جیسا کہ نام سے ظاہر ہے’’ڈس‘‘ کا مطلب مشکل اور ’’گراف‘‘ کہتے ہیں کچھ بھی لکھنا یعنی لکھنے میں مشکل۔ یا د رہے کہ بہت سارے لوگوں کی لکھائی بہت خراب ہوتی ہے لیکن انہیں ڈس گرافیا نہیں ہوتا ۔
ڈس گرافیا کے حامل افراد اپنی مختلف دماغی بناوٹ کی وجہ سے صحیح، تیز اور ایک جیسا لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ ڈس گرافیا ایک قسم کی لرننگ ڈس ایبلٹی کی ہی ایک قسم ہے ۔ اس کا تعلق دماغ سے ہے یعنی اسے نیورو ڈس آرڈر کہا جا سکتا ہے۔
اکثر ذہنی مسائل کی طرح ڈس گرافیا بھی وراثت سے جینز میں منتقل ہوتا ہے ۔ بین الاقو امی ڈسلیکسیا ایسو سی ایشن کے مطابق’’ نہ پڑھی جانے والی لکھائی فائن موٹر سکلز( ذہنی خود کار صلاحیتوں )، تصویری بصارت اور خط کشی کو یاد داشت میں لانے کے مسائل کا مجموعہ ہے‘‘۔ یہ قدرے مشکل تعریف ہے، آسان الفاظ میں اگر ایک پانچویںکلاس کے بچے کی لکھائی دوسری یا پہلی کلاس کے بچے جیسی ہے اور اسے دوسرے بچوں کی نسبت بہت دیر لگتی ہے ایک پیرا لکھنے میں اور اس کا ایک پیرا گراف بہت ساری غلطیوں سے بھرا ہوتا ہے تو وہ ڈس گرافیا کا شکار بچہ ہے۔
ڈس گرافک بچوں کو اپنی گندی، غلطیوں سے بھر پور اور نہ پڑھی جانے والی تحریر کے باعث بہت زیادہ خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں اکثر سست، غیر محتاط، نالائق جیسے الفاظ سننا پڑتے ہیں ،کوئی بھی یہ ماننے یا سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا (ترقی پذیر ممالک میں) کہ یہ بچہ اپنی طرف سے بہت کوشش کرتا ہے کہ اچھا لکھ سکے ۔ ڈس گرافک بچے کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ کو صحیح لکھنے کی کوشش میں یہ بھول جاتا ہے کہ لکھنا کیا تھا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کو کوئی بغیر مسطر کے بہت تیزی سے سیدھی لائن لگا نے کا کہے یا کسی کو تیز بھاگتے ہوئے بغیر ہکلائے اور سانس پھلائے بہت واضح زبان میں گانا گانا ہو، تو اس کی ساری انرجی اور توجہ تو بھاگنے پر ہوگی اور گانا اس کے لئے ناممکنات میں سے ہوگا۔
ڈسلیکسک بچہ اتنی مشقت سے گزر کر ایک چھوٹا سا فقرہ لکھتا ہے جو اس کے لئے پوری طاقت سے بھاگنے کے برابر ہو سکتا ہے۔ اس کی انرجی صرف یہ سوچنے میں صرف ہو جاتی ہے کہ ایپل میں ڈبل P آئے گا کہ سنگل، بھیک میں دو چشمی’’ ھ ‘‘کیسے لکھے اور یہ بھی بھول گیا ہے کہ ’’ھ‘‘ ،’’ ب‘‘کے بعد آئے گی یا ’ک‘ کے بعد ، ہر ہر لفظ پر وہ کتنی دیر سوچے گا ہو سکتا ہے کہ کام پورا نہ کرنے وجہ سے سخت استاد یا کرخت ماں اس کا کھیل کا وقت اسے نہ دے تو یہ مزید اس کے ذہن کو مضطرب اور پریشان کردے گا ۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے یہ سمجھ لیں کہ بہت سارا وزن سر پر رکھ کر ہاتھوں سے کام کرنا ہے۔ ڈس گرافک بچے کے سر پر منوں وزنی بوجھ ہوتا ہے الفاظ کی تلاش کا، ترتیب کا، ہجوں کا، مفہوم کا، رفتار کا، اور سب سے بڑھ کر اپنی بے عزتی کا۔ دوسرے ذہنی مسائل کی نسبت ڈس گرافیا کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ تعلیمی اور عملی زندگی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا رہتا ہے۔
جن بچوں کو بچپن میں توجہ نہیں ملتی اور کوشش کرکے ان کے لکھنے کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا وہ ساری زندگی لکھنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ ملازمت،کاروبار اور دیگر معاملات میں لکھنا ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے لئے بہت سارے عملی واقعات بیان کئے جا سکتے ہیں موضوع کی طوالت سے بچنے کے لئے صرف دو کا ذکر ہے، جو ڈس گرافیا کا شکار لوگوں نے خود بتائے۔
عینک گھر پر ہے
سرور صاحب کے پاس کچھ بچت کی رقم تھی۔ اتفاقاً وہ جس منیاری کی دکان پر وقت گزارنے کے لئے بیٹھا کرتے تھے،اس دکاندار کے بیٹے نے باپ کو انگلینڈ بلوا لیا اور اس نے دکان سرور صاحب کو بیچ دی۔ سرور صاحب بہت خوش تھے کہ بیٹھے بٹھائے چلتا ہوا کاروبار مناسب قیمت پر مل گیا، منیر صاحب( دکان کے مالک) نے سرور صاحب کو پوری طرح ٹریننگ دی کہ مال کہاں سے لینا ہے، کیسے بیچنا ہے اور کن چیزوں میں مقابلہ ہے اور کن میں بچت، کن کو سٹاک زیادہ کرنا ہے، کن کی بکری زیادہ ہے اور کن کی کم وغیرہ وغیرہ ۔
کام باریک تھا لیکن مشکل بالکل نہیں تھا سپلائر بھی شہر کے تھے اور گاہک بھی پکے لگے ہوئے تھے، گویا نقصان کا کوئی ڈر نہیں تھا لیکن جانے سے چند دن پہلے منیر صاحب نے ایک بات کر دی جس سے سرور صاحب کا دل کچھ بیٹھ سا گیا، تاہم وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ منیر صاحب نے کہا کہ سرور صاحب! میں نے پورے خلوص سے جیسے کوئی اپنے بچے کو کاروبار کی باریکیاں بتاتا ہے، ایسے آپ کو ہر چیز سمجھائی ہے اور اللہ نے چاہا تو آپ اس کام سے کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ اب میں آپ کو جو بات کہنے لگا ہوں وہ اس کام میں سب سے ضروری ہے، مال خریدنے اور بیچنے سے بھی ضروری۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے ہر چیز جو بھی بیچنی ہے اس کا نام اور قیمت کاپی پر درج کر لینی ہے۔ یہ اندر کی بات ہے اس کا آپ نے بہت خیال رکھنا ہے، یوں سمجھیں کہ منیاری اور کریانہ لکھنے کے سر پر ہی چلتے ہیں ۔ اس کے کئی فائدے ہیں:
ایک تو یہ کہ آپ آوٹ آف سٹاک نہیں ہوتے، جو چیز بھی بکتی ہے وہ درج ہوکر محفوظ ہو جاتی ہے کیونکہ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ۔ گاہک کے جاتے ہی آپ بھول جاتے ہیں کہ کیا بکا اور کتنا بکا ۔ دوسرے سیل کا حساب رہتا ہے، کوئی بھی الجھن ہو تو کاپی کھول کر دیکھ لی، تیسرے جو سامان لانا ہے وہ کاپی سے دیکھ کر لسٹ بن جاتی ہے۔ اب سرور صاحب بچپن سے سخت قسم کے ڈس گرافیا کا شکار تھے۔ باوجود ذہین ہونے کے نہ لکھ سکنے کی وجہ سے سکول کی پڑھائی بھی مکمل نہ کر سکے، اس سے پہلے دو، تین کاروبار کئے جن میں لکھنے کے لئے پہلے ملازم رکھا لیکن ملازم نے کبھی بھی لکھنے پر اتنی توجہ نہیں دی جس طرح مالک دیتا ہے، اور پھر سیل کی اونچ نیچ اور کھاتے کا حساب بھی ملازم اس طرح نہیں کرتا جس طرح مالک کرتا ہے۔
ایک سال کے اندر اندر منیر صاحب کی تیس سال پرانی دکان آخر کار بند ہوگئی اور سرور صاحب نہ لکھ سکنے کی وجہ سے چیزوں کو یاد نہ رکھ پاتے کہ کیا بکا تھا اور جب پکے گاہک کو بھی من پسند دھاگا، سوئی، سلائی، بٹن نہ ملتا تو وہ ساتھ والی دکان پر چلا جاتا، گاہک ٹوٹتے گئے اور سامان کم سے کم ہوتا گیا، چیزیں اتنی زیادہ تھیں کہ یاد داشت میں سب کو محفوظ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اگر انہیں سودا کرنے سے پہلے یہ خیال آ جاتا کہ اس میں لکھنے کا کام بھی ہوگا تو وہ کبھی یہ سودا نہ کرتے۔
لکھنا زندگی میں کتنا اہم ہے یہ فرزانہ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، اس لکھنے کے ہاتھوں اس کی طلاق ہوتے ہوتے بچی تھی۔ فرزانہ کی ساس اس کے شوہر کی سوتیلی ماں تھی۔ شوہر دوبئی میں کام کے سلسلے میں مقیم تھا۔ فرزانہ ہمسائی کی لڑکی سے کبھی کبھی خط لکھواتی تھی اور اس کی ساس خود خط لکھ سکتی تھی۔ فرزانہ کو نہ صرف ڈسلیکسیا تھا بلکہ ڈس گرافیا بھی تھا۔ سلائی کڑھائی میں ماہر فرزانہ اپنے ان مسائل کی وجہ سے سکول میں پانچ جماعت بھی نہ کر سکی، سوتیلی ساس کچھ سال بیٹے پر پورا پورا حق جتانا چاہتی تھی لیکن وہ بچپن سے فرزانہ سے منسوب تھا اس لئے جلدی شادی کے بعد دوبئی چلا گیا ۔ فرزانہ کی ساس نے کچھ اس طرح کے پے در پے خط لکھے کہ شوہر اس سے بد دل ہوگیا اور سوچنے لگا شاید اس نے فرزانہ سے شادی کر کے غلطی کی ہے۔ فرزانہ جب ہمسائی سے خط لکھواتی تو شرم کے مارے بہت سادہ اور رسمی سی چند باتیں لکھوا پاتی، نہ تو وہ ڈر کے مارے ساس کی زیادتیاں لکھوا پاتی کہ کہیں وہ لڑکی اس کی ساس کو نہ بتا دے اور نہ اپنی محبت کا اظہار کر پاتی ۔ حالات جب زیادہ ہی خراب ہوگئے تو اس کا شوہر مک مکا کرنے پاکستان پہنچ گیا، ادھر فرزانہ کی قسمت اچھی کہ ساس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ بستر پر پڑ گئی۔ شوہر نے جب فرزانہ کی بے لوث محبت ان تھک خدمت دیکھی تو اس پر اچھا اثر پڑا اور ایک دن فرزانہ نے بہت دلگیر ہوکر کہا کہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ وہ خط میں اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر سکتی تو شوہر کو اپنی ڈبا بند سوچ پر بہت شرمندگی ہوئی اور اس نے فرزانہ کو دوبئی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ گویا لکھنا زندگی کی بہت اہم ضرورت ہے۔ اگرچہ آج کل کے جدید دور میں فرزانہ فون استعمال کر سکتی تھی اور سرور صاحب کمپیوٹر لیکن پھر بھی لکھنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
ڈس گرافیا کے حامل نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ اکثر ضروری فارم دوسروں کے سامنے پُر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور اکثر خواتین اور مرد حضرات نے کہا کہ اگر انہیں کہیں کوئی لکھنے پر مجبور کرے تو ایک جھوٹ بول کر شرمندگی سے بچتے ہیں کہ ’’عینک گھر پر ہے‘‘ ۔
ڈس گرافیا کئی قسم کا ہو سکتا، عام طور پر اس کی درج ذیل اقسام زیر بحث آتی ہیں:۔
ڈسلیکسیا ڈس گرافیا
اس میں جب بچے کو اپنے ذہن سے کچھ لکھنا پڑے تو وہ ہجوں یا سپیلنگ لکھنے میں بہت غلطیاں کرتا ہے۔ لفظوں کو نقل کرکے لکھنا اتنا مشکل یا خراب لکھائی میں نہیں ہوتا۔
یہ ضروری نہیں ہر ڈسلیکسک ڈس گرافیا کو ڈسلیکسیا بھی ہو، یہ دونوں عارضے الگ الگ ہیں لیکن اکثر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
موٹر ڈس گرافیا
اس میں ہجے کرنے اور سپیلنگ کرنے کی صلاحیت نارمل ہوتی ہے لیکن اس میں دماغ سے متعلق توازن والی حرکات ( فائن موٹر سکلز) میں کافی مسئلہ ہوتا ہے۔ لکھنا، لائن لگانا، رنگ بھرنا، لائن کے اندر رہ کر یا صرف اوپر اور نیچے نہ لکھ سکنا۔ ضرورت سے زیادہ ٹائم لگا کر لکھنا۔ پین اور پنسل کو ٹھیک طرح سے نہ پکڑ سکنا۔ لکھتے ہوئے بہت تھکنا، خاص کر ہاتھوں کا۔
سپے شل ڈس گرافیا ( فاصلے کا اندازہ نہ ہونا)
لکھنے میں فاصلے کی وہی اہمیت ہے جو بولنے کے درمیان سانس لینے کی اور دوسرے کی بات سننے کی۔ خواہ کوئی بھی زبان ہو اس میں لفظوں اور لائنوں کے درمیان مناسب وقفہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ریاضی میں اگر ایک ہند سہ ادھر سے ادھر ہو جائے تو سوال کا جواب غلط ہوجاتا ہے ۔ ڈس گرافیا کے حامل بچے فاصلے کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اپنی لکھائی کو لائنوں پر لکھنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ لفظوں کو اوپر نیچے، تنگ اور زیادہ کھلا لکھ دیتے ہیں۔ اس میں بچہ ہجے اور سپیلنگ تو صحیح لکھ لیتا ہے لیکن فاصلے کا تعین نہیں کر پاتا۔
ہجوں کا ڈس گرافیا
ایک دفعہ پڑھنا لکھنا سیکھنے کے بعد نارمل شخص کوئی بھی لفظ پہلی دفعہ سن کر لکھ لیتا ہے لیکن ہجوں کے ڈس گرافیا میں سپیلنگ یا ہجے یاد داشت میں نہیں رہتے۔ اور وہ مختلف الفاظ کو آپس میں اس طرح ملا دیتے ہیں کہ لفظ اپنی اصلی ترتیب کھو دیتا ہے۔ مثلًا اسدری( سردی) ۔ مسقتبل یا مقستل ( مستقبل) ۔ Ruf (rough) dys (Days) اس میں بچوں کو چھوٹی ’اے بی سی‘ لکھنا یعنی جوڑ کر لکھنا زیادہ مشکل لگتا ہے لیکن بڑ ی اے بی سی یعنی الگ الگ لفظ لکھنا قدرے آسان لگتا ہے۔
لیکسی کل ڈس گرافیا
کسی بھی علم کے لئے کتابی اصول اور اپنی سمجھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بہت ساری کتابی اور اصولی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن انسان اپنی حسیات اور اندازے یا تجربے کی بنیاد پر کام کرتا جاتا ہے جو اتنا ہی صحیح ہوتا ہے جتنی اس کی اندازے کی حس۔ زیادہ تر ڈرائیور نئی جگہ پر اندازے سے گاڑی چلا کر جاتے ہیں جو ان کے تجربے اور سینس کی وجہ سے درست ہوتا ہے۔
جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو ہر زبان میں بہت سارے الفاظ لکھنے اور سمجھنے کے لئے کوئی اصول نہیں ہوتے اور انہیں آواز کی ادائیگی کے حساب سے لکھ لیا جاتا ہے لیکن ڈس گرافیا کی اس قسم میں بچے اسی آواز کو لکھتے ہیں جو انہیں سنائی دیتی ہے خواہ لفظ میں وہ ہجہ نہ آتا ہو مثلاً (محتات ) محتاط ( خوب سورط ) خوبصورت ۔سوشل میڈیا پر تقریباً ہر کوئی اس ڈس گرافیا کا شکار نظر آتا ہے (Kat (cat) Fizikal (physical) بولنا ایک فطری عمل ہے، ہر بچہ بغیر کسی کے سکھائے جلد یا بدیر بولنا سیکھ ہی لیتا ہے لیکن لکھنا ایک ہنر ہے، کام ہے، آرٹ ہے۔کچھ لوگ بہت آرام سے بہت کوشش کئے بغیر لکھنا سیکھ لیتے ہیں اور وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ کچھ دوسرے لوگ کس قدر مشقت سے چند لفظ لکھتے ہیں ۔ بظاہر لکھنا بہت عام اور سادہ عمل نظر آتا ہے لیکن اس میں ہما ری نظر، یاد داشت اور حسیات اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ تیز، صاف، صحیح لکھنا تبھی ممکن ہوتا ہے جب سب اعضا اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
یاد داشت اور لکھنے کا عمل
لکھنے کے عمل میں یاد داشت بہت کام آتی ہے۔ الفاظ کا ایک بڑا حصہ دماغ میں محفوظ ہوتا ہے جو بوقت ضرورت جملے اور ان کی ترتیب دینے کے لئے خود بخود یاد داشت سے نکل کر کاغذ پر پھیل جاتا ہے، زیادہ تر ڈس گرافک بچوں کی کام کرنے کی یاد داشت نارمل بھی ہو تو بھی وہ لکھتے وقت دماغ پر بہت بوجھ محسوس کرتے ہیں ۔ خاص کر چھوٹے بچے کیونکہ ان کا لکھائی کا عمل ابھی لکھنا سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فائن موٹر سکلز کا لکھنے سے گہرا تعلق ہے، جن بچوں کو تسمے باندھنے، زپ بند کرنے، بٹن بند کرنے، قینچی سے کاٹنے، پنسل تراشنے، چمچ اور کانٹا پکڑنے میں مسئلہ ہوتا ہو، انھیں اکثر لکھنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے کیونکہ وہ Graphomotor dyspraxia کا شکار ہوتے ہیں ۔ گرافو موٹر کا مطلب ہے’’ لکھنے کی حرکت‘‘ اور ڈسپریکسیا ’’عمل میں مسئلہ۔‘‘ آسان الفاظ میں دماغ اور انگلیوں کے رابطے میں خرابی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان بچوں کو بڑی جسمانی حرکات جنہیں ’’ گراس موٹر سکلز‘‘ کہا جاتا ہے ان میں بھی مسائل کا سامنا ہو مثلاً سائیکل چلانا، رسہ پھلانگنا، فٹ بال کو کک لگانا یا کیچ کرنا، چھلانگ لگانا حتیٰ کہ بھاگنا ۔ ہاں! ہلکے پھلکے دماغی کاموں میں مسئلہ ( فائن موٹر سکلز) بعض اوقات جسمانی حرکات پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتا۔ آرٹ میں پیچھے رہ جانے والا بچہ بہت اچھا فٹ بالر ہو سکتا ہے ۔
حسیات اور لکھنے کا عمل
جوڑوں اور پٹھوں کی پوزیشن کو محسوس کرنے کی حس لکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 1924 میں آسٹریا میں پیدا ہونے والے امریکہ کے رہائشیJosef Gerstmann نے پہلی دفعہ finger agnosia نام کی بیماری کو دریافت کیا۔ اس میں مریض کو اپنی انگلیاں اور انگلیوں سے متعلق ڈرائنگ یا دوسری حرکات کا احساس نہیں ہوتا ۔ لکھنے کے لئے انگلیوں کی حرکات کا دماغ سے رابطہ بہت ضروری ہے دماغ انگلی کو اے، بی، سی یا 3،2،1 یا الف، ب، پ لکھنے کے لئے انگلی کو اسی سمت مڑنے کا حکم دے گا تو انگلی مڑ سکے گی لیکن ’فنگر اگنوشیا‘ میں جب دماغ سے رابطہ نہیں ہو پاتا تو انگلی اندازے سے لکھتی ہے، دماغ آگاہ نہیں ہو پاتا کہ انگلی کو الف سیدھا لکھنے ہے یا ’ج‘ کی گولائی اور ’بِ‘ کی کشتی کی شکل کا حکم دینا ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی سے فون پر بات کے دوران درمیان میں اتنی شوں شوں کی آواز ہو کہ کچھ سنائی نہ دے کہ کوئی فوت ہوا ہے یا پیدا ہوا ہے ۔ لکھنے کے لئے بہت باریکیوں سے گزرنا پڑتا ہے حسیات کی کمزوری کے باعث بچے ’’آٹو میٹک‘‘ لکھنے کے عمل سے نہیں گزر پاتے بلکہ اس مسئلے کا شکار بچوں کو بہت زیادہ تحمل سے لکھنے کی پریکٹس کرانا پڑتی ہے۔
ڈس گرافیا کی علامتیں
ہر بچے کا ڈس گرافیا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈس گرافیا بہت عام ہے لیکن ہلکی قسم کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اس کا پتہ سکول جانے کے بعد لگتا ہے۔ بعض اوقات بہت ذہین بچے بھی ڈس گرافیا کی وجہ سے اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
پنسل پکڑنے کا انداز نامناسب ہونا یعنی بہت سخت یا نارمل سے ہٹ کر پنسل پکڑنا، لفظ بہت خراب اور الٹے سیدھے لکھنا، ایک لفظ کئی طرح سے لکھنا، فاصلے کا تعین نہ کر سکنا یعنی لائن کے اوپر نیچے لکھ دینا، لکھائی بچگانہ ہونا جیسے ابھی لکھنا سیکھ رہا ہو اور بہت دبا کر گہرا لکھ دینا یا اتنا ہلکا کہ پڑھنا مشکل ہو، لکھائی بہت بکھری بکھری ہونا یعنی بے ترتیب لفظ الٹے ہونا یا اوپر سے نیچے ہونا، لائن کے شروع سے ابتدا نہ کرنا اور آخر پر ختم نہ کرنا، لکھائی کے اصولوں کا پابند نہ ہونا مثلاً انگریزی میں بڑی اور چھوٹی اے بی سی اور اردو میں لفظوں کی جسامت یعنی ’ج‘ کا سر بڑا اور پیٹ چھوٹا کر دینا ’د‘ کی گولائی کو کھلا کر کے ’ر‘ کی طرح لکھ دینا ۔ کثرت سے سپیلنگ اور ہجوں کی غلطیاں کرنا ، فقرات میں گرامر اور رموز اوقاف کی غلطیاں، بلیک بورڈ سے کاپی کرنے کی نسبت نوٹس بناتے وقت زیادہ گندا لکھنا ۔ کچھ بچوں کو بلیک بورڈ سے نقل کرنے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کچھ بچوں کو ڈرائنگ میں بھی مشکل ہوتی ہے، مثلاً سیدھی لائن نہ لگا سکنا، باوجود کوشش کے دائرہ نہ بنا سکنا، تصویر کے اندر رہتے ہوئے رنگ بھرنے میں ناکام رہنا۔ اس کے برعکس کچھ بچے لکھنے کی نسبت آرٹ میں بہترین کام کر سکتے ہیں۔
علاج
جب یہ علم ہو جائے کہ بچے کی لکھائی صرف خراب نہیں بلکہ اس میں اوپر دی گئی علامتوں میں سے چند یا کئی علامتیں پائی جاتی ہیں تو فوراً بچے پر توجہ دینی شروع کردیں۔ اس کے ٹیچر سے ملاقات کریں، اچھے سکولوں میں بچوں کے ہفتہ وار یا مہینہ وار ٹیسٹ سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔ آپ وہ نکلوا کر بچے کی لکھائی کے مسائل نوٹ کریں، موازنہ کریں اور استاد کے ساتھ مشاورت کریں کہ کون سے اقدامات کئے جائیں کہ لکھنے میں در پیش مسائل کا حل نکل سکے۔
زیادہ تر امکان ہے کہ ڈس گرافیا کی صورت میں استاد ہی گھر والوں کو نوٹ لکھ کر بھیجتا ہے کیونکہ بچے کے اس طرح کے مسائل میں استاد اور والدین کو مل کر کوشش کرنا ہوتی ہے تاکہ گھر اور سکول میں ایک ہی طرح کی حکمت عملی اپنائی جا سکے۔استاد کے علم میں لانا ضروری ہے کہ آپ بچے کے مسائل سے آگاہ ہیں اور اس سے یہ توقع کرتے ہیں، ان کے بچے کو مسائل کی وجہ سے دوسرے بچوں میں تضحیک کا نشانہ نہ بننے دیا جائے۔ گھر میں روزانہ بچے کو لکھنے کی پریکٹس کروائیں۔ لیکن صرف پندرہ منٹ کیونکہ اس سے زیادہ وقت سے بچہ تھک کر دلچسپی کھو دے گا اور اکتاہٹ سے کیا گیا کام فائدہ مند نہیں ہوگا ۔ زیادہ لکھائی کروانا چاہتے ہیں تو دن میں دو دفعہ پندرہ پندرہ منٹ کر کے کروا لیں۔
مختلف طرح کے ڈس گرافیا کی مختلف تھرا پیز اور علاج ہیں۔ اگر ہو سکے تو ایک دفعہ بچے کو کسی ماہر نیورالوجسٹ/ آکوپیشنل تھراپسٹ کو دکھا کر اس کے لئے تھرا پی کی ہدایات لے لیں اور پھر گھر پر پریکٹس کروائیں۔ بنیادی کام جو کئے جا سکتے ہیں وہ یہ ہیں:
بچے کو زیادہ لکھنے پر مجبور نہ کریں، اس کی بیٹھنے کی پوزیشن کا خیال رکھیں کہ آرام دہ ہو، پنسل کو موٹا کرنے کے لئے کوئی نرم فوم، ربڑ یا پلاسٹک پنسل کے اوپر چڑھا دیں، اس طرح بچے کی پنسل پر گرفت اچھی رہے گی ۔ دکاندار سے نرم سکے والی پنسل کا پو چھ لیں اگر مل سکے، نرم سکہ آرٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کی بہت ساری قسمیں ہیں مہنگی اور سستی، آپ سستا لے لیں اگر مل سکے تو۔ ہو سکے تو پلے ڈو بنا لیں ( ترکیب آخر میں دی گئی ہے ) اور اس سے لفظ بنائیں جس لفظ کے لکھنے میں بچے کو زیادہ مشکل ہو، اس کی پریکٹس زیادہ کروائیں، پلے ڈو سے ایک کھیل کا عنصر شامل ہوکر بصری حسیات زیادہ متحرک ہوں گی اور نرم، رنگین آٹا جب موڑا جائے گا تو زیادہ آسانی سے حرف کی بناوٹ سمجھ آ جائے گی ۔ اگر دس منٹ ’پلے ڈو‘ سے کسی حرف کی پریکٹس کی جائے تو اگلے پانچ منٹ وہی لفظ کاغذ پر لکھوایا جائے، پریکٹس کو طوالت نہ دیں۔
انگلیوں کی ورزش ضرور کروائیں، کوئی بھی کھیل جس میں انگلیوں کا زیادہ استعمال ہو، دی گئی ویب سائٹس پر جائیں اور دیکھیں اگر آپ کو کوئی مدد مل سکے تو لیں۔ آن لائن اکثر چیزیں بہت مہنگی ہوتی ہیں اور دوسرے یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ بچہ ان سے فائدہ اٹھا سکے گا یا نہیں۔ ان ویب سائٹس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو آئیڈیاز مل جاتے ہیں کہ کس کس طرح سے بچے کی مدد کی جا سکتی ہے ، اور اکثر چیزیں بہت کم خرچے سے یا بغیر خرچے کے بنائی جاسکتی ہیں۔ مثلاً گتے سے بڑے بڑے الفاظ بنائے جا سکتے ہیں جن کو اندر سے کھوکھلا کرکے ان کو سادہ کاغذ پر رکھ کر بچے کو ان کے اندر لکھنے کی پریکٹس کروائی جا سکتی ہے۔
پلاسٹک سے،گتے سے، اور کئی فالتو چیزوں سے بہت کچھ بنایا جا سکتا ہے، بچے کو فارغ وقت میں بہت ساری رنگین پنسلیں دیں اور اسے ڈرائنگ کی طرف مائل کریں، رنگ بھرنا اس کے دماغ کو لفظوں کو پہچاننے میں مدد دے گا، اگر گھر میں کمپیوٹر ہو تو جتنی جلدی ہو سکے اسے تھوڑی تھوڑی ٹائپنگ ضرور سکھائیں ۔ اس کا آگے چل کر اسے بہت فائدہ ہوگا ۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈس گرافیا کو با قاعدہ ایک مرض مان کر ہائی سکول بچوں کو کمپیوٹر پر ٹیسٹ دینے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ پاکستان کے سکولوں میں اگر یہ اجازت نہ بھی ملے تو بچہ کچھ بڑا ہونے پر اپنے بہت سے کام ٹائپنگ کے ذریعے کر سکتا ہے۔
ڈس گرافیا دی گریٹ
ڈس گرافیا کے حامل کچھ لوگوں نے ایسی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ جو انسانیت کی شان بن گئے۔ ڈاکٹر فریڈ ایپ سٹائن جو نیو یارک کے Beth Israel Hospital میں بچوں کے دماغ کی سرجری کے بانیوں میں سے ایک ہیں، ان کی زندگی حیران کن، معجزانہ واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر ڈاکٹر کو ان کی سوانح حیات پڑھنی چاہئے۔ وہ اپنے بچپن کا ایک تکلیف دہ واقعہ اپنے ایک انٹرویو میں بیان کرتے ہیں کہ
’’ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں تیسری کلاس میں تھا اور مجھے تختہ سیاہ کے سامنے ایک ایسے لڑکے کی مثال کے طور پر کھڑا کیا گیا تھا جو لکھ نہیں سکتا ۔ میں وہ ذلت اور اس کے نتیجے میں ڈپریشن جو اس ذلت کے ساتھ مجھے ملا کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔‘‘
آئیے اس قابل رحم بچے کی رحم دلی کے کچھ واقعات پڑھیں:
کتنے ہی نوجوان ہیں جو بہت شاندار اور خوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ان سب کے بچپن میں ان کے دماغ میں کوئی نہ کوئی ٹیومر ایسا تھا جو ان کے لئے جان لیوا تھا۔ ڈاکٹر فریڈ بہت پیار اور حیران کن مہارت سے ان بچوں کا آپریشن کرتا اور پھر انہیں ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح یاد رکھتا۔
مشہور امریکی چینل اے بی سی نیوز کے رپورٹر باب براؤن کا کہنا ہے کہ ’’جب میں پانچ سال پہلے ڈاکٹر فریڈ کو ملا تو اس وقت وہ ایک کتے کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرنے کے لئے رضامند ہوا تھا۔ اس نے کتے کے مالک کے سامنے ایک شرط رکھی کہ میں تمہارے کتے کا آپریشن کردوں گا لیکن تم بدلے میں ایک بچے کے آپریشن کا خرچہ اٹھاؤ گے جو اس کے والدین برداشت نہیں کر سکتے ۔ آج وہ بچہ جس کا نام ’جیفری مارٹن‘ ہے اور کتا جس کا نام ’ٹکٹ‘ ہے جو پگ نسل سے ہے دونوں زندہ ہیں اور صحتمند ہیں۔
’’ ڈاکٹر فریڈ ایک غیر روایتی انسان تھا۔ نیو یارک اسپتال میں اس نے نیورولوجی کے انسٹیٹیوٹ اور نیورو سرجری کے قیام کے لئے مریض بچوں کے والدین کی لسٹ بنائی ان سے ڈیزائننگ میں مشاورت کی۔ ڈاکٹر فریڈ اپنے نام سے بلائے جانا پسند کرتے تھے۔ چائلڈ کئیر ڈائریکٹر’’ ہنی شیلڈ‘‘ کا کہنا ہے کہ بچے ہمیشہ ان کے آفس میں بغیرکسی روک ٹوک کے آتے جاتے تھے۔ ہم ہمیشہ برآمدوں میں بچوں کو ان کے کمرے کی طرف جاتا دیکھتے ان کے چہرے پر بچوں کے لئے مسکراہٹ دیکھتے اور بچوں کی بات سننے کے لئے ان کا دل ہمیشہ کھلا رہتا، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فریڈ کو کہانیوں کے ایک مشہور کردار ’’پیڈ پائپر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پیڈ پائپر کی بانسری کی آواز بچوں کے لئے اتنی دلکش تھی کہ وہ اس کے پیچھے چلتے چلتے اپنے گھر اور گاؤں چھوڑ دیتے ہیں اور جہاں پیڈ پائپر جاتا ہے اس کے پیچھے چلتے جاتے ہیں۔ ریان ڈیوڈ سترہ سالہ لڑکا کہتا ہے کہ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈو اور انہیں ترک نہ کرو کیونکہ یہی وہ الفاظ ہیں جو مجھے ڈاکٹر فریڈ نے کہے تھے۔ سولہ سال پہلے ماؤنٹ سی نائی اسپتال نے ریان کے والدین کو کہہ دیا تھا کہ آپ کا بچہ بس چھ ماہ زندہ رہے گا ، کیونکہ اس کے دماغ کی بہت گہرائی میں ٹیومر ہے، اور ڈاکٹر فریڈ نے مایوس ماں باپ کے بچے کا ٹیومر نکال دیا۔
گلین ڈیوڈ ، ریان کا باپ آج تک ریان کے ساتھ ڈاکٹر فریڈ کو ملنے آتا ہے اور جب وہ شکر گزاری سے ڈاکٹر فریڈ سے کہتا ہے کہ ’’سولہ سال پہلے آپ نے ہمیں یہ تحفہ دیا تھا تو ڈاکٹر فریڈ مسکرا کر جواب دیتا ہے:’’ آپ نے بھی مجھے تحفہ دیا تھا ، آپ کا شکر یہ ۔‘‘ ٹیکنالوجی اچھی یا بری ہر جگہ مل جاتی ہے، آپ جانتے ہیں کہ آپ ٹیکنالوجی کو خرید سکتے ہیں۔ میں کسی کو بھی آپریشن کرنا سکھا سکتا ہوں، یقینا سکھا سکتا ہوں لیکن سب سے اہم بات کیا ہے؟ وہ یہ کہ آپ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کچھ چیزیں ٹیکنالوجی سے اوپر کی ہوتی ہیں، وہ یہ کہ آپ ان لوگوں کے لئے کیا کرتے ہیں جو اندر سے توڑ دینے والے لمحات میں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
یہ تھا وہ تیسری کلاس میں ڈس گرافیا کی وجہ سے شرمندہ ہونے والا بچہ جس نے بڑا ہوکر ہزاروں لوگوں کو صرف خوشی، صحت اور سکون بانٹا۔