نسیم حجازی کا نام سنتے ہی سیکولر اور لبرل طبقہ کسی خاص درد کا شکار ہونے لگتاہے۔ درد کا سبب یہ ہے کہ نسیم حجازی کے ناول قاری کو درسِِ جہاد دیتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کا درس دیتے ہیں، مسلمانوں سے محبت اور اخوت کا رویہ اختیار کرنے کا سبق دیتے ہیں۔
ایک صاحب نے اپنے درد کا یہی اصل سبب بیان کرتے ہوئے نسیم حجازی کو ننگی گالیاںدینا شروع کردیں۔ میں نے پوچھا کہ
“بھائی صاحب! آپ کے پسندیدہ فکشن رائٹرز اپنے فکشن کے ذریعے بے حیائی پھیلاسکتے ہیں تو نسیم حجازی اسلام ، مسلمانوں اور پاکستان کی محبت کا جذبہ کیوںپھیلانہیں سکتے؟”
صاحب نے فوراً اپنے اوپر دانشوری کی کھال چڑھائی اور کہنے لگے:
” نسیم حجازی نے تاریخ سے کھلواڑ کیا ہے”
میں نے عرض کیا:”نسیم حجازی نے تاریخ لکھی ہی نہیں، نہ ہی اس کا انھوں نے دعویٰ کیا ہے، انھوں نے ہسٹوریکل فکشن ہی لکھاہے، اس میں تاریخ کی بنیاد پر کہانی لکھی جاتی ہے، ہاں! اس میں کچھ ملمع کاری بھی ہوتی ہے۔ آپ کے پسندیدہ ہسٹوریکل فکشن رائٹرز نے بھی تو ملمع کاری کی ہے نا”
وہ برہم ہوتے ہوئے بولے:”ہمارے کون سے پسیندیدہ فکشن رائٹرز؟”
عرضکیا:” جن کا فکشن پڑھ کر آپ نے جودھا بائی کو اکبر کی محبوب بیوی بنادیا، حالانکہ جودھا بائی کا انسانی تاریخ میں کوئی وجود ہی نہیں، آپ نے مان لیا کہ انارکلی بھی کوئی شخصیت تھی، حالانکہ انارکلی کا بھی کوئی وجود نہیں تھا لیکن آپ نے ان خیالی کرداروں کو تاریخ کا حصہ بنادیا”
یہ سن کروہ صاحب اٹھے اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ اگلی نشست میں اس پر بات ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اگلی نشست ہی نہ آئی۔