یقینا یہ دنیا کا سب سے بڑا لنگر ہے، یہاں دولاکھ روٹیاں، ڈیڑھ ٹن دال اور دیگرخوراک روزانہ ایک لاکھ افرادکھاتے ہیں، بالکل مفت۔ بھارت کے مغربی شہر امرتسر میں واقع ’گولڈن ٹیمپل‘ کا یہ لنگر اس اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے کھانے کے مراکز میں سے ایک ہے جہاں اس قدربڑی تعداد میں لوگوں کو مفت کھانا فراہم کیاجاتاہے۔
ہفتے کے اختتام پر بہت سے لوگ ایک ہی دن دو باریہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔گولڈن ٹیمپل کوہرمیندر صاحب یا دربار صاحب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سکھ مذہب کی ایک اہم مقدس عبادت گاہ ہے۔ یہ وہی عبادت گاہ ہے جس پر1984 میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک خونی آپریشن کرنے کا حکم دیا،فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز اچانک دربارصاحب میں داخل ہوئیں اور ہزاروں افراد کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ آپریشن کے نتیجے میں اس کی عمارت کوبھی شدید نقصان پہنچا اور اس میں موجود سکھ حوالہ جاتی کتب خانہ بھی تباہ ہوگیا۔
آپ جب دربارصاحب میں داخل ہوں گے تو آپ کو پورے دربار میں صفائی ستھرائی اور نظم وضبط بخوبی نظر آتا ہے۔ دربارصاحب کا ایک ایک انچ دن میں سینکڑوں بار صاف ہوتاہے۔ لوگ آتے ہیں اور جوتے مرکزی دروازے ہی پر جمع کرادیتے ہیں۔ یہ لوگ صرف جوتے ہی مرکزی دروازے پر نہیں چھوڑتے بلکہ اپنی شہری ٹیپ ٹاپ بھی اُدھر ہی چھوڑ آتے ہیں۔ وہ ننگے پاؤں دربارمیں آتے ہیں جبکہ ان کاسر ڈھکا ہوتاہے۔ سکھ اپنی مخصوص پگڑی جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ سرپر سفید رومال باندھ لیتے ہیں۔
دربارصاحب میں یہ لنگر صدیوں پہلے سکھ مت کے بانی گورو نانک نے قائم کیاتھا۔ کوئی اس لنگر میں آئے اور پھر پیٹ بھر کے نہ جائے، ممکن ہی نہیں ہے۔ آنے اورکھانے والوںکا تعلق کسی بھی ذات، نسل یا مذہب سے ہو، اسے گرم کھانا ہی ملتاہے۔
لنگر کے منتظم ہرپریت سنگھ کہتے ہیں:’’ اوسطاً ہم ایک لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا کھلاتے ہیں، ہفتے کے اختتام اور خصوصی مواقع پر یہ تعداد دوگنا بڑھ جاتی ہے۔ لنگرخانہ ہروقت کھلا رہتاہے، کبھی بند نہیں ہوتا، روزانہ 7000 کلوگرام آٹا،1200 کلوگرام چاول، 1300کلوگرام دال اور 500کلوگرام گھی کھانا بنانے میں استعمال ہوتاہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں:’’ یہ ہماری روایت ہے۔ جس کا جی چاہے، آئے اور کھائے‘‘۔
دربارصاحب کے میوزیم میں ایک بڑی پینٹنگ لگی ہوئی ہے جس میں ایک سکھ گرو کی بیوی عام لوگوں میں کھانا تقسیم کررہی ہے، وہ دن رات ایک عام عورت کی طرح خدمت پر ماموردکھائی دیتی ہے۔ اس لنگرخانہ میں450 لوگ باقاعدہ کام کرتے ہیں جبکہ ان کا ہاتھ بٹانے والے سینکڑوں رضا کار الگ ہیں۔ ان میں سے ہررضاکار نے مہینے یا ہفتے میںکچھ دن یا کچھ وقت یہاں گزارنا طے کررکھاہے۔ آپ جب بھی لنگرخانے کے کچن میں جھانکیںگے، سینکڑوں افراد پیاز کاٹنے ، لہسن چھیلنے اور دال صاف کرنے پر لگے ہوتے ہیں۔ مثلاً نئی دہلی کا چھیالیس سالہ سنجے اروڑا مہینے میں دو دن یہاں آتا ہے۔
وہ کہتاہے:’’ یہ سیوا ہے جو میں یہاں کرنے آتاہوں، میں جب سیوا کرتاہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں۔ یہ صرف مفت کا لنگر ہی نہیں ہے بلکہ یہاں آکر تمام انسانوں کا باہم فرق ختم ہوجاتاہے‘‘۔ ان میں اشوک کمار بھی شامل ہے جو ہندومت سے تعلق رکھتاہے لیکن وہ گزشتہ پانچ برس سے روزانہ یہاں آتاہے، وہ بطور رضاکار کام کرتاہے۔ وہ پہلے ایک بک بائنڈر تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’میں یہاں بہت خوش اور پرسکون ہوں‘‘۔ یہ سب رضاکار ہر روز تین لاکھ پلیٹیں، چمچ اور پیالیاں بھی صاف کرتے ہیں‘‘۔
سکھ مت ہندومت سے بالکل مختلف مذہب ہے، اس میں کوئی ذات پات کا نظام نہیں جبکہ ہندومت کی بنیاد ہی ذات پات کے تصور پر ہے جہاں اونچی ذات والا فرد نچلی ذات والے فرد کے چھونے کو بھی ناجائز قراردیتاہے۔
یہاں آنے والے ہندو اپنے ذات پات کے نظام سے بہت بے زار ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس تصورہی کو کہیں دور چھوڑ کر دربار میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں آنے والے ہندو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ دربار صاحب کے لنگر کا کھانا کون اور کیسے لوگ تیار کرتے ہیں۔کھانا کھاتے ہوئے بھی کوئی نہیں سوچتا کہ کون آپ کو کھانا دے رہاہے، آپ کے ساتھ کون بیٹھاہے، آگے پیچھے کون بیٹھا ہے۔
یہ لنگرخانہ عطیات کی بنیاد پر چلتاہے۔ اس کا سالانہ بجٹ کروڑوں روپے میں ہوتاہے۔کہتے ہیں کہ اکبربادشاہ نے ایک بار گرو امر داس کو سونے کی اشرفیوں سے بھری تھیلی دینا چاہی تو انھوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ لنگر رب کے فضل وکرم ہی سے چلتاہے۔