’’ آصف علی زرداری کب اورکیسے بے نظیر کی زندگی میں آئے اورضیاء الحق کی فوجی آمریت نے اس معاملے کو کیسے آگے بڑھایا؟ ، یہ کہانی بھی اب کوئی راز نہیں رہی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری میں بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری سے شادی کی جو تفصیلی کہانی رقم کی ہے ، نئی کہانی میں اس سے کوئی مماثلت نظرنہیں آتی۔’’ پیپلزپارٹی بے نظیر کے ہاتھوںہارگئی‘‘ کے عنوان سے اپنی طویل سٹوری میں فوزیہ شاہین ہمارے سامنے ایک نئی تاریخ کا انکشاف کرتی ہیں جو درون سینہ مختلف کہانیوں کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔ فوزیہ شاہین کی لفظوں میںاب یہ بات راز نہیں رہی اوراسے رازرہنا بھی نہیں چاہئیے کہ آصف زرداری اوربے نظیر کی جوڑی آسمانوں سے پہلے ان بلند ایوانوں میںبنی تھی جہاںچارستاروں والے شاعر جنرل خالدمحمود عارف کا حکم چلتاتھا۔ اورجہاں جنرل ضیا کی خواہشوںکی تکمیل کے لئے کے ایم عارف کے علاوہ جنرل اخترعبدالرحمن، جنرل مجیب الرحمان، جنرل رحیم الدین، جنرل سعید قادر، جنرل جہاندادخان، جنرل غلام جیلانی، جنرل فضل حق، جنرل سروپ خان اورجنرل عمران اللہ سرجوڑکے بیٹھتے تھے اورعوامی جمہوری تحریک کے چیختے چنگھاڑتے منہ زوردریا اورخیبر سے کراچی تک امنڈتے ہوئے عوامی سیلاب کو کوڑوں، پھانسیوں اورزندانوں سے روکنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب بھٹو کی پھانسی کوچارساڑھے سال گزرچکے تھے، بے نظیر کراچی، سکھر اورسہالہ کی اسیری کے بعد70 کلفٹن کی چاردیواری میں نظربند تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو سنگین مرض میں مبتلا ہونے کے بعد یورپ جاچکی تھیں۔ بے نظیر قید تنہائی میں ضیا آمریت سے لڑرہی تھیں فوجی جنتا کسی قدآور بااعتبارسیاست دان کو خریدنے میں ناکام ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک روز 70 کلفٹن کی قیدی نوجوان لڑکی (بے نظیر) کی نگرانی پر مامور اہلکاروں میں بھگڈر مچ گئی، نوکروں کے چہروںسے پریشانی چھلک رہی تھی، مردہ فون کی تاروں میں جان ڈالنے کی کوششوں میں مصروف اہلکار اپنے اعلیٰ حکام کو بتارہےتھے کہ قیدی لڑکی کان کے درد سے تڑپ رہی ہے۔ ایک اعلیٰ افسر نے ماتحت اہلکاروں کی بوکھلاہٹ پر انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کان کا درد کون سی انوکھی بات ہے ، تم لوگ حواس باختہ کیوںہورہے ہو، تم لوگ مریضہ کو قریبی اسپتال لے جائو۔
اچانک اخبارات کے دفاتر میں یہ خبر ایک سنسنی کی طرح دوڑ گئی کہ بے نظیر کو مڈایسٹ اسپتال لایاجارہا ہے۔ شہر بھر کے اخباری فوٹوگرافر اپنے کیمرے چھپائے مڈایسٹ اسپتال کے قریب منڈلانے لگے۔ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی فوٹوگرافروں کی بوسونگھ کر وہاںپہنچ چکے تھے حالانکہ اخبارات ، رسائل اورجرائد پر سنسر لگاہوا تھا اوریہ آمر یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی فوٹوگرافر بے نظیر کی کوئی تصویر بنالے۔ کہیںایسا نہ ہو کہ کوئی ایک تصویرسمگل ہوکر بیرون ملک پہنچ جائے چنانچہ فوٹوگرافروں کو حفظ ماتقدم کے طورپر مڈایسٹ اسپتال سے دورکردیاگیا۔ اس دورمیں بے نظیر بھٹو کی تصویر چھاپنے پر ہی نہیںتصویر بنانے پر بھی پابندی تھی یعنی اگرکیمرے کا فلش بے نظیر پر پڑجائے تو جس ہاتھ میں کیمرہ تھا ، اس میں ہتھکڑی لگ سکتی تھی۔ یاپھر وہ ہاتھ کٹ بھی سکتاتھا۔ بے نظیر اس اسپتال میںپہنچیں۔۔۔۔۔
بےنظیر سرکاری گاڑیوںکے گھیرے میںایک قیدی کے طورپر گاڑی سے باہر نکلیں۔ ان کا ایک ہاتھ کان پر تھا۔ ان کے چہرے سے اذیت عیاںتھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔ اسپتال کے ای این ٹی کے شعبہ کے ڈاکٹروںنے کان کامعائنہ کیا اورتھوڑی بہت صفائی کے بعد کان دوائی ڈال دی اوردرد ختم کرنے والی گولیاں بھی دی گئیں۔ بے نظیر ایک بڑے عرصہ بعد گھر کی چاردیواری سے باہر نکلی تھیں۔ قیدی لڑکی کو کان کے دردمیں مبتلا ہونے کے باوجود باہر کی فضا بھلی بھلی سی لگ رہی تھی اوراس کا دل کچھ دیر باہر کی سیر کو مچل رہاتھا مگرقیدیوںکے لئے بہت دیرتک خواہشوں کا روگ پالنا مشکل ہوتاہے اس لئے انہوں نے 70 کلفٹن سے ڈیڑھ دوسوگز کی مسافت کو ہی غنیمت جانا اوریہ مسافت بھی ایک منٹ سے کم وقت میں طے ہوگئی۔ بے نظیرکو دوبارہ پنجرے میں بندکردیاگیا۔
پنجاب کالونی سے سن سیٹ بلیوارڈ جاتے ہوئے دائیں جانب تیسری یاچوتھی گلی میں الٹے ہاتھ پر پہلا مرکزی دروازہ زرداری ہائوس میں کھلتا تھا۔ یہ کرائے کا بنگلہ تھا جو حاکم علی زرداری کے زیراستعمال تھا۔ برابر والا گھر نیا مزاری ہائوس ہے جہاں بلندوبالا سیاسہ آہنی دروازے پر مزاری کا سنہری مونوگرام جگمگا رہا ہے۔ چند قدم اورآگے جائیں تودائین جانب کو میرہزارخان بجارانی کا بنگلہ ہے جو ایک زمانے میں سینٹ کی سیٹ پر مالک مکان کے بک جانے سے پہلے پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا مرکز ہواکرتاتھا۔
حاکم علی زرداری اپنے بنگلے کے آنگن میں سفید سنگ مرمر کی میز کے سامنے پڑی ہوئی آرام دہ کرسی پر نیم دراز تھے۔ ان کے سامنے خان بہادرمحمدایوب کھوڑو کی صاحبزادی حمیدہ کھوڑو بیٹھی تھیں جو حساس ایجنسیوں اور قوم پرست رہنما جی ایم سید کے پیروکاروں میں یکساں مقبول تھیں، سنگ مرمر کی میز پر رکھے شیشے کے دوشفاف گلاسوں میں سرخی مائل مشروب کچھ اورگہرا ہوتاجارہاتھا۔ حاکم علی زرداری خان عبدالولی خان کی اسیری کے بعد سردار شیربازخان مزاری کی سربراہی میں بننے والی این ڈی پی سے عملآ علیحدگی اختیارکرچکے تھے اوراب ان کا مشغلہ یہ رہ گیاتھا کہ وہ شام کو حمیدہ کھوڑو کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کریں، حمیدہ کھوڑو سندھ یونی ورسٹی کی نوکری قوم پرستی کی نذرکرچکی تھیں مگر اب لائنیں بہت دورتک ملی ہوئی تھیں۔
حاکم علی زرداری اورحمیدہ کھوڑو کے درمیان ہونے والی گفتگوبے نظیر بھٹو کے کان کے درد کی طرف چلی گئی۔ حاکم علی زرداری کے دل میں بے نظیر کی مدد کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ انہوں نے اپنی اس خواہش کو حمیدہ کھوڑو کے سامنے بیان کیا تو انھوں نے وعدہ کیاکہ وہ اس سلسلہ میں اوپر والوں سے رابطہ کریں گی۔ زرداری کی خواہش کو پرلگ گئے اوریہ خواہش اس بلند ایوان میں جاپہنچی جہاںجنرل خالدمحمود عارف سیاست دانوںسے نفسیاتی جنگ کے طورپر طریقوںپر تحقیق کررہے تھے۔ جنرل کے ایم عارف کی آنکھوںمیںچمک پیداہوئی۔ ان کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے ایک خیال آیا جس نے ان کے پورے وجود کو سرشار کردیا۔ زرداری کی خواہش نے انھیں ایک نیاراستہ دکھادیا، انہوںنے پاکستان کی عوامی جمہوری تحریک کے آگے بندھ باندھنے کے ایک طویل المیعاد منصوبے کے خدوخال ابھارنے کے لئے کاغذ پر لکیریں کھینچنی شروع کردیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی، شام ہونے سے پہلے 70 کلفٹن پر پہرہ دینے والے سرکاری اہلکاروں نے چہ مگوئیاں شروع کردیں اوریہ بات اب قیدی لڑکی تک بھی پہنچ گئی کی حاکم علی زرداری ان کے کان کے درد کے علاج کے لئے انھیں بیرون ملک بھیجنے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
پھر وہ وقت آیا جب رائے 70 کلفٹن کے سامنے والی سڑک پر پولیس اوردیگر مسلح اداروں کی لگ بھگ ساٹھ گاڑیوں کی دوقطاریں لگ گئیں، بے نظیر کو ایک کار میں بٹھایا گیا اورڈرائیونگ سیٹ ضلع سائوتھ کے قائم مقام ڈپٹی کمشنر احمد فہیم مغل نے سنبھال لی۔ قیدی لڑکی کو سرکاری گاڑیوںکے طویل جلوس میں ائیرپورٹ کی پرانی بلڈنگ کی طرف لے جایا گیااوررات کی خاموشی میں انھیں جہاز میںسوارکراکے یورپ بھیج دیاگیا اورجب صبح کا سورج طلوع ہواتو ملک بھر کے عوام کو یہ اطلاع ملی کہ کان کے درد کے باعث بیرون ملک علاج کی سہولت مہیا کرنے کے لئے بے نظیر کو یورپ روانہ کردیاگیا ہے۔
کراچی کے گرومندر سے سولجر بازار جانے والی سڑک پر چلیں تو آگے چل کر دائیںجانب ہولی فیملی اسپتال آتاہے جہاںبے نظیر پیداہوئی تھیں۔ اس اسپتال کے سامنے والی سڑک پر چلتےہوئے بائیں جانب مڑیں ،پھر دائیں مڑیں تو ڈبل روڈ آجاتی ہے۔ اس سڑک کے ایک طرف کوسٹ گارڈز کے دفاتر اورناصرہ سکول ہے جبکہ دوسری طرف ایک کثیرالمنزلہ عمارت کی پچھلی جانب کیپری سینما ہے۔ اس عمارت کے گرائونڈ فلور پر ایک اچھا ڈیکوریٹ کیاہوا دفتر تھا۔ یہ عمارت آصف علی زرداری کی ملکیت تھی اوریہ دفتر ان کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس دفتر میں اقبال میمن، فوزی علی کاظمی اورآصف کے دوسرے دوستوں کی آمد ورفت رہتی تھی۔ آصف زرداری کے والد حاکم زرداری چند سال قبل ٹنڈوالہ یار میںواقع اپنی 1800 ایکڑ اراضی غلام مصطفیٰ جتوئی کے بھائی غلام مجتبیٰ جتوئی کے ہاتھوں78 لاکھ روپے میںفروخت کرچکے تھے اوراس سودے کے بعد انہوں نے اردوادب کی انتہائی معتبر شخصیت اورآزادی کے بعد اقوام متحدہ میںپاکستان کے پہلے مندوب پطرس بخاری کی بھتیجی اورریڈیوپاکستان کے بانی زیڈ اے بخاری کی صاحبزادی سے شادی کرلی تھی۔ ٹمی بیگم آصف زرداری کی دوسری والدہ بن چکی تھیںاورحاکم علی زرداری آواری ہوٹل کے پیچھے لگ بھگ دوایکڑ پر بنے زرداری ہائوس زرداری ہائوس سے اس بنگلے میں منتقل ہوچکے تھے جس کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے۔ آصف نے والد کے ڈیفنس چلے جانے کے بعد پرانی حویلی والی وسیع وعریض کوٹھی کے اندر ڈسکوتھ بنوالیا جہاں رقص کی محفلیں سجتی تھیں، جہاںنقرئی قہقہے دیواروں سے پھسل کر فرش پر پھیل جاتے تھے اورتیز انگریزی مائی بھاگی اورعلن فقیر کی کلاسیکل گائیکی کا گلاگھونٹ دیتی تھی۔
اب اقتدار کا ہما حاکم علی زرداری اورآصف علی زرداری کے سرپرسایہ کرنے لگاتھا۔ جنرل ضیا الحق نے غیرجماعتی الیکشن کرانے کا اعلان کیاتو جنرل عارف کے خاکوںمیںرنگ بھرنے کا وقت آتاہوامحسوس ہوا۔ ان دونوںباپ بیٹوںکو کو حکم ملا کہ وہ نہ صرف خود ان غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیں بلکہ وہ پیپلزپارٹی کے ایسے رہنمائوںکو اس گروپ میں شامل کریں جو اپنی قیادت سے بغاوت پر آمادہ ہوں، چنانچہ پیپلزپارٹی کے باغیوںاورزرداری کے ساتھیوںکا ایک مشترکہ گروپ تیار ہوگیا جس نے غیرجماعتی الیکشن میں کودنے کا اعلان کردیا۔اس گروپ میں حاکم علی زرداری اورآصف علی زرداری کے علاوہ سید عبداللہ شاہ، آصف علی زرداری کے قریبی دوست آغاسراج درانی کے والد آغاصدرالدین درانی، آصف علی زرداری کے بہنوئی میرمنور ٹالپر، ٹنڈو محمدخان کے ٹالپر خاندان کی سربرآوردہ شخصیات میر اعجاز علی ٹالپر، میر ممتاز علی ٹالپر، میر عنایت علی ٹالپر، سکھر کے سردار نورمحمودخان لنڈ، پیپلزپارٹی کراچی کے سابق صدر اورسابق وفاقی وزیر عبدالستارگبول کے علاوہ اس گروپ کے بنانے والے حاکم علی زرداری اورآصف علی زرداری بری طرح ہارگئے جبکہ حاکم علی زرداری کے دامادمنورٹالپر، میر اعجاز علی ٹالپر، میرعنایت علی ٹالپر اورسردار نورمحمد لنڈ نے الیکشن جیت لیا۔ اس طرحپہلی مرتبہ غیرمرئی ، غیرسیاسی قوتیں سیاسی عمل اورسیاسی جماعتوںمیں نقب لگانے میں کامیاب ہوگئیں۔
الیکشن ہارنے کے بعد حاکم علی زرداری کو ایک بارپھر ولی خان کی چھائوں میں بیٹھنے کا حکم ملا اورآصف زرداری اپنے ڈسکوتھ میںواپس چلے گئے۔ 1986 میں آصف زرداری کے ڈسکوتھ والے بنگلے میں عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اورحاکم علی زرداری کو پارٹی کا صوبائی صدر بنایاگیا۔ یہ پارٹی این ڈی پی، عوامی تحریک، پی ڈی پی( آدھی) اورمزدور کسان پارٹی ( آدھی) کے انضمام سے وجود میںآئی تھی۔ اب شاموںکو آصف زرداری کی چار اور پانچ ستاروں والے ہوٹلوں میں آمدورفت بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ وہ ایک ایرانی دوشیزہ کے ہمراہ ایک فائیو سٹار ہوٹل میںداخل ہوئے تو لاڑکانہ سے پیپلزپارٹی کے دورہنمائوںسے ان کی علیک سلیک ہوئی۔ ایک رہنما نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ آصف کیااس ایرانی لڑکی سے شادی کررہے ہو؟ اس پر انھوں نے جواب دیاکہ یہ لڑکی تو میری دوست ہے۔ شادی تو میں تہماری لیڈر سے کروںگا۔ پی پی پی کے رہنما نے کہاکہ تم نے اپنی شکل دیکھی ہے آئینے میں؟ آصف نے کہاکہ خوب اچھی طرح دیکھی ہے۔
کے ایم عارف کا منصوبہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہاتھا۔ آصف زردای 1987 میں لندن گئے۔ بے نظیر کو ان کے اردگرد کے حلقے کے ذریعے یہ بتایاجاچکاتھا کہ آصف بہت خوش شکل نہ سہی مگر وہ ان سے بچپن سے پیارکرتا ہے۔ بے نظیر اورآصف زرداری نے ابتدائی تعلیم کراچی کے گرائمرسکول میں حاصل کی تھی اورہوسکتاہے کہ کمسنی کی ان کی ملاقاتیںبھی رہی ہوں۔ آصف زرداری کے لندن پہنچنے سے چند روز پہلے شہد کی مکھی نے نظیر کو کاٹ لیاتھا اوروہ کئی روز سے ہلکا ہلکادرد محسوس کررہی تھیں۔ آصف زرداری بے نظیر کے پاس پہنچے تو انھوں نے بے تکلفی سے بے نظیر کا ہاتھ پکڑ لیا اوران سے اسپتال چلنے کے لئے اصرارکرنے لگے۔ بے نظیر کے لئےیہ دوسرا موقع تھا کہ زرداریوںنے ان کے دکھ کو محسوس کیاتھا۔ پہلی مرتبہ ان کے کان میں درد ہوا تو حاکم زرداری نے کوشش کرکے انہیں بیرون ملک بھجوایا اوراب انھیں شہد کی مکھی نے کاٹا تو آصف علی زرداری ان کی دلداری اوردلجوئی کے لئے موجود تھے‘‘۔
یہاں سے محبت کی یہ انوکھی داستان اگلاسفر طے کرنے لگی اورپھر ایک روزبے نظیر کی آصف زرداری سے منگنی ہوگئ۔ منگنی کااعلان ہواتوملک بھر میںبالعموم اورسندھمیں بالخصوص پارٹی کارکنوں میں مخالفت کاطوفان اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاہم جب لڑکی راضی تھی تو پیپلزپارٹی کے کارکن کیاکرتے۔ ان کا احتجاج چند ماہ تک جاری رہا، پھر ہرسطح کے مقامی قائدین کے سمجھانے بجھانے پر مشتعل کارکنان کے جذبات ٹھنڈے پڑگئے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے بھائی میرمرتضیٰ بھٹو اس شادی کے سخت خلاف تھے۔ یہ ساری تفصیل ذوالفقار علی بھٹو کے ایک دیرینہ ساتھی احمد سلیم کی کتاب ’’ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں اورسول ملٹری بیوروکریسی‘‘ میں درج ہے جو جنگ پبلشرز نے 1990 میں شائع کی تھی۔ تب سے اب تک اس کہانی کی بے نظیر بھٹو نے تردید کی نہ ہی آصف علی زرداری کی طرف سے اسے چیلنج کیاگیا۔