سلیم صافی ، اردو کالم نگار

پاکستان کا ایک صوبہ جہاں 10 وزرائے اعلیٰ ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سلیم صافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی ختم نہیں ہوا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور بلوچستان کے جام کمال عثمان بزدار سے کم شریف ہیں، کم مظلوم اور نہ کم بے اختیار، لیکن میڈیا میں تذکرہ صرف بڑے صوبے یعنی پنجاب کے وزیراعلیٰ کا ہو رہا ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بدحالی اور بدانتظامی پنجاب کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے لیکن تذکرہ صرف پنجاب کا ہوتا ہے۔ لطائف ان چھوٹے صوبوں میں بھی بے حساب تخلیق ہو رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر چرچا صرف پنجاب کےلطائف کا ہوتا ہے۔

عثمان بزدار خود نہیں تو کم از کم ان کی سفارشی تو طاقتور اور وزیراعظم کے گھر میں بیٹھی ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کے سفارشی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں ڈیفکٹو (Defacto)وزرائے اعلیٰ کا تو بہت تذکرہ ہو رہا ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ڈیفکٹو وزرائے اعلیٰ کاذکر کوئی نہیں کرتا۔

یقیناً عثمان بزدار نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا لیکن بشریٰ بی بی جو ان کی سفارشی ہیں، نے پھر بھی اپنی کرامات کے ذریعے پہلے سے کوئی بشارت تودی ہو گی جبکہ محمود خان صاحب نے اس کا خواب دیکھا تھا اور نہ کسی پیر یا پیرنی نے کوئی بشارت دی تھی۔

چونکہ پرویز خٹک کو وزیراعظم صاحب کسی صورت دوبارہ وزیراعلیٰ بنانے پر تیار نہ تھے تو شاہ فرمان، عاطف خان اور اسد قیصر کو پرویز خٹک کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہ تھے، اس لئے اتفاقاً ان کے لئے راستہ بن گیا۔ ان کا نام سوات کے ایک ایم این اے نے اس بنیاد پر تجویز کیا کہ وہ ان کو زیردست رکھیں اور اب وہ ایم این اے اپنا یہ احسان جتاتے ہوئے پہلے ڈیفکٹو وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔

گورنر شاہ فرمان، بظاہر محمود خان کے دوست ہیں لیکن وہ نوے کی دہائی سے عمران خان کے ساتھ ہیں جبکہ خود محمود خان آج بھی وزیراعظم کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں کر سکتے لیکن اس کے برعکس گورنر شاہ فرمان وزیراعظم کے ساتھ فون اور وٹس ایپ کے ذریعے ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ اس لئے دوسرے متوازی وزیراعلیٰ گورنر شاہ فرمان ہیں۔

پختونخوا کے تیسرے ڈیفکٹو اور شاید سب سے طاقتور وزیراعلیٰ، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں، جو اس سے قبل پختونخوا کے چیف سیکرٹری تھے۔ وہ وزیراعظم کے اس قدر قریب ہو چکے ہیں کہ ان کی شام کی محافل کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ صوبے کے زیادہ تر اہم مناصب پر انہوں نے اپنے گروپ کے افسر لگا رکھے ہیں اور بیوروکریٹ وزیراعلیٰ محمود خان سے زیادہ اعظم خان کی طرف دیکھتے ہیں۔

وزیراعلیٰ اس وجہ سے بھی اعظم خان کے کسی حکم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتے کیونکہ خود ان کا وزیراعظم سے کبھی کبھار رابطہ اسی اعظم خان یا مراد سعید کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ اعظم خان صاحب سائے کی طرح چوبیس گھنٹے وزیراعظم کے ساتھ رہتے ہیں۔ چوتھے ڈیفکٹو وزیراعلیٰ ارباب شہزاد ہیں۔ انہوں نے بطور چیف سیکرٹری اپنے باس یعنی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف خط تحریر کیا تھا لیکن ان دنوں وزیراعظم کے اس قدر قریب ہیں کہ پرویز خٹک کو وزیراعظم سے دور کردیا۔

انہوں نے خیبر پختونخوا میں پارٹی ٹکٹس کی تقسیم میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ موجودہ وزیرخزانہ تیمور جھگڑا ان کے نامزد کردہ تھے۔ اب ایک طرف خود ارباب شہزاد صوبے کے کئی معاملات وزیراعظم ہائوس سے براہ راست چلا کر ڈیفکٹو وزیراعلیٰ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو دوسری طرف وزیرخزانہ ان کی شہ پر وزیراعلیٰ کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یوں وزیر خزانہ تیمور جھگڑا پانچویں ڈیفکٹو وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔

چھٹے ڈیفکٹو وزیراعلیٰ صوبائی وزیر سیاحت عاطف خان ہیں۔ وہ سابقہ صوبائی کابینہ میں عمران احمد خان کے لاڈلے وزیر تھے۔ شام کی محافل میں بھی ان کے ساتھ نظر آتے تھے۔ ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے وزیراعلیٰ وہ ہوں گے لیکن پرویز خٹک اور اسد قیصر کی مخالفت کی وجہ سے وہ وزیراعلیٰ نہ بن سکے۔ اب وہ بھی وزیراعلیٰ محمود خان کو خاطر میں نہیں لاتے اور متوازی اپنا سسٹم اور گروپ چلا رہے ہیں۔

اسی طرح وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی، عاطف خان کے رشتہ دار اور ان کے گروپ کے بندے ہیں۔ شہرام ترکئی بھی عاطف خان کے ذریعے وزیراعظم کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ شہرام ترکئی کے تعلقات روز اول سے خراب ہیں۔ وہ بھی وزیراعلیٰ کو خیال میں نہیں لاتے اورساتویں ڈیفکٹو وزیراعلیٰ سمجھے جاتے ہیں۔

آٹھویں ڈیفکٹو وزیراعلیٰ اجمل وزیر ہیں۔ انہوں نے گورنر، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کی مزاحمت اور مخالفت کے باوجود وزیراعلیٰ کے ترجمان کا منصب حاصل کیا۔ وہ ان حلقوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں جو تبدیلی کے اصل محرک ہیں۔ وہ چونکہ محنت بھی بہت کرتے ہیں اس لئے ان کے اختیارات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

نویں اور تازہ ترین ڈیفکٹو وزیراعلیٰ افتخار درانی کی شکل میں نازل کئے گئے ہیں۔ وہ کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی آئی قیادت کے تنخواہ دار ملازم تھے لیکن انہوں نے عمران خان کو اس قدر متاثر کیا کہ اقتدار کے بعد میڈیا کے لئے معاون خصوصی مقرر ہوئے۔ انہیں زیادہ مالی معاملات سے دلچسپی ہوتی ہے لیکن مرکز میں فواد چوہدری انہیں ایسے جگہوں کے قریب نہیں جانے دے رہے تھے اس لئے انہوں نے اب اپنے آپ کو کمیونیکیشن اسٹرٹیجی کے لئے وزیراعظم سے اپنا تبادلہ پختونخوا کروا لیا۔

گزشتہ آٹھ دس دن سے وہ پشاور منتقل ہو گئے ہیں اور یہ مشہور کر رکھا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی نگرانی کے لئے وزیراعظم کی طرف سے پشاور بھیجے گئے ہیں۔ چنانچہ اب وہ بھی وزیراعظم کے آدمی ہونے کی وجہ سے وزرا اور سرکاری افسران کے لئے ایک اور ڈیفکٹو وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔

پنجاب جو ایک بڑا صوبہ ہے، میں تین ڈیفکٹو وزرائے اعلیٰ کا تو بہت غلغلہ ہے لیکن خیبر پختونخوا جیسے چھوٹے صوبے میں دس (ایک محمود خان اور نو ڈیفکٹو) وزرائے اعلیٰ کا ذکر کوئی نہیں کر رہا۔ اب کیا یہ پختونخوا کے ساتھ زیادتی نہیں؟ دوسرے مظلوم صوبے یعنی بلوچستان کی فریاد پھر کبھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں