عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
ہومیوپیتھی جسے ’علاج بالمثل‘ بھی کہاجاتاہے، ایسا طریقہ علاج ہے جس کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ جسم خود ہی اپنی بیماری کا علاج کرسکتاہے۔ اس میں امراض کے علاج کی خاطر قلیل مقدار میں ایسے ادویاتی نسخے استعمال کیے جاتے ہیں جن کا زیادہ مقدار میں استعمال عام افراد میں وہی مرض پیدا کرتا ہے جس کے علاج کے لیے وہ نسخہ ہو، اسی لیے اس کو ’علاج مثل‘کہا جاتا ہے۔
آزاد دائرۃ المعارف کی تعریف کے مطابق ہومیوپیتھک ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو مریض کو کلی شفا دیتا ہے۔ ہومیوپیتھی کے موجد کا نام ڈاکٹر ہانیمن ہے انھوں نے لاپئسگ آسٹریا میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ پھر وہ ’’ویانا‘‘ گئے اور وہاں سے ایرلانگن چلے گئے جہاں 1779ء میں یہ میڈیکل ڈاکٹر بنے اور ڈریسڈن میں پریکٹس شروع کر دی۔ ایلوپیتھک ڈاکٹر بننے کے گیارہ سال بعد انھوں نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج دریافت کیا۔1796ء میں پہلی بار طبی رسالوں میں مضامین کے ذریعہ انھوں نے اپنے ہومیوپیتھی فلسفہ سے دنیا کو آگاہ کیا۔
ڈاکٹرہانیمن نے انسانی طبعی نظام دفاع کو اس قدر گہرائی سے سمجھا اوراس کی طاقتوں کا حیرت انگیز طریق پر مشاہدہ کیا کہ آج بھی یقین نہیں آتا کہ واقعتاً انسانی جسم کو خدا تعالٰی نے ایسی عظیم اور لطیف طاقتیں عطا فرمائی ہیں مگر مشاہدہ مجبور کرتاہے کہ انسان یقین کرے۔ ڈاکٹر ہانیمن نے اس طبعی نظام دفاع سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیاکہ اگر انسانی جسم میں کوئی ایسی بیماری موجود ہو جس کو جسم نے کسی وجہ سے نظر انداز کردیا ہو، اس کامقابلہ نہ کر پارہا ہو تو اگر بہت ہی لطیف مقدار میں کوئی ایسا زہر جس کی علامتیں اس بیماری سے ملتی ہوں جسم میں داخل کردیا جائے مگر اسے ہلکا کرتے کرتے بے اثر کردیا گیا ہو تو جسم اس نہایت کمزور بیرونی حملہ کے خلاف جو رد عمل دکھائے گا، اسی رد عمل سے اس اندرونی بیماری کو بھی ٹھیک کردے گا جو اس زہر کی علامتوں سے قریبی مشابہت رکھتی ہے۔
ہومیوپیتھک ادویات میں درختوں اور قدرتی معدنیات کے مادے کی انتہائی کم مقدار استعمال میں لائی جاتی ہے، ہومیوماہرین کے مطابق یہ مادہ صحت کی بحالی کے عمل کو تیز کرتاہے۔سترھویں صدی کے آخری برسوں میں متعارف ہونے والا یہ طریقہ علاج آنے والے برسوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ مختلف یورپی ممالک میں لوگوںکی بڑی تعداد اس سے استفادہ کرنے لگی۔ اس کے بعد یہ دنیا کے دیگرکئی خطوں میں متعارف اور مقبول ہوا۔
اس وقت دنیا میں مجموعی طور پر20کروڑ افراد ہومیوپیتھی کے طریقہ سے اپنا علاج کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہومیوپیتھک تیسرا بڑا طریقہ علاج ہے جس پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقہ علاج سے استفادہ نہیں کرتے۔ یہ لوگ برازیل، چلی، بھارت، میکسیکو، پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے قومی صحت کے نظام میں شامل ہے۔ اگرتعداد کے اعتبار سے دیکھاجائے تو بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاںسب سے زیادہ لوگ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے علاج کراتے ہیں، ان کی تعداد 10کروڑ بنتی ہے۔ تاہم اگرشرح کے اعتبار سے جائزہ لیاجائے تو بھارت کی پوزیشن پہلی نہیں ۔ یہاں دولاکھ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز سرکاری ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہیں۔ان میں ہرگزرتے برس 12ہزار ڈاکٹرز کا اضافہ ہورہاہے۔
یورپ میں قریباً دس کروڑ لوگ اپنی روزہ مرہ زندگی میں ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعداد مجموعی یورپی آبادی کا 29 فیصد بنتی ہے۔ یادرہے کہ یورپ کے مجموعی 42 ممالک میں سے40 ممالک میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج سے استفادہ کیاجاتاہے۔ اگرصرف برطانیہ کی بات کریں تو وہاں کی 10فیصد آبادی ہومیوپیتھک علاج کرتی ہے، ان کی تعداد تقریباً 60لاکھ بنتی ہے۔ یہاں ہرسال ہومیوپیتھک ادویات کی مارکیٹ میں 20فیصد کا اضافہ ہورہاہے۔ اس وقت برطانیہ میں400 ہومیوپیتھک ڈاکٹرزموجود ہیں جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں جبکہ نان کوالیفائیڈ ہومیومعالجین کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یہ دلچسپ امر ہے کہ برطانیہ کے شہزادہ چارلس ہومیوہیتھک علاج کراتے ہیں، وہ مختلف محافل میں اس طریقہ علاج کی پرزور وکالت بھی کرتے ہیں۔ برطانیہ کے معروف گلوکار سرجیمز پال مک کارٹنی کہتے ہیں کہ وہ ہومیوپیتھک ادویات کے بغیر اپنے آپ کو بہتر رکھ ہی نہیں سکتے، وہ سفر میں بھی ہوتے ہیں تو ان کے بیگ میں ہومیوادویات موجود ہوتی ہیں۔ ہومیوپیتھک علاج کرانے والی دیگر نامور شخصیات میں برطانوی فٹ بالر(سابقہ) ڈیوڈبیک ہیم، برطانوی اداکار جوڈلا، برطانوی اداکارہ ہیلنا بانہیم کارٹر بھی شامل ہیں۔امریکا جہاں ایک طویل عرصہ تک ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو پنپنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی، اب وہاں بھی 60 لاکھ افراد ہومیوپیتھک علاج کراتے ہیں۔ ان میں10لاکھ بچے اور50لاکھ بالغ حضرات وخواتین ہیں۔ 72 سالہ امریکی گلوکارہ شر کہتی ہیں کہ اگرہومیوپیتھک ادویات نہ ہوتیں تو میں آج زندہ نہ ہوتی۔
جس رفتار سے لوگ ہومیوپیتھک کی طرف رخ کررہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں دنیا میں ہومیوپیتھک ادویات کی مارکیٹ میں 12.9فیصد کا اضافہ ہوگا۔ یادرہے کہ اس وقت دنیا میں اس مارکیٹ کا مجموعی حجم 4850 ملین ڈالر ہے جو 2023ء میں 1000 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ایک دوسرے اندازے کے مطابق سن 2014ء تک ہومیوپیتھک ادویات کی عالمی مارکیٹ میں 18.02فیصدکا اضافہ دیکھنے کو ملے گا جس مارکیٹ کاسن2015ء میں حجم3.8بلین ڈالرز(امریکی) تھا، وہ 2024ء میں 17.4بلین ڈالرامریکی ہوجائے گا۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے خطوں میں ہومیوپیتھک ادویات کی کھپت غیرمعمولی طور پر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔بعض ماہرین کے خیال میں اگلے پانچ برسوں کے دوران وہاں 21.1فیصد کی شرح سے اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں بھی ہومیوپیتھی سے استفادہ کرنے والی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ یہاں ہومیوپیتھی ڈپلومہ کو بی ایس سی کے مساوی قرار دیا جاچکا ہے، سن 2012ء میں اس وقت کے صدرمملکت آصف علی زرداری نے اس کی منظوری دی تھی۔ اب ملک کے مختلف علاقوں سے آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ ملک میں ہومیومیڈیکل یونیورسٹی قائم کی جائے۔جس طرح دنیا کے باقی خطوں میں فارماسیوٹیکل انڈسٹریزکے مختلف مافیاز اپنی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لئے متبادل طریقہ ہائے علاج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی ہومیتھی طریقہ علاج کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ حکومتیں بھی ان مافیاز کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔
ان کی ترجیح میں کک بیکس، رشوت اور کمیشن ہوتاہے لیکن انھیں صحت عامہ اور مخلوق خدا کی سہولت کی فکر نہیں ہوتی۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ کب تک متبادل طریقہ علاج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرسکیں گے؟ ایک نہ ایک دن علاج کے نام پر لوگوں کا خون چوسنے والے، انھیں مزید بیماریوں میں مبتلاکرنے والے مافیاز کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور حقیقی معنوں میں صحت بخشنے والے ذرائع کے لئے تمام تر راستے کھل جائیں گے۔ متبادل طریقہ ہائے علاج والے پورے خلوص، دیانت داری اور مخلوق خدا کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ محنت جاری رکھیں تو بیماریوں اور ظلم واستحصال کے مارے ہوئے لوگ اپنے درد کی دوا انہی سے لیں گے۔