امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رکنِ کانگریس نے کہا ہے کہ وہ ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر افراد کی جانب سے ان کے گیارہ ستمبر کے حملوں سے متعلق بیان پر اعتراضات کی یلغار پر خاموش نہیں بیٹھیں گی۔
حال ہی میں کانگریس کی رکن منتخب ہونے والی مسلمان ڈیموکریٹ الہان عمر نے یہ بیان صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے جواب میں دیا ہے۔
اس ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو شئیر کی ہے جس میں 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونے والے حملوں کی کلپس کے ساتھ ساتھ الہام عمر کے ایک حالیہ بیان کے چند حصے شامل کیے گئے ہیں۔ اس ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا ہے کہ ’ہم کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے۔‘
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ الہام عمر کہتی ہیں کہ اس دن ’کچھ لوگوں نے کچھ کیا تھا‘ اور اس کے فورا بعد ٹوئن ٹاورز پر حملے کے مناظر ہیں اور شہریوں کو عمارتوں سے بھاگتے ہوئے نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
حکمران ریپبلکن پارٹی کے ارکان نے الہان عمر پر الزام لگایا کہ انھوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کو ایک چھوٹا واقعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن ان کی اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی اکثریت الہان عمر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اِن ارکان نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الہان عمر کے بیان کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جا رہا ہے اور یوں کرنے سے صدر ٹرمپ الہان عمر اور دیگر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں۔
اس تنازع کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
گذشتہ نومبر میں ریاست منیسوٹا سے ایوانِ نمائندگان کی رکن منتخب ہونے والی الہان عمر امریکی کانگریس کی پہلی مسلمان خاتون ارکان میں سے ایک ہیں۔
ان کے خاندان نے صومالیہ سے ہجرت کرکے امریکہ میں پناہ لی تھی اور وہ کانگریس کی پہلی رکن ہیں جو حجاب بھی لیتی ہیں۔
پچھلے ہی ہفتے پولیس نے نیویارک میں ایک ایسے 55 سالہ شخص کو گرفتار بھی کیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے الہان عمر کے دفتر میں فون کر کے انھیں موت کی دھمکی دی اور مبینہ طور پر انھیں ’دہشتگرد‘ کہا۔
الہام عمر نے کہا کیا تھا؟
یہ فقرہ کہ ’کچھ لوگوں نے کچھ کیا تھا‘ دراصل الہان عمر کی اس تقریر سے لیا گیا ہے جو انھوں نے 23 مارچ کو شہری حقوق کی تنظیم ’کونسل آف امیریکن اسلامک ریلیشنز‘ کی ایک تقریب میں کی تھی۔
اپنے بیس منٹ کے خطاب میں انھوں نے مسلمان برادری کو درپیش اسلامو فوبیا جیسے مسائل اور نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کا ذکر بھی کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں جس فقرے کا ذکر کیا ہے وہ الہان عمر کی تقریر کے اس حصے سے لیا گیا ہے جس میں وہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا: ’سچ یہ ہے کہ ہمیں اس پریشانی کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے بہت عرصہ ہو چکا ہے کہ ہم دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو میں اس سے زِچ آ چکی ہوں۔ اس ملک میں بسنے والے ہر مسلمان کو زچ ہو جانا چاہیے۔ کیئر ( کونسل آف امیرکن اسلامک ریلیشنز) کی بنیاد گیارہ ستمبر کے بعد اسی لیے رکھی گئی تھی کہ تنظیم کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے کچھ کیا تھا (جس کی وجہ سے) اب ہم سب اپنے شہری حقوق تک رسائی کھو رہے ہیں۔‘
تنازع یہاں تک کیسے پہنچا؟
الہان عمر نے تقریر 23 مارچ کو کی تھی لیکن یہ لوگوں کی نظروں میں نو اپریل کو اس وقت آنا شروع ہوئی جب ریاست ٹیکسس کے ریپبلکن ڈین کرنشا نے مذکورہ ویڈیو کلپ کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ الہان عمر کا فقرہ ’ناقابل یقین‘ ہے۔
اس کے بعد سے امریکہ میں قدامت پسند ذرائع ابلاغ، خصوصاً فوکس نیوز نے الہان عمر کے بیان پر بحث کرنا شروع کر دیا۔
ریپبلکن نیشنل کمیٹی کی رکن رونا میکڈینئل نے الہان عمر کو ’امریکہ کی مخالف‘ قرار دیا۔
اس قسم کے بیانات کے جواب میں الہان عمر نے کہا کہ ’میری جان کو جتنا خطرہ ہے، اس کے حوالے سے یہ بیانات میرے خلاف تشدد پر اکسانے‘ کے مترادف ہیں۔ انھوں نے اپنے کلمات کا تقابل سابق صدر جارج بش کے بیانات سے بھی کیا۔
اور پھر روزنامہ ’نیو یارک پوسٹ‘ نے گذشتہ جمعرات کو صحفہ اوّل پر گیارہ ستمبر کے حملوں کی ایک بہت بڑی تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا ’یہ ہے وہ جسے آپ ’کچھ ہوا تھا‘ کہہ رہی ہیں۔‘
’نیو یارک پوسٹ‘ کی یہ تصویر اس بحث میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اخبار کی تعریف کی لیکن دوسروں نے اس پر شدید تنقید کی۔
اور پھر جمعہ کے روز صدر ٹرمپ نے الہان عمر کے بیان کے ساتھ ویڈیو شیئر کی اور یہ ویڈیو ابھی تک ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر موجود ہے اور اسے ہزاروں مرتبہ ری ٹویٹ یا شئر کیا جا چکا ہے۔
رد عمل میں کیا ہوا؟
سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے اس کا جواب ’میں الہان کے ساتھ ہوں‘ ( #IStandWithIlhan ) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ دیا جو جمعے کو پوری دنیا میں ٹرینڈ کرتا رہا۔
سی این این نے بھی الہان عمر کا مذکورہ کلپ دکھایا، لیکن پھر پروگرام کے میزبان کرس کومو نے اسے نشر کرنے پر معذرت کر لی۔ اسی طرح ایک دوسرے چینل، ایم ایس این بی سی‘ نے بھی اسے نشر کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران ڈیموٹریک پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے الہان عمر کا دفاع کیا ہے۔ ان افراد میں ایسے رہنما بھی شامل ہیں جو 2020 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے امیدوار ہیں۔
مثلاً الیزبتھ وارن نے صدر ٹرمپ پر الزام لگیا ہے کہ وہ لوگوں کو ’کانگریس کی ایک موجودہ رکن کے خلاف تشدد پر اکسا رہے ہیں۔‘
الیزبتھ وارن کے علاوہ نیسنی پلوسی سمیت کئی دیگر اہم شخصیات نے بھی الہان عمر کے حق میں ٹویٹ کیا ہے۔
اتوار کو الہان عمر نے ان کے دفاع میں بلونے والے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’شکریہ آپ میرے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک ایسی انتظامیہ کے سامنے جس نے اپنی انتخابی مہم اس نعرے پر چلائی تھی کہ وہ اس ملک میں مسلمانوں کے آنے پر پابندی لگا دے گی۔(بشکریہ: بی بی سی)