سابق ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کے بارے میں یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ وہ طبعی موت کا شکار نہیں ہوئے تھے بلکہ انھیں قتل کیا گیا تھا. بعض حلقوں نے الزام عاید کیا ہے کہ رفسنجانی کو ’حیاتیاتی‘ یا کیمیائی عمل کے ذریعے ہلاک کیا گیا ہے۔ مثلاً ’سبزانقلاب تحریک‘کے قریبی ،اصلاح پسند سماجی کارکن روح اللہ زم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں لکھا ہے کہ رفسنجانی کے دو قریبی ساتھیوں نے تصدیق کی ہے کہ رفسنجانی کو قاتلانہ حملے میں مارا گیا ہے۔ایران میں سرگرم ’ڈیموکریٹک فرنٹ‘ نامی اپوزیشن گروہ نے بھی ایرانی رجیم پراپنے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے رفسنجانی کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ نتیجتاً ہاشمی رفسنجانی کی تدفین کے موقع پر اُس وقت ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوئی جب اپوزیشن کی ’سبزانقلاب تحریک‘ نے ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے اضطراب کا اظہار کیا۔ ردعمل میں پولیس نے ایسے لوگوں کے خلاف شدید کریک ڈائون کیا اور درجنوںکارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق جنازے میں شریک سینکڑوں افرادکو گھروں میں نظر بند کردیاگیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیںکہ جنازے میں شریک افراد نے اصلاح پسند رہ نمائوں مہدی کروبی اور میر حسین موسوی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے نظر بند رہ نمائوں کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔ سوشل میڈیا پر موجود بعض ویڈیوز میں بعض شرکاءکو اصلاح پسندوں کی حمایت میں نعرہ زن دیکھاجاسکتا ہے۔ان میں سابق صدر محمد خاتمی کے حامی بھی نظر آرہے ہیں۔ یادرہے کہ ایرانی حکام نے محمد خاتمی کو رفسنجانی کے جنازے میں شرکت سے روک دیاتھا۔ فوٹیجز میں نوجوانوں کی گرفتاریاں بھی دکھائی گئیں، اصلاح پسندوں کی حمایت میں نعرے لگانے والے شہریوں کو گاڑیاں میں ٹھونسا جا رہا تھا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے خصوصی مسلح دستے جنازے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔