مکلیشا کی عمر محض 12برس تھی جب وہ پہلی بار فروخت ہوئی۔ اس کا خریدار 70برس سے زائد عمرکا شخص تھا۔ فوراً شادی ہوئی اور پھر ایک بچہ بھی ہوگیا۔ اُس نے ایک بار فرار ہونے کی کوشش کی، تاہم شوہر نے اسے پکڑ لیا، کہنے لگا کہ مت بھاگو، میں تمہیں اچھی زندگی دوں گا۔
چنانچہ وہ اس کے ساتھ رہنے لگی۔ تاہم تین برس بعد ’’شوہر‘‘ مرگیا، یوں مکلیشا ایک بار پھر’ برائے فروخت‘ہوگئی۔ پچھلے خریدار کے ساتھ گزارہ ہوگیاتھا لیکن اس بار خریدار خوفناک اور ظالم شخص تھا۔ مکلیشا اس کا یوں تذکرہ کرتی ہے:’’ وہ مجھے بھوکا رکھتا، اپنے ساتھ کھیتوں میں لے جاتا، میرے منہ میں مٹی بھر دیتا اور پھر میری پٹائی کرتا‘‘۔ مکلیشا بھارت کی ہزاروں فروخت ہونے والی دلہنوں، لڑکیوں اور خواتین میں سے ایک ہے، جن میں سے بہت سوں کو مکلیشا جیسی ہی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔
’’چمکتے دمکتے‘‘ بھارت میں بیٹا حاصل کرنے کے لئے اسقاط حمل کے ذریعے لڑکیوں کا قتل عام اس قدر بڑے پیمانے پر ہورہاہے کہ بھارتی معاشرہ دنیا کے سب سے زیادہ غیرمتوازن معاشروںمیں شامل ہوگیاہے جہاں لڑکیاں کم اور لڑکے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اب بھارت میں شادی کے لئے لڑکوں کو لڑکیاں ہی نہیں ملتیں، یہ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔بالخصوص ہریانہ کی ریاست جہاں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد غیرمعمولی طور پر کم ہوچکی ہے۔
اس صورت حال نے انسانی سمگلنگ کے کاروبار کو خوب چمکایا۔ سمگلرز دوسری ریاستوں سے لڑکیوں کو اغوا کرتے اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں بیچ دیتے ہیں۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی اس شمالی ریاست کے 10ہزار گھرانوں میں موجود 9ہزار شادی شدہ خواتین کا تعلق دوسری ریاستوں سے ہے۔ بہت سے گاؤںایسے ہیں جہاں نو، دس خواتین ایسی ہیں جو انسانی سمگلروں کے ذریعے یہاں آئی ہیں۔
معروف عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہریانہ کے بعض دیہاتوں میں بعض خواتین ایسی ہیں جو تین بار سے زائد مرتبہ فروخت ہوئیں۔ دیہاتی انھیں ’پارو‘ کہہ کے پکارتے ہیں جس کا مطلب ہے:’’ فروخت شدہ‘‘۔ ریاست ہریانہ میں ایک ہزار مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد 871 ہے۔ باقی ملک میں خواتین کی مجموعی شرح 940 کی ہے۔
نتیجتاً یہاں کے مرد مغربی بنگال، بہار حتیٰ کہ کیرالہ جیسی دور دراز کی ریاستوں سے لڑکیاں ’’بیاہ‘‘ کر لاتے ہیں۔بھارت میں ایسے مردوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے،جن کی عمریں 40برس سے تجاوز کرچکی ہے لیکن ان کی شادی نہیں ہورہی ہے۔ بھارت میں گزشتہ عام انتخابات کے دوران ریاست ہریانہ کے ایک گاؤں ’بی بی پور‘ میں کنوارے مردوں نے باقاعدہ ’ کنوارہ یونین‘ بنائی اور انتخابی امیدواروں سے مطالبہ کیا کہ ان کی شادی کرادیں، وہ انھیں ووٹ دیدیں گے۔
آئیے! اب ’سنجیدہ‘ نامی لڑکی کے بارے میں جانتے ہیں جس کی عمر 10برس تھی جب وہ سمگل ہوکے ہریانہ آئی۔ اس نے بتایا کہ وہ شمال مشرقی ریاست ’آسام‘ کے ایک گاؤں کی باسی تھی، گاؤں ہی کی ایک لڑکی نے اسے نشہ آور چیز کھلا کے اغوا کیا اور آگے بیچ دیا۔
پھر وہ ایسی جگہ پہنچی جہاں اس سیکھیتوں میں کام ، مویشیوں کی خدمت ، غرضیکہ ہر قسم کا کام کرایا جاتاتھا۔ وہ کہتی ہے:’’ میں چار برس تک وہاں قید رہی۔ اس کے بعد مجھے’’شادی‘‘ کے نام پر فروخت کردیاگیا۔ میں بھاگ سکتی تھی نہ ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کرسکتی تھی۔ وہاں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جسے مدد کے لئے پکار سکتی‘‘۔
جب سنجیدہ کے والد بیٹی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہ تین ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کے مطابق:’’ میں سو رہی تھی کہ مجھے اپنے باپ کی آواز سنائی دی، اس نے کہا کہ وہ اسے گھر لے جانے کے لئے آیاہے تاہم میں نے جانے سے انکار کردیا۔ وہ دو ماہ تک یہاں رہا اور دیکھتا رہا کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں‘‘۔ سنجیدہ کی شادی جس فرد سے ہوئی، وہ اپنی شادی سے مایوس ہوچکاتھا۔ تاہم یہ لڑکی دیگر خواتین کی نسبت ’’خوش قسمت‘‘ نکلی کہ اس کی شادی کی گئی اور اسے ایسا شوہر ملا جو اس کے ساتھ بُراسلوک نہیں کرتاتھا۔ 14سالہ ازدواجی زندگی کے بعد اب ان کے گھر میں چار بچے ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔
سنجیدہ اب ایک ایسی غیرسرکاری تنظیم کے لئے کام کرتی ہے جو ایسے ہی ظلم کی شکار خواتین کی مدد کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے:’’ ہریانہ میں سارے لوگ خواتین کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں، ہر کوئی سمجھتاہے کہ عورتوں کی عزتِ نفس نہیں ہوتی، ہمیں گائیوں اور بکریوں کی طرح فروخت کیاجاتاہے۔ بحیثیت انسان ہمیں یہ سلوک بہت برا لگتا ہے، ہم بھی بھارت کی شہری ہیں اور انہی جیسی انسان ہیں ‘‘۔
سنجیدہ اب مکلیشا کی مدد کررہی ہے، جسے ’’شوہر‘‘ کے ہاں سے بازیاب کرایاگیا جو اس پر مسلسل تشدد کرتا رہتاتھا۔ اب وہ 18ماہ کی بیٹی کے ساتھ ایک سیف ہاؤس میں رہتی ہے تاہم مکلیشا اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ کسی کو اپنی کہانی نہیں سناتی اور نہ ہی یہ بتانے کی ہمت رکھتی ہے کہ اس کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ تشدد کے نتیجے میں اس کا چہرہ بری طرح خراب ہوچکاہے اور اس کی ذہنی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے، بعض اوقات اچانک رونے لگ جاتی ہے۔
ایسی دلہنیں جو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں، اب اپنے ’’شوہروں‘‘ کے خلاف ایسی قانونی جنگ لڑ رہی ہیں جس میں جیت ناممکن ہے۔ مثلاً مکلیشا کو عدالت میں اس فرد کے سامنے لایا گیا جس نے اسے سمگل کیاتھا، وہ شخص طاقتور ہے، اس کے کمیونٹی میں مضبوط تعلقات ہیں ، دیگر بااثر لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ بھلایہ خاتون کیسے اس کے خلاف اپنے بیان پر قائم رہ سکتی ہے۔
دنیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت بھارت میں خواتین کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں بالخصوص جب وراثت کا معاملہ ہو۔ اگر کوئی خاتون وراثت کا حق لینے کی کوشش کرتی ہے تو خاندان والے اسے اپنا فرد ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ بھارت ایسا ملک ہے جہاں لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے برداشت کیا جاتاہے نہ پیدائش کے بعد۔ اگر ہریانہ جیسی ریاستوں میں لڑکے دوسری ریاستوں سے لڑکیاں بیاہ کر لائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن انھیں ایسی ’’چیزیں‘‘ سمجھا جاتاہے جو ری سائیکل کی جاتی ہیںاور جنھیں بار بار بیچ دیا جاتا ہے۔
’برٹش میڈیکل جرنل‘ کے مطابق گزشتہ تین عشروں کے دوران بھارت میں ایک کروڑ 20لاکھ بچیوں کو شکمِ مادر ہی میں ہلاک کردیاگیا۔ سن 2014ء میں اقوام متحدہ کے مطابق بھارتی لڑکیوں کی کمی کی شرح خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے جس کا ایک نتیجہ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح بڑھنے کی صورت میں برآمد ہواہے۔ ’’درآمد شدہ دلہنوں‘‘(پارو) کے ساتھ گھریلو غلاموں جیسا سلوک کیا جاتاہے۔
عورتوں اور بچوں کی بہبود کی وفاقی وزیر مانیکا گاندھی کے بقول’’ بھارت میں ہر روز 2000 لڑکیاں شکم مادر ہی میں قتل کردی جاتی ہیں‘‘ تاہم اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ تعداد7000ہے۔ مانیکا گاندھی کہتی ہیں:’’ یہاں کے لوگ بچوں کی تعداد کے بجائے ان کی جنس کے بارے میں سوچتے ہیں‘‘۔بھارت میں یہ رسم بہت پرانی ہے۔ ہریانہ کے علاوہ جھارکھنڈ اور پنجاب میں بھی یہ رسم جاری ہے۔ اب بعض خواتین شکمِ مادر میں بچیوں کے قتل کے خلاف عدالتوں کا رخ کررہی ہیں، وہ ایسی مثال قائم کرنا چاہتی ہیں کہ اب کوئی ایسا جرم کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
لڑکیاں فروخت کرنے والے انسانی سمگلرز کھلے عام اپنے اس ’’دھندے‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہ گندا دھندہ کرنے والے ایک فرد نے اخبارنویس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے بہت سے مردوں کو بیویاں ڈھونڈ کے دی ہیں، یہ تو ایک اچھا کام ہے‘‘۔ اخبارنویس ایک ایسے سمگلر سے ملا جو قریباً 600 لڑکیاں فروخت کرچکا ہے ، وہ بعض لڑکیوں کو دو سے تین بار فروخت کرچکاہے۔
زیادہ تر انسانی سمگلرز شادی دفتروں کی آڑ میں یہ گھناؤنا کاروبارکرتے ہیں۔ وہ نہایت غریب دیہاتوں میں جاتے ہیں، انھیں جھارکھنڈ، چھتیش گڑھ، بہار، اڑیسہ، آسام اور مغربی بنگال کے دیہاتوں میں لڑکیاں بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ یادرہے کہ دلہن ’’بیوپاریوں‘‘(انسانی سمگلروں) سے خریدی جائے تو چار ہزار سے 30ہزار روپے(بھارتی) تک میں مل جاتی ہے لیکن لڑکی کے والدین سے معاملہ کیاجائے تو پانچ سو سے ایک ہزار روپے دے کر بھی بیٹی خریدی جاسکتی ہے۔
ان بیٹیوں میں ایک غوثیہ خان بھی ہے جو 14برس کی تھی جب حیدرآباد سے سمگل ہوکر ہریانہ کے ایک مرد کے ہاں پہنچادی گئی۔ ایک لڑکی ’روشنی‘ کے والدین نے اسے 13برس کی عمر میں ایک ’’میرج بیورو والے ‘‘ کے حوالے کردیاتھا۔ وہ جس مرد کو فروخت کی گئی، وہ مرگیا، چنانچہ اسے گھر سے نکال باہرکیاگیا۔ اب وہ نو بچوں کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ایک 16 سالہ لڑکی مجیدہ دکان سے نوٹ بک لینے گئی تھی لیکن پھر واپس نہ آئی۔ اس کے والدین نے بہت تلاش بسیار کی، لوگوں سے پوچھ تاچھ کی لیکن کسی نے بھی کوئی خبر نہ دی۔ پھر چند ماہ بعد اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ہریانہ میں ہے۔
اس کی ماں تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے گئی ، تھانے والوں نے اس سے پونے پانچ لاکھ روپے رشوت مانگی۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اسے آٹھ ہزار روپے کے عوض فروخت کیاگیا۔
دوسری نے بتایا کہ جب وہ ایک معصوم لڑکی تھی تو اس کا ’’شوہر‘‘ اسے چھ ہزار روپوں میں خریدلایا۔ تیسری نے بتایا کہ جب اس کا ’’شوہر‘‘ مرگیا تو اس کی پہلی بیوی کے بچے اس پر تشدد کرنے لگے اور اسے گھر سے نکل جانے کو کہہ دیا۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ چودہ برس کی عمر میں فروخت کی گئی، اس کا شوہر بوڑھا اور گونگا ہے، کوئی کام کاج نہیں کرتا، گھر میں پڑا رہتاہے۔ یادرہے کہ بھارت میں ایک میلہ بھی لگتاہے جہاں عورتوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔
پوری دنیا میں 35ملین افراد ایسی جگہوں پر زندگی گزار رہے ہیں جو ان کا انتخاب نہیں تھیں۔دور جدید کے غلاموں میں 14ملین افراد صرف بھارت میں ظلم وجبر کا شکار ہیں۔ نوے فیصد انسانی سمگلنگ بھارت کے اندر ہی ہوتی ہے۔ اچھی ملازمت کے بہانے لایاجاتاہے اور پھر فروخت کردیاجاتاہے۔بعض لڑکیوں کو گھروں میں کام کرنے کے لئے رکھ لیاجاتاہے، بعض کی کسی سے زبردستی شادی کردی جاتی ہے، بعض کو کان کنی یا پھر کھیتوں میں مزدوری پر لگادیاجاتاہے۔
ایک بڑی تعداد کو چکلوں میں قید کردیاجاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 30لاکھ سے زائد جسم فروش عورتیں ہیں جن میں سے اکثریت کم عمر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ کلکتہ دنیا کا سب سے بدنام شہر ہے جہاں لڑکیوں اور عورتوں کو زبردستی چکلوں پر بٹھایاجاتاہے۔ یہ بے چاری اپنے جسموں کی مالک ہوتی ہیں نہ اپنے مستقبل کی۔ اگر ان میں سے کوئی حاملہ ہوجائے تو ان کے بچے بھی اسی غلیظ دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔بھارت سے نیپال، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا، قزاقستان، ازبکستان ، یوکرائن اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں لڑکیاں سپلائی کی جاتی ہیں۔
یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جس کی ہر ریاست انسانیت سوزی کی ایک الگ ہی کہانی بیان کرتی ہے۔