگے روتا اور اپنی پچھلی زندگی پہ توبہ کرتا رہتا جو نادانی میں طاؤس و رباب کے سنگ گزاری،تو یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ نہایت قدر دان رب اس کی قدر نہ کرتا؟؟؟ان ندامت کے آنسوؤں کو اپنی بے پایاں رحمت میں سمیٹ کر اس کی عزت میں اضافہ نہ کرتا؟
وہ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور اللہ پاک نے اُن کی اتنی محبت کو دیکھ کر انکی عزت،مال اور وقار میں بے پناہ اضافہ کیا یہاں تک کہ 7 دسمبر 2016 کی سرد شام آن پہنچی۔
شام کا وقت ہے،عجب بے زاری سی فضا پہ طاری ہے،میں سر نیہواڑے کمبل میں دبکی ہوئی ہوں۔ اماں نے خبریں سننے کے لیے ٹیلی ویژن چلا رکھا ہے کہ اچانک خبر آتی ہے حویلیاں کے پاس طیارہ گر کر تباہ اور جنید جمشید بھی طیارے میں سوار تھے۔
میں جیسے کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھتی ہوں، ہم دونوں ماں بیٹی ایسی تکلیف دہ حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ میری سرسراتی آواز فضا میں گونجتی ہے۔“امی! جنید جمشید کو تو کچھ نہیں ہوا ہو گا ناں۔۔۔۔یہ بتا کیوں نہیں رہے کہ وہ محفوظ ہیں۔
عجیب بے ربط سے جملے منہ سے نکلے اور خالی نظریں ٹیلیویژن پہ جمی رہیں دل جیسے رک سا گیا۔۔۔۔بے یقینی سی بے یقینی تھی اور آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا جب ہر چینل نے چیخ چیخ کر ایک ہی نوحہ سنایا تب بھی آنکھیں خشک رہیں اور دل انتہائی بے یقین ہاں اتنا ضرور ہوا کہ سر میں ناقابلِ برداشت درد شروع ہو گیا ۔۔۔۔شدید درد۔۔۔
اور آج پہلی بار J. سے جھمکے خریدے تو مانو دل بری طرح بے قرار ہے،ان کی شہادت کے بعد پہلی بار میں کئی ماہ بعد اِس بری طرح روئی کہ بی پڑوسن فرمانے لگیں۔
"تمہیں آج پتہ چلا ہے اس کی موت کا؟؟؟؟”
اور جانے کیوں آج یہ جھمکے بار بار اداس کر رہے ہیں۔۔۔۔
زمیں کے اندر بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے