جمال عبداللہ عثمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے چند حلقوں میں کل رات سے یہ خبر گرم تھی کہ شریف فیملی حکومت کو رقم دینے پر رضامند ہوگئی ہے اور شہباز شریف اسی سلسلے میں اس وقت لندن میں ہیں۔ آج اپنے کچھ ذرائع سے یہ خبر کنفرم کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا معلومات بہت حد تک درست ہیں۔ ایک باخبر اور اہم ذریعے نے اس کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ قربت کا تعلق رکھنے والی ایک ن لیگی شخصیت نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ شخصیت اس سے پہلے پرویز مشرف کے قریب ترین رہی اور مقتدر قوتوں کے بھی ہمیشہ قریب رہی۔ یہ شخصیت اس وقت ن لیگ میں اہم منصب ہر فائز ہے۔
رقم سے متعلق اب تک جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ پچیس ارب روپے کی ہیں، تاہم وزیراعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ رقم کی یہ ادائیگی علانیہ ہو جبکہ کچھ قوتوں اور ن لیگ کی اس اہم شخصیت کی خواہش ہے کہ معاملات اندر ہی اندر نمٹا دیئے جائیں۔ اس سلسلے میں اگلے چند روز اہمیت کے حامل ہیں۔
جبکہ ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی دوران میں نواز شریف فیملی کے کچھ اہم افراد نے عمران خان تک رسائی حاصل کرکے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف سے متعلق کسی حد تک نرمی دکھانے کی حامی بھری ہے تاہم شہباز شریف سے کے بارے میں ان کی رائے میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آئی۔
تاہم ن لیگ کے ذرائع کہتے ہیں کہ نوازشریف کو ڈیل کرنا ہی ہوتی تو اپنی بیوی کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر نہ آتے۔ نہ ہی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے۔ اب وہ یہ خسارے کا سودا کیوں کریں گے۔ وہ ان خبروں کے جواب میں استفسار کرتے ہیں کہ بالفرض پچیس ارب کی بات درست ہے تو وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟ جرمانہ؟ ٹیکس؟ یا کچھ اور؟ عدالتوں کی فیصلوں کا کیا ہو گا؟ اس کے بعد بھی عمران خان کامیاب نہ ہوا تو کیا ہو گا؟
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آصف زرداری اس سے پہلے ہی اپنے معاملات مقتدر قوتوں کے ساتھ نمٹانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ وہ ڈھائی سو ارب روپے کی حامی بھرچکے تھے جو ایک اعلی کاروباری شخصیت اور فورم کے ذریعے پہلے ہی طے ہوچکے ہیں۔ تاہم اسے بھی ایک قانونی حیثیت دی جاچکی ہے۔