ماہ رخ خان۔۔۔۔۔۔۔
تھر کا نام سنتے ہی، ذہن میں قحط سالی، غربت، پس ماندگی سے دو چار لوگوں اور صحرا کی تصویر آنکھوں میں گھوم جاتی ہے، جب کبھی برکھا برستی ہے ،تو اس صحرا میں چند دنوں کے لیے ہی سہی، مگر ماحول بہت خوش گوار ہو جاتا ہے، مٹی کے ذرا نم ہوتے ہی پھول بھی کھل اٹھتےہیں۔
ان ہی ریگزاروں میں مٹھی کی کرن سادھوانی کی زندگی کی کہانی بھی ہے، جسےآگے بڑھنے کا موقع ملا، تو اس نے اپنے علاقے کا نام روشن کر دکھایا ۔ والدین سے ضد کرکے اسکول میں داخلہ لیا، بعد ازاں حیدرآباد کی مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے بی ایس کر کے انجینئر بن گئی۔
وہ تھر کی ہندو کمیونٹی لوہانہ سے تعلق رکھتی اور اپنے گاؤں کی پہلی لڑکی ہے، جس نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی ۔ جب تھر کول پروجیکٹ میں ملازمتوں کااعلان ہوا ،تو کرن نے کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے بہ جائے اپنے علاقے تھرپارکر میں قسمت آزمائی ،تاکہ وہ، اپنے لوگوں کی خدمت کرسکے ۔
تھرپارکر جیسے پس ماندہ علاقے سے ایک نوجوان خاتون انجینئر کا پہلی مرتبہ سامنے آنا بلا شبہ غیر معمولی بات ہے۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ ایک ایسا علاقہ، جہاں خواتین سخت پردے میں کھیتوں میں کام کرتیں اور دور دراز علاقوں سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔
انجینئر بننے کے بعد کرن نے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ جس کمپنی میں ملازمت کی درخواست دی ۔وہاں سلیکشن ، اتنا آسان نہیں تھا، چھ مختلف مراحل سے گزر کر چار ہزار سے زائد اُمیدواروں میں سے 25 انجینئرز کا انتخاب کیا گیا،جن میں 24لڑکے اورایک لڑکی کا انتخاب عمل میں آیا،وہ لڑکی کرن سادھوانی تھی۔چھ ماہ کی تربیت کے بعد یہ سب اب فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔
کمپنی انتظامیہ کی کوشش تھی کہ ،کول پراجیکٹ میں زیادہ سے زیادہ لڑکیاں بھرتی کی جائیں ،لیکن کرن کے سوا کوئی لڑکی نہیں آئی۔ کرن سادھوانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، میں کہیں اور نوکری کرتی تو صرف پروفیشنل گرومنگ ہی ہوتی، لیکن تھر میں رہ کر اپنے علاقے اور کمیونٹی کے لیے کچھ کر دکھانے کا خواب تھر ہی میں کام کر کے پورا ہو سکتا تھا۔ یہاں لڑکیاں پابندیوں میں زندگیاں بسر کررہی ہیں۔
میں کہتی ہوں لڑکیاں وہ سب کریں جو وہ کرنا چاہتی ہیں،تھر میں خواتین سخت پردہ کرتی ہیں، یہ تصور عام ہے کہ لڑکیاں فیلڈ ورک نہیں کرسکتیں، مردوں کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتیں، ایسے حالات میں، میں نے انجینئرنگ کی فیلڈ میں اس لیے قدم رکھا ،تاکہ باقی خواتین کے لیے مثال قائم کرسکوں ۔ تقرری کے بعد یہاں کام کرنا ایک چیلنج تھا ، لیکن میں سب کوبتانا چاہتی تھی،کہ لڑکوں کے درمیان اکیلی لڑکی کس طرح کام کر سکتی ہے۔کام یابی کے سفر میں تنقید بھی برداشت کرنی پڑی، کچھ کرنے کی دھن میں لوگوں کی کڑوی باتیں بھی برداشت کیں۔
والدین نے بھی لوگوں کی باتیں خوب سنیں۔علاقے کے لوگوں نےکہا کہ ایسی کیابات ہے کہ لڑکی کو نوکری کرنا پڑ رہی ہے، لیکن والدین نے خاموشی اختیار کی، البتہ کام کے لیے تھر میں سائٹ پر جانا پڑا،تواس وقت انہوں نےبھی چند تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا اتنے مردوں کے درمیان کیسے کام کرو گی۔ وہاں ہر طرح کے مرد ہوں گے،لیکن کرن نے اسے چیلنج سمـجھااور ماں ، باپ کو راضی کرلیا۔‘‘
کرن کا خیال ہے کہ تھر کی لڑکیاں ہنر مندی، محنت اور تعلیم کے میدان میں لڑکوں سے کسی طور پیچھے نہیں ہیں،بس ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔میری طرح جب اُن کی بہو بیٹیاں رول ماڈل بن کر دنیا کے سامنے آئیں گی، تووہ بھی روشن اقدار کو اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے،اس وقت تھر کی عورت نے اپنے آپ کو منوالیا ہے۔
‘کرن کے والد ، اپنی بیٹی کوڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، مگر کرن نے انجینئرنگ کے شعبے کو اپنا کر اپنے والد اور علاقے کے دوسرے لوگوں کے اس نظریے کو بدلا کہ لڑکیاں چند مخصوص کا م ہی کر سکتی ہیں۔ وہ کام کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، جب پہلی مرتبہ سندھ میں خاتون ٹرک ڈرائیوروں کا پروگرام شروع کیاگیا، تو کرن نےگاؤں ،گاؤں جاکر تھری خواتین کو ہمت دلائی کہ وہ یہ کام کرکے خود کو مضبوط بناسکتی ہیں۔ کرن سدھوانی، ایک ایسا دیا ہے، جس سے اور دیے روشن ہوں گے،یوں پورا تھر جگمگا اُٹھے گا۔