بالآخر جماعت اسلامی نے باقاعدہ متحدہ مجلس عمل کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ایم ایم اے عام انتخابات کیلئےبحال کی تھی، 25 جولائی 2018 گزرگیا،اب عملی طور پر ایم ایم اے وجود نہیں رکھتی۔ سینیٹر سراج الحق نے مزید کہا کہ میں اور میرے کارکن چاہتے ہیں جماعت اسلامی اپنے منشور،جھنڈے اور نشان کے ساتھ میدان میں رہے۔
دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے رویے سے بھی اندازہ ہورہا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے فیصلے سے آگاہ تھے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید پر سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی طرف سے حملہ کا واقعہ رونما ہوا تو مولانا فضل الرحمن یا متحدہ مجلس عمل میں شریک کسی بھی دوسری جماعت کی طرف سے سیدعبدالرشید کی حمایت اور اس واقعہ کی مذمت میں کوئی ایک لفظی بیان سامنے نہیں آیا۔
تاہم خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے متحدہ مجلس عمل سے نکلنے کے بعد فریقین کی طرف سے خاموشی ہی اختیار کی جائے گی کیونکہ مجلس عمل میں شریک جماعتیں اور جماعت اسلامی کے قائدین کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں مستقبل میں تعاون کا امکان ضرور ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن مستقبل قریب میں عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلاکر انھیں گرانے کی کوشش ضرور کریں گے، تب وہ جماعت اسلامی کی سٹریٹ پاور سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ عام انتخابات 2018 کے موقع پر جماعت اسلامی کے کارکنان کی بڑی تعداد کسی بھی قسم کی اتحادی سیاست کا حصہ بننے کی مخالف تھی اور اپنے ہی پرچم اور اپنے ہی انتخابی نشان ترازو کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہاں تھی۔ تاہم ایک دوسرے حصہ کا خیال تھا کہ اتحادی سیاست کے ذریعے ہی ملک میں سیکولر اور لبرل قوتوں کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔
ثانی الذکر گروہ کی حکمت عملی درست ثابت نہ ہوسکی، اس گروہ کے اکثر افراد اب بھی اپنی حکمت عملی کے درست ہونے پر اصرار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص ادارے نے ایم ایم اے کو ہرانے کے لئے تمام حربے اختیارکئے بصورت دیگر نتائج مختلف ہوتے اور ایم ایم اے دو سے تین گنا سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔
اسباب جو بھی ہوں، بہرحال جماعت اسلامی ویسی کامیابی حاصل نہ کرسکی جیسی اسے توقع تھی۔ اب نئے انتخابات کے لئے جماعت اسلامی اپنے ہی زور بازو سے کام لے گی۔ جماعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت کے تازہ فیصلے سے جماعت کے کارکنوں میں یکسوئی پیدا ہوگی اور وہ زیادہ قوت کے ساتھ بھرپور انداز میں بلدیاتی انتخابات میں اتریں گے۔ اس سے پہلے سابقہ فاٹا میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ان کے لئے پہلا بڑا چیلنج ہوگا۔ جماعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں نتائج جو بھی ہوں، بہرحال اصل صورت حال کا اندازہ ضرور ہوگا کہ جماعت کا اپنا ووٹ بنک کتنا ہے۔ یوں آنے والے دنوں میں اس ووٹ بنک کو بڑھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔