سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے سیاسی منظرنامہ سے ہٹتے ہی تین عشروں سے زائد عرصہ تک ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن بدترین اختلافات کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ روز ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں جو کچھ ہوا، اس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رہنما پارٹی پالیسی پر شدید برہمی کا اظہارکرتے رہے۔
پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ایسے حالات میں ہوا جب میاں نوازشریف کی بیماری سیریس شکل اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے ، دوسری طرف میاں شہبازشریف سب کچھ چھوڑچھاڑ کر لندن مقیم ہوچکے ہیں۔
ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اب جلد واپس نہیں آئیں گے جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ میاں شہبازشریف کی لندن روانگی ڈیل کے لئے لکھے گئے سکرپٹ کا حصہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خواجہ سعد رفیق نے سوال کیا کہ مسلم لیگ ن کابیانیہ اس وقت ہے کیا؟ انھوں نے کہا کہ ایک بیانیہ نواز شریف کا تھا، اب کیا بیانیہ ہے؟ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کمزور لوگوں کو بڑے عہدے دیے جارہے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پنجاب کے تنظیمی عہدوں کی بندر بانٹ سے مزید مسائل ہوں گے،مسلم لیگ ن کی پالیسی مبہم ہونے پرپارٹی کونقصان پہنچ رہا ہے۔
اجلاس میں ایک دوسرے ن لیگی رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا کہ وہ نواز شریف کے بیانیے کے سوا کسی بیانیے کو تسلیم نہیں کرتے، انھوں نے سوال کیا کہ نواز شریف کی قربانیوں کا پارٹی نے کیا صلہ دیا ؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں جاوید لطیف نے اجلاس کے دوران شرکا سے استفسار کیا کہ کیا پارٹی رہنماؤں کو آواز اٹھانے کے لیے بھی نواز شریف خود کہیں؟
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن میں اسٹیبلشمنٹ قائم ہو چکی ہے، چار پانچ لوگوں کی اس اسٹیبلشمنٹ کو نہیں مانتے۔
میاں جاوید لطیف نے کہا کہ فیصلے پارٹی ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر صرف چار پانچ لوگ کررہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے اجلاس میں میاں جاوید لطیف کی باتوں کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان کی اکثریت نے تائید کی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن نے شہبازشریف کہ جگہ رانا تنویر کو چئیرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی جبکہ رانا محمد آصف کو پارلیمانی پارٹی کا لیڈر نامزد کردیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو قائدحزب اختلاف بنانے کا سوچ رہی ہے۔