پانچ ماہ قبل بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں بارشوں کا پانی سیلاب بن کر انسانی آبادی پر چڑھ دوڑا تو لوگوں کو بچانے کے لئے تمام ریاستی ادارے بے بس نظرآئے۔
فوجی اہلکاروں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو بچایا ، انھیں امدادی کیمپوں میں رکھا، کھانا ، پانی اور دیگر اشیائے ضروریہ فراہم کیں تاہم فوج سمیت تمام ریاستی ادارے اس چیلنج سے پوری طرح نمٹنے میں ناکام رہے ، اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ مصیبت کے مارے لوگوں نے یہاں کچرے کے اس قدر بڑے ڈھیر لگادئیے کہ کوڑا اٹھانے والے اداروں میں انھیں ہٹانے کی سکت نہ تھی ، ایسے میں یہاں کے مختلف لوگوں نے کچرا اکٹھا کرنے والی ایک لڑکی کو فون کیا۔ اسی مناسبت سے یہ ’’گاربیج گرل‘‘ کہلاتی ہے۔ لڑکی نے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیااور اتراکھنڈ پہنچ گئی۔ وہ اور اس کے ساتھی کسی بھی قسم کی گندگی کی پراہ کئے بغیر کوڑے کے ڈھیروں میں کودگئے۔
گاربیج گرل کوئی عام سویپر ہوتی تو اس کے بارے میں ایک لفظی کہانی نہ لکھی جاتی لیکن وہ انگلینڈ کے خوبصورت ساحلی علاقے یرموتھ سے تعلق رکھتی ہے۔اس کا خاندان خاصا متمول ہے۔ یہ لڑکی بھی خاصے نازونعم میں پلی بڑھی، زندگی کی وہ تمام آسائشیں اسے میسرتھیں جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ ہرکوئی حیران ہے کہ اس کے باوجود وہ دنیاکے سب سے زیادہ گندے ملکوں میں سے ایک بھارت کی گندگی صاف کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی۔ اتراکھنڈ کے دارالحکومت ڈیرہ دون میں کھڑی یہ لڑکی پچھلے کئی برسوں سے بھارت میں ہمالیہ کے علاقوں میں کام کر رہی ہے۔وہ اپنے ساتھیوں سمیت ڈیرہ دون اور دھرم شالہ میں کوڑا ہٹانے اور لوگوں کو اس حوالے سے بیدار کرنے کا کام کرتی ہے۔جوڈی کے بقول وہ جب سب سے پہلے بھارت آئیں تو پہاڑی علاقوں میں ہر طرف بڑے پیمانے پر بکھری گندگی دیکھ کر کافی مایوس ہوئیں بالخصوص پلاسٹک بیگوں کے حوالے سے۔ اس کے بعد جوڈی نے یہیں رہ جانے کی ٹھان لی، انھوں نے اس قدر گندگی میں لتھڑے علاقوں میں صفائی کے ساتھ ساتھ جتنا ممکن ہوا، لوگوں میں شعور پیدا کرنے کا کام بھی کیا۔ اب وہ ’ویسٹ واریئرز‘ نام کی تنظیم چلارہی ہیں۔
ایک این جی او کی سربراہ ہونے کے باوجود وہ آج بھی ہاتھ میں جھاڑو اور دستانے پہنے صفائی کرتے نظرآتی ہیں۔ جب وہ بھارت میں آئی تھیں تو وہ اکیلی تھیں، جب انھوں نے دھرم شالہ کے پہاڑوں کو صاف ستھرا کرنے کا کام شروع کیا، تب بھی وہ اکیلی تھیں تاہم آنے والے دنوں میں ان کے ساتھ لوگ جڑتے چلے گئے۔ اس گوری لڑکی کو پان کی پیک، گندے نالوں کے کوڑے یا کسی بھی طرح کی صفائی میںکوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ وہ بھارت میں رہ کر یہی کام کرتے رہنا چاہتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس قدر نازونعم والی زندگی سے علیحدہ ہوکر انھوں نے دنیا کے ایک گندے ملک کی صفائی کی کیوں ٹھانی؟ ان کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز ایک ہزار بچے گندا پانی پینے سے ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق 80فیصد آبادی گندگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوتی ہے۔ عام لوگ، بچے، سیاح، کاروباری افراد، شہری ادارے، پنچایتیں حتیٰ کہ مویشی ، ہرکوئی گلیوں، سڑکوں اور ندی نالوں کے ذریعے گندگی کا شکار ہورہاہے۔
دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ بھارت میں آباد ہے۔ یہاں ماحولیات کی خرابی نہ صرف اس ملک پر برا اثر ڈال رہی ہے بلکہ پورے سیارہ زمین پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ ہرمخلوقِ ارضی کا بنیادی حق ہے کہ اسے صاف ستھر ے ماحول میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملے لیکن اسے یہ حق مل نہیں رہاہے۔’’گاربیج گرل‘‘ اور اس کے ساتھی یہ حق فراہم کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔
جوڈی کہتی ہیں ’’گندگی صرف ایک جگہ کو گندا نہیں دکھاتی بلکہ اِ دھر اُ دھر بکھری ہوئی گندگی ہماری اور ہمارے خاندانوں کی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ اس حوالے سے جو بھی قواعد وضوابط بنائے جاتے ہیں، وہ ہمارے اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں۔جب تک انھیںپوری قوت سے نافذ نہ کیا جائے، لوگ عمل ہی نہیں کرتے‘‘۔
’’ ویسٹ وارئیرز‘‘ کی بانی جوڈی انڈرہل دسمبر2008ء میں بھارت میں آئیں، انھوں نے پورے بھارت کا ایک سیاح کی حیثیت سے دورہ کیا۔ اس کے بعد دھرم شالہ میں تبتی بچوں کے ایک گائوں میں بطور رضاکار کام کیا۔ پورے بھارت میں بکھرا کوڑا کرکٹ انھیں روز بروز پریشان کررہاتھا۔ پریشانی اس قدر بڑھی کہ جوڈی نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا چنانچہ اپریل2009ء میں انھوں نے ایک منصوبہ بنالیا۔انھوں نے سب سے پہلے بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے علاقے میکلوڈ گنج(ضلع کانگرہ) کی صفائی کا پلان بنایا۔ اسی علاقے میں جلاوطن تبتی بدھ مت رہنمادلائی لاما اور ان کے پیروکار بھی رہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اسے دھرم شالہ بھی کہتے ہیں۔ پہلے پہل تو جوڈی تن تنہا اس کام میں لگ گئی ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک گوری لڑکی ہاتھ میں بڑا سا بیگ لئے پہاڑی علاقوں میں اِدھر سے اُدھر گھوم رہی ہے اور اس علاقے کے مقامی لوگ اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہاں آنے والے غیرملکی سیاح بھی ۔اس نے ثابت کیاکہ کوئی ساتھ نہ بھی دے تاہم تن تنہا تبدیلی کا کام شروع کیاجاسکتاہے۔
بعد ازاں جوڈی نے نسبتاً بڑے پیمانے پر ایک ’صفائی مہم‘ کا اہتمام بھی کیا جس میں100افراد نے حصہ لیا، یوں جوڈی نے یہ بھی ثابت کردیا کہ بھارت کو صاف ستھرا بنانے کی صرف وہی اکیلی خواہش مند نہیں ہے۔ اس کے فوراً بعد جوڈی نے ’’مائونٹین کلینرز‘‘ کے نام سے ایک رضاکار گروپ تشکیل دیدیا۔ یہ گروپ ہفتہ وار بنیاد پر تریونڈ(مائنٹین کیمپ) جاتا۔ میکلوڈ گنج سے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ علاقہ کوڑے کرکٹ سے بھرا ہوا تھا۔ ہاتھوں میں بوریاں اٹھائے رضاکار اس علاقے کے ایک ایک چپے پر پہنچے اور وہاں سے سب کچرا اٹھالیا۔ وہ چائے کی دکانوں اور گیسٹ ہائوسزمیں بھی پہنچے، انھیں بھی کوڑے سے پاک صاف کیا ۔ اسی طرح انھوں نے ہائیکنگ کے پہاڑی راستوں کو بھی صاف کیا۔ یہ ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج ترییونڈ بھارت کا سب سے صاف ستھرا ہائیکنگ کا مقام ہے۔
اس علاقے میں ہندوئوں کے دیوتا ’’شیو‘‘ کا مندر بھی ہے، یہاں ہندوئوں کی بڑی تعداد آتی ہے جو ہرطرف گندگی پھیلاتی ہے۔ اسے صاف کرنے کا ذمہ بھی جوڈی نے اپنے سرلیا۔اس مہم میں بھی غیرملکیوں نے ان کا بھرپورساتھ دیا۔ جوڈی اور ان کے ساتھیوں نے اپریل 2011ء میں دس کوڑے دان مقامی آبادی کیلئے خریدے ، عین انہی دنوں میں تنظیم کا پہلا ملازم رکھاگیا، جس کا نام تھا ’ لقمان حسین‘ ۔ اس لڑکے کا تعلق ریاست بنگال سے ہے۔اس سے پہلے وہ میونسپلٹی اور ایک مقامی سکریپ ڈیلر کاملازم تھا۔ وہ اس پورے علاقے میں اچھلتا کودتا دکھائی دیتاتھا، وہ اپنی سخت محنت کی وجہ سے مشہور تھا اور بھاری بھرکم بوجھ اٹھانے میں بھی۔ لقمان حسین سے کہاگیا کہ وہ ان کوڑے دانوں کو خالی کرے گا۔ یہ تجربہ کامیاب ہوا ، چنانچہ آنے والے وقت میں مزید کوڑے دان بھی رکھے گئے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ اب یہاں رہنے والوں کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگانے یا اسے جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسری طرف ویسٹ وارئیرز رضاکار بچوں کے پلے گرائونڈز صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دوران انھوں نے نوٹ کیاکہ ہوٹلوں والے بھی کوڑے کے ڈھیر لگانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا حل بھی نکالا گیا اور جوڈی نے ایک ایک کاروباری مرکز اور ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاکر کوڑا جمع کرنا شروع کردیا۔ اس کام کیلئے مزید سٹاف بھی رکھنا پڑا۔
اب تک جوڈی اس سارے کام کی تن تنہا منتظم تھی ۔ تاہم کام اس قدر زیادہ تھا کہ اسے ایک مضبوط ساتھی کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، جب تاشی پاریک دسمبر2011ء میں جوڈی کی ٹیم کا حصہ بنی تو یہ ضرورت بہت اچھے اندازمیں پوری ہوئی۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی کل وقتی رضاکار کی حیثیت سے شامل ہوئیں۔ اب وہ پراجیکٹ مینیجر ہیں۔ان کی شمولیت سے تنظیم کا دائرہ کار مزید وسیع ہوا۔ اس کے بعد جوڈی نے ’گوا‘ کے ساحلوں پر جاکر صفائی مہم چلائی۔ مئی 2012ء میں پہلا شہری پراجیکٹ کیا اوراس کے لئے میکسی انڈیا فائونڈیشن کی فنڈنگ سے فائدہ اٹھایا۔
جوڈی نے سارے بھارت کو صاف ستھرا کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے ستمبر2012ء میںگروپ کو باقاعدہ ایک تنظیم کی شکل دیدی۔ نام ’ویسٹ وارئیرز‘ رکھاگیا۔ اس نام میں ایک پیغام بھی تھا کہ ہم گندگی کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں، ہم چاہتے ہیںکہ آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ اس تنظیم کے مقاصد میں لکھاگیا کہ بھارت میںکوڑا کرکٹ تلف کرنے کا ایسا حسنِ انتظام پیدا کرنا ہے جس کے نتیجے میں ماحول، صحت اور معیارِزندگی کو بہتر بنایاجاسکے۔اس کے لئے براہ راست ایکشن، باہمی تعاون ، تعلیم اور شعور میں اضافے کو ہتھیار کے طورپر استعمال کیاجائے گا۔
جوڈی نے کوڑا کرکٹ صاف کرنے کا کام کیوں شروع کیا؟ وہ کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ میں نے کچرا اٹھانے کا کام منتخب نہیں کیابلکہ کچرے نے مجھے منتخب کیاہے۔ جب میں نے بھارت میں گندگی کی حالت دیکھی تو اس نے مجھے بہت پریشان کردیا۔ تب مجھے اپنی زندگی کے اصل مشن کا اندازہ ہوا۔ میں سخت محنت سے بھاگتی نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے چیلنج کا سامنا کرنا پسند کیا۔میں نے بھارت جانے سے قبل ہی کچرا اکٹھا کرناشروع کردیاتھا‘‘۔
جوڈی کہتی ہیں ’’بعض معاشروں میں امیروں کے علاقے صاف ستھرے ہوتے ہیں لیکن غریبوں کے علاقے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بنے ہوتے ہیں۔ میں اپنے کام کے دوران ایسی کسی تخصیص کو خاطر میں نہ لائی۔ میرا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں طبقاتی تقسیم نہیں ہوتی ۔ میرا عقیدہ ہے کہ سارے انسان برابر ہیں۔ اسی کو اصول بناکر ہم صفائی کاکام کرتے رہے، پان کی پیک کے دھبے صاف کرتے رہے حتیٰ کہ گندی نیپیاں بھی اٹھاتے رہے۔ حالانکہ یہ پیشاب سے بھری ہوتی ہیں لیکن مجھے کبھی اس کام سے گھن نہیں آئی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے میں اپنے آپ کو فطرت کے زیادہ نزدیک سمجھتی ہوں‘‘۔
بھارت آنے سے پہلے انھوں نے کیاکچھ کیا؟ وہ کہتی ہیں’’میں یونیورسٹی میں نہیں گئی، میں نے سکول کی تعلیم کو بھی خیرباد کہہ دیاتھا۔ پھر میں برٹش ریسنگ سکول میں چلی گئی ، میں نے بچپن کا زیادہ عرصہ گھوڑوں پر سواری کرتے گزارا۔ میں ’’جوکی‘‘ بننا چاہتی تھی۔ بیس سال عمر کے بعد میں نے دنیا کی سیر شروع کرنے کا پروگرام بنایا۔اس خواب کو پورا کرنے کے لئے میں نے اپنے ملک میں بہت سی ملازمتیں کیں۔ مثلاً میں نے مختلف خیراتی اداروں میں فنڈریزنگ اسسٹنٹ یا رضاکارانہ طورپر کوارڈی نیٹر کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہی۔ اسی طرح ریسپسنسٹ کے طورپر بھی کام کیا، بہت ساری شخصیات کی پرسنل اسسٹنٹ بھی رہی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ان ساری ملازمتوں نے مجھے ایساتجربہ اور صلاحیت فراہم کی جو ایک این جی او چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہے‘‘۔
’’جیسے ہی میں نے میکلوڈ گنج میں صفائی مہم شروع کی تو مجھے وہاں کے مقامی لوگوں نے ’’ کوڑا اکٹھاکرنے والی لڑکی‘‘ کہناشروع کردیا۔ پہلی بار یہ نام سن کر مجھے دھچکا لگا تاہم میں اس سے پریشان نہ ہوئی۔ یہ لوگ مجھے اب بھی’’لڑکی‘‘ کہتے ہیں حالانکہ میں37سال کی ہوچکی ہوں‘‘۔
جوڈی کہتی ہیں ’’میری موٹیویشن اور انسپائریشن ہی مجھے کھینچ کربھارت لائی اور میرا یہ ایمان بہت مضبوط ہے کہ تبدیلی ممکن ہے۔ جیسی بھی صورت حال اور جیسی بھی مشکلات کا سامناہو ، مجھے کبھی اس کام سے پیچھے ہٹنے کا خیال نہیں آیا۔ جوبھی مشکل اور چیلنج میرے سامنے آیا ، اس نے مجھے کامیابی کی طرف بڑھنے میں مزید پختہ کیا۔ میری ٹیم اور رضاکار میرے لئے انسپائریشن کا ایک ذریعہ ہیں۔ زندگی میں ایسے لوگوں کو پانا میرے لئے ایک نعمت ہے۔ میں جو کام کررہی ہوں، ان لوگوں کے بغیر نہیں کرسکتی تھی‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ واپس انگلینڈ کب جائیں گی؟ تو انھوں نے فوراً جواب دیا’’ کبھی نہیں۔ ہاں! میں اپنے گھروالوں اور دوستوں سے ملنے ضرور جائوں گی لیکن میں وہاں مستقل قیام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ میں جو کام کررہی ہوں، میرا اسی میں دل لگتا ہے، میں اس کام سے پوری طرح جڑی ہوئی ہوں‘‘۔
جوڈی سینتیس برس کی ہوچکی ہیں لیکن انھوں نے ابھی تک شادی نہیں کی، نہ ہی ان کے ذہن میں شادی کرنے کا کوئی خیال ہے۔ ان کاکہناہے’’میں شادی شدہ ہوں لیکن میں نے اپنے مشن سے شادی کررکھی ہے۔ کچرے کے خلاف لڑائی کوئی کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرزِحیات ہے۔ اور دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس مشن کے لئے میری مصروفیت کو برداشت کرسکے۔ اگرمیرے بچے ہوجاتے ہیں تو مجھے انھیں وقت دیناپڑے گا۔ بچے پیدا کرنے کے بجائے، میں ان لاکھوں کروڑوں بچوں کی زندگیاں بہتر بناناچاہتی ہوں جو اس دنیا میں پہلے سے موجود ہیں اور جنھوں نے ابھی اس دنیا میں آنا ہے۔ میں اپنا کام کرناچاہتی ہوں اور یہ ہے بھارت کو ایک مکمل صاف ستھرا ملک بنانا۔ میں یہی ورثہ اپنے پیچھے چھوڑ کے جاناچاہتی ہوں‘‘۔
اپنے وطن سے اس قدر دور بیٹھ کر وہ اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے لئے رقم کا کیسے بندوبست کرتی ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں’’میں اپنے اس کام کی تنخواہ وصول نہیں کرتی ہوں۔سبب یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ ماضی میں ، اپنے وطن واپس چلی گئی تھی تاکہ وہاں کچھ کماسکوں اور پھر اس کمائی کے بل بوتے پر یہاں اپنی زندگی بسر کرسکوں۔ تاہم اب ہماری تنظیم کا کام اس قدر زیادہ پھیل گیا ہے کہ میرا واپس انگلینڈ جانا، وہاں کمانے کے لئے کچھ وقت صرف کرنا ممکن نہیں رہا چنانچہ اب میں کچھ متبادل طریقے سوچ رہی ہوں‘‘۔
جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ کیا ویسٹ و ارئیرز اس قدر گندے بھارت کو صاف ستھرا کرسکتے ہیں؟ تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کہتی ہیں’’جی ہاں! میرا اس پر مکمل ایمان ہے۔ سو فیصد ایسا ہوسکتاہے۔ میں ان علاقوں میں بہتری محسوس کر رہی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ ایک دن ہم پورے بھارت کو صاف ستھرا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جن علاقوں میں ہم کام کررہے ہیں، وہاں لوگوں نے اپنے آپ پر فخر محسوس کرناشروع کردیا ہے ۔یہ فخر بہت ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں بھارت کی گندگی ختم نہ کرسکوں تاہم میں نے جو کام شروع کیاہے، یہ میرے بعد بھی جاری وساری رہے گا‘‘۔
’’ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم انفرادی طورپر ، ایک خاندان کے طورپر، اپنے کاروباری دائرہ کار میں اور اپنے طبقات میں جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ بہت اہمیت رکھتاہے۔ زمین پر کچرا بالکل نہ پھینکیں، اور اپنے بچوں کو بھی اسی بات کی تعلیم دیں۔ کچرا اپنے گھر میں علیحدہ کرکے رکھیں، اگرکہیں کچرا اٹھانے کی مہم چل رہی ہے، اس کا حصہ بن جائیں۔ جب بھی ممکن ہو پلاسٹک بیگز لینے سے انکار کردیں ، اس کے بجائے کپڑے کے تھیلے اپنے گھر سے لے کر دکان پر یا بازار جائیں۔گندگی کے بحران کے موضوع پر اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بات کریں ، انھیں بتائیں کہ اگرصفائی ہوگی تو معاملات کس قدر بہتر ہوجائیں گے۔ اگرآپ حقیقت میں اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے کبھی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ تبدیلی ممکن ہے لیکن اس کا آغاز آپ ہی کریں گے‘‘۔
ویسٹ و ارئیرز کے اس وقت دو پراجیکٹس چل رہے ہیں۔ ایک دھرم شالہ (ہماچل پردیش) اور دوسرا ڈیرہ دون (ریاست اتراکھنڈ ) میں۔
’’دھرم شالہ پراجیکٹ کے ذریعے ہم انفراسٹرکچر قائم کر رہے ہیں۔ ہم یہاں کے لوگوں میں کوڑے دان تقسیم کررہے ہیں اور سٹریٹیجک مقامات پر ری سائیکلنگ سٹیشنز قائم کررہے ہیں۔ ہرگھر اور ہردکان وغیرہ پر جاکر کچرا وصول کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب گھروں اور کاروباری مقامات پر کچرا ڈمپ کرنے یا جلانے کا عمل 70فیصد کم ہوچکا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں ہائیکنگ روٹس پر ہم ہفتہ وار کچرا اکٹھا کرنے اور صفائی کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔ اس مہم میں بھارتی اور غیرملکی رضاکاروں کا تعاون حاصل ہوجاتاہے۔ اس طرح ہرہفتے قریباً دوہزار کلوگرام کچرا اکٹھا کیاجاتاہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم تعلیم کا پروگرام بھی چلارہے ہیں۔ ہم مقامی بچوں کے ساتھ ماہانہ ’’چلڈرنز ڈے‘‘ مناتے ہیں۔ سکولوں میں ہمارے تعلیمی پروگرامات کا مقصد نئی نسل کو ماحولیات کا زیادہ خیال دھیان رکھنے والا بنانا ہے۔ ہماری سرگرمیاں صرف تفریحی اور دلچسپ نہیں ہوتیں بلکہ ان کے ذریعے بچوں کو مصروف رکھاجاتاہے۔‘‘
’’ ڈیرہ دون پراجیکٹ کے تحت یہاںکے 600سکولوں میں تعلیمی پروگرامات کئے جارہے ہیں۔ یہ ایک طویل المدتی تبدیلی کے لئے انتہائی ناگزیرہے۔ اب یہ کام یہاں کے بڑے بڑے سکولوں کے ساتھ مل کربھی کئے جارہے ہیں۔ ہم ہرطبقے کے بچوں کو اپنا ہدف بنارہے ہیں۔ حکومت کا تعاون حاصل کرکے بھی مختلف کام رہے ہیں۔ ہمیں شہروں اور ضلعوں کے مجسٹریٹوں کی اچھی بھلی مدد حاصل ہے۔ ہم بھارتی فوج کے لئے بھی ٹریننگ ورکشاپس بھی کرارہے ہیں اور وادی ڈون کے صفائی کے عملے کی بھی۔ ہماری ایک ورکشاپ میں شریک ہونے والے سویپرز کی تعداد بعض اوقات ایک ہزار سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ہم گزشتہ 9مہینوں کے دوران قریباً 60ٹن کچرا اکٹھا کرچکے ہیں۔ ہم اپنے کام کی بدولت کئی کلین زونز قائم کرچکے ہیں۔ جاکھان میں بھی ایسے زونز ہیں۔ ہمارے 2ورکرز 25سویپرز جتنا کام کرتے ہیں۔یہاں کی مقامی آبادی ایک صاف ستھرے ماحول میں زندگی بسرکرتے ہوئے ہمیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔‘‘
’’ہماری صفائی مہمات کو مقامی انتظامیہ کا تعاون حاصل ہوتاہے۔ وہ بھی شہروں میں پلاسٹک کی مقدار کم سے کم کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ان مہمات کے نتیجے میں کاروباری طبقہ بھی پلاسٹک کا استعمال کم سے کم تر کرتا جا رہا ہے۔ ویسٹ وارئیرز نے ڈیرہ دون کی دیواروں سے بڑی تعداد میں پوسٹرز وغیرہ اتارے اور اس بات کا اہتمام کرایا کہ یہ دیواریں اب پوسٹرفری ہی رہیں۔ انھوں نے بس سٹاپس پر مسافروں کی انتظارگاہوں کو خوبصورت پینٹنگز کے ساتھ سجادیا جن میں مسافروں کے لئے صفائی ستھرائی کا ایک پیغام ہوتاتھا۔ ایسی جگہیں جہاں کوڑا ڈمپ کرنا غیرقانونی ہے ، وہاں سے قریباً 500بوریاں بھریں گئیں اور وہاں بینرز لگادئیے گئے کہ یہاں کوڑا ڈمپ نہ کیاجائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا یہ یہ جگہیں اب تک صاف ستھری ہیں۔ اسی طرح مختلف مشہورشخصیات کو ساتھ ملا کر موثر ٹی وی کمرشلز بنائی گئیں۔‘‘بھارتی حکومت اور یہاں کے دیگرکئی اداروں نے جوڈی انڈرہل کو ان کی خدمات پرمتعدد ایوارڈ سے نوازا ہے۔دھرم شالا میں صفائی کی کامیاب مہم پر انھیں ’’گرین ہیرو ایوارڈ ‘‘دیاگیا۔
بھارتی شہروں میں سالانہ 10کروڑ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے ۔ خشک کچرا جلادیاجاتاہے اور گیلا کوڑاکرکٹ نزدیکی کھلی جگہوں پر ڈمپ کردیاجاتاہے۔بھارت کی سب سے خوبصورت ریاست ’گوا‘ کیمیکلز سے آلودہ ہوچکی ہے۔ مون سون موسم کے سوا یہاں ہرطرف پلاسٹک جلنے کی بو پھیلی ہوتی ہے۔ ماحولیات کو آلودہ کرنے میں ہربھارتی باسی برابر کا کردار ادا کررہاہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگر بھارتی یونہی اپنی روش پر قائم رہے تو وہ دن دور نہیں جب گلوبل وارمنگ کا پوری دنیا میں واحد ذمہ دار بھارت ہوگا۔آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ( او ای سی ڈی) کے مطابق 2030ء تک بھارتی شہروں میں پیداہونے والی گندگی میں 130فیصد اضافہ ہوچکاہوگا۔
یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ بھارتی قوم اس لڑکی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، یہ قوم گندگی پھیلاتی جارہی ہے اور جوڈی گندگی صاف کرتی جارہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو آج بھارتی قوم میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں نوجوان اپنے اپنے علاقوں میں جوڈی جیسا مشن لے کر کام میں جت جاتے۔
ہم اپنے شہر کو کیسے صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں؟
ہم میں سے ہر کوئی دیکھتاہے کہ کس طرح سرکاری اور نجی زمینوں پر کچرا پھینکاجارہاہے۔ ہر طرف ڈھیر لگ رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی بھارتیوں کی طرح آلودگی پھیلانے میں دامے درمے سخنے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ امر بھی نہایت افسوسناک ہے کہ گندگی پھیلانے والوں میں اکثریت کو بچپن سے سکھائے جانے والے وہ سارے سبق بھول چکے ہوتے ہیں جن میں صفائی کی اہمیت اور افادیت بیان کی گئی تھی ۔ انھیں یہ بھی بھول چکا ہوتاہے کہ ہرقسم کی ماحولیاتی آلودگیاں کس طرح ہمیں اور دیگرجانداروں کی صحت خراب کررہی ہیں۔ ان کا رویہ ’’ مجھے کوئی پرواہ نہیں‘‘ والاہوتاہے یا ’’یہ میرا مسئلہ نہیں‘‘۔ یاپھر ’’میں اکیلا ہی یہ کام کیوں کروں؟‘‘
لوگ بھول جاتے ہیں کہ بہت معمولی تدابیر اختیارکرتے ہوئے ہم اپنے شہر اور علاقے کے فطری حسن کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہ تدابیر کیا ہیں، آپ بھی جان لیں:
اول: اگرآپ کیلے کھارہے ہیں یاپھر چپس تو آپ کو کیلوں کے چھلکے اور چپس کا پیکٹ کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں پھینکنا چاہیے۔ ہمیشہ اسے ٹوکری میں پھینکئے۔ عام طورپرایسے وقت میں انسان پر سستی اور کاہلی کا غلبہ طاری ہوجاتاہے اور وہ یہ سوچ کر چھلکے پھینک دیتاہے کہ کچھ دیربعد اٹھالوں گا، تاہم ایسا نہیں ہوتا۔ اس عادت کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی اس روش سے وہاں موجود ہرفرد متاثر ہوگا ۔ وہ آپ جیسی عادت کا مظاہرہ کریں گے۔
دوم: اپنے اردگر کے لوگوں کو ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم دیں۔ ان کی عادت کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ اس کا آغاز اپنے بچوں سے کیجئے اور پھر اپنے گھر کے بڑوں کو بھی صفائی کی عادت اختیارکرنے کی تلقین کریں۔
سوم: اگرآپ کہیں کچرا پڑا ہوا دیکھ رہے ہیں تو اسے اٹھا لیجئے۔ اس کام سے آپ کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا البتہ ماحول سنور جائے گا۔ عموماً ایسے وقت میں اس قسم کے خیالات آتے ہیں کہ میں کیوں دوسروں کا پھیلایاہوا کچرا اٹھائوں؟ میں اس کا ذمہ دار نہیں۔ اگرآپ کچرا اٹھاکر ٹوکری یا ڈرم میں ڈال دیں گے تویقینا آپ کی اس اچھی عادت سے دوسرے بھی مسحور ہوں گے۔ وہ بھی آپ جیسا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوں شمع سے شمع جلتی رہے گی اور ایک دن پورا معاشرہ روشن ہوجائے گا۔
چہارم: آپ کچرے کی ری سائیکلنگ کریں، اس طرح آپ کچرے سے مالی فائدہ بھی حاصل کرلیں گے۔
بس! یہی چار معمولی تدابیر ہیں، جنھیںاختیارکرکے آپ اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔ ہمیشہ مثبت اندازفکر اختیار کیجئے۔ جب ہم کسی کو کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھا دیکھتے ہیں تو ہمیں کتنا برا لگتا ہے۔ اگر ہم اپنے علاقے کو کوڑے کا ڈھیر بنانے میں لگے ہوں گے تو یہ فعل کیسے اچھا قرارپائے گا۔ پھر یہ بات بھی کتنی بری ہے کہ ہم خود گندگی پھیلاتے ہیں لیکن اس کی صفائی میں سستی کرنے پر سرکاری انتظامیہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔
اگرآپ اپنے علاقے میں اپنے دوست ، احباب اور دیگرجاننے والوں کو ساتھ ملا کر ایک گروپ تشکیل دیں جو نہ صرف خود بھی مندرجہ بالا معمولی تدابیر کا خیال رکھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی پابندی کی تلقین کرے، تو اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ آپ کی توقعات کی نسبت بہت جلد صاف ستھرا، خوبصورت اور صحت مند بن سکتاہے۔ اگر آپ اپنے علاقے کو سرسبزوشاداب بنانے کا بھی منصوبہ بنالیں تو اس میں بھی کچھ زیادہ خرچ نہیں ہوگا۔ البتہ آپ کا علاقہ اپنے اردگرد کے علاقوں کی نسبت زیادہ خوبصورت قرارپاسکتاہے۔
پاکستان کی صورت حال
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 54 ہزار 888ٹن ٹھوس کچرا پیدا ہوتاہے۔ کچرا پیدا کرنے والے شہروں میں گوجرانوالہ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد بالترتیب فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد، پشاور، بنوں، کوئٹہ اور سبی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ہمارے یہاں کچرے میں پلاسٹک، ربڑ، مختلف دھاتیں، کاغذ، گتہ، چیتھڑے، کانچ، ہڈیاں، کھانے پینے کی بچی ہوئی اور گلی سڑی اشیاء، جانوروں کا فضلہ وغیرہ، پتے، گھاس، لکڑی، پتھر اور ڈبے وغیرہ۔
مختلف شہروں میں موجود کچرے کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہواکہ ہمارے یہاں کھانے پینے کی بچی ہوئی اشیاء کا مجموعی کچرے میں حصہ 8فیصد سے21فیصد تک بنتاہے۔ پتے، گھاس وغیرہ کا حصہ 10فیصد سے15.6فیصد ہے، جبکہ ڈبے ، ریپرز وغیرہ کا حصہ 29.7فیصد سے47.5فیصد تھا۔ جس کچرے کی ری سائیکلنگ ہوسکتی ہے، اس کا حصہ13.6فیصد سے23.55فیصد تھا۔پاکستان میں بھی کچرا وغیرہ اکٹھا کرنے کے لئے مناسب انتظام موجود نہیں ہے بالخصوص چھوٹے شہروں میں سرے سے ہی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ مختلف شہروں کاجائزہ لینے سے کچرا اٹھانے کی شرح 51فیصد سے69فیصد نظرآئی۔ دوسرے لفظوں میں آدھا یا آدھے سے کچھ زیادہ کچرا ہی اٹھایاجاتاہے۔باقی ماندہ کچرا عموماً جلایاجاتاہے۔اس میں پلاسٹک اور ربڑ وغیرہ بھی شامل ہے جن کا دھواں انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہوتاہے۔ خطرناک ترین امر یہ ہے کہ اسے کھلے ماحول میں جلایاجاتاہے۔ یہ پہلو بھی دیکھنے کو ملا کہ ہرشہر کی انتظامیہ اپنے بجٹ میں ویسٹ مینجمنٹ کے لئے اچھا خاصا بجٹ مختص کرتی ہے لیکن اس کے نتائج نظر نہیں آتے۔ ان شہروں میں آج بھی کچرے کو ڈمپ کیاجاتاہے یاپھر عام جوہڑوں اور تالابوں میں پھینک دیاجاتاہے۔ پاکستان کے تمام دریا اور زرعی زمینیں بھی کچرا پھینکنے کی ’بہترین‘ جگہ تصور کی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد متعدد بیماریوں کا شکار ہورہی ہے۔ ان میں ملیریااور ہیضہ سرفہرست ہیں۔