وہ ہے نا….

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔۔
اس انتظارگاہ میں کوئی افراتفری یا بے چینی نہ پائی جاتی تھی… دھیمی دھیمی انسانی آوازیں، اونچائی پر لگی مستطیل پلیٹوں میں روشن بدلتے ہندسے، اور بڑے سے بلوریں ٹینک میں رنگ برنگی پرسکون مچھلیاں، ہر شۓ سےصفائی، ترتیب اور تہذیب کا احساس ہوتا تھا۔

نورالعین نے ایک گہری سانس لے کر اس شفاگاہ کے ناظم کے لئے عقیدت محسوس کی اور اپنے دائیں پہلو پر بیٹھی اس ننھی بچی کو غور سے دیکھا جو اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی گاہے بہ گاہے ہاتھ میں دبا رومال استعمال کرتی… اس کو زکام تھا شاید جو اسے چڑچڑاہٹ پر لاچکا تھا۔

ماں گجراتی اور اردو دونوں کو ملاکر اپنی بیمار بیٹی کو بہت سکون سے سنبھال رہی تھی لیکن بچی کا مزاج خاصا برہم تھا۔ مگر یہ برہمی بھی چپکے سے تھی، قریب ترین بیٹھی نور اور پانی میں مزے سے دم اور پنکھ ہلاتی مچھلیاں ہی جان پائیں کہ “امی کی جان مریم” نہ جانے کیوں سب سے ناراض ہے۔

نورالعین نے نگاہ اوپر کرکے ہندسوں کو دیکھا، نظر کے آگے گرے دائرہ سا گزرا، ابھی اس کی باری آنے میں وقت تھا۔

“مریم آپ میرے بیگ کا دھیان رکھنا، میں ابھی آتی ہوں ” اس نے سرخ اسکارف پہنے مومی چہرے والی بچی کو مخاطب کیا تو وہ سر ہلا گئی۔
کچھ دیر بعد وہ لوٹی تو اس کے ہاتھ میں بسکٹ کا پیکٹ تھا جسے اس نے مریم کی جانب بڑھایا تو اس نے نفی میں سر ہلادیا۔

“آپ کس شکایت کے لیے آئی ہیں؟”
نور نے بسکٹ کا پیکٹ کھول مریم کی ماں کی جانب بڑھاتے سوال کیا تو اس کے چہرے پر لمحہ بھر کو سایہ سا ابھرا لیکن پھر وہ مریم کو دیکھ کر مسکرا گئی جو ماں کی جانب متوجہ تھی۔

“قطرے ڈلوا لیں”
شفا خانے کا خدمت گار نورالعین سے مخاطب تھا۔
ڈالے گئے قطروں سے آنکھوں میں جلن سی ہوئی اور پانی بہنے لگا۔ ہاتھ میں تھماۓ ٹشو سے آنکھیں تھپتھپاتے، اُس نے ننھی پری کی جانب چہرہ پھیرا جو اسے بہ غور دیکھ رہی تھی اور مسکرا دی۔
پھر پلٹ کر اُس نے ماں کی آغوش میں گھس کر کچھ سرگوشی کی تو ماں کے چہرے پر روشنی سی کوند گئی۔

“نہ جانے ڈاکٹر کیا انکشاف کرے گا، یہ دھبے کیسے میری آنکھوں کے آگے تیر جاتے ہیں” ، نورالعین نے ٹشو سے آنکھ سے بہتا پانی پونچھتے سوچا۔
“فکرنہ کریں، رب ہے نا!! “
نورالعین کے ہاتھ پر نرم گرم سی ہتھیلی کے دباؤ کے ساتھ سرگوشی ابھری۔

اس نےآواز کے رخ پر گردن گھما کر مریم کی ماں کو دیکھا، سیدھی سادی گھریلو سے حلیہ کی عورت جس کے چہرے پر اسے”نہ گیان نظر آیا اورنہ ہی وہ مہان لگی ” لیکن اس کے الفاظ” رب ہے نا” اس کی ہاتھ کی لہروں سے منتقل ہوتا نورالعین کے خون میں دوڑ گیا۔
بے اختیار اس نے مسکراتے سر ہلایا اور مریم کے گال چھوئے ۔۔

“یہ….؟؟؟” اس کو الفاظ نہ ملے… مریم کے چھوٹے سے چہرے پر ٹکی بھدے لینس والی سیاہ عینک سے اس کو خوف آیا۔
“پیدائش سے ہی موتیا ہے اس کی آنکھوں میں!
” نسوں کا کھیل سارا…!
“اس کو آنکھ کی تکلیف کے ساتھ نزلہ بھی بہتا ہے۔ رات روشنی تنگ کرتی ہے اور…”
وہ کہتے کہتے چپ ہوگئی، چہرہ خزاں رسیدہ لمحہ ہوا لیکن پھر وہ رنگ بدل گیا… ہلکی سی مسکراہٹ ابھری…

“میری بیٹی بہت بہادر ہے…اس کا ابو اسے بہادر مریم کہتا ہے” اس نے مریم کو محبت سے دیکھا تو وہ اپنے ننھے ہاتھوں میں لگے مہندی کے گل بوٹے دیکھنے لگی… اجلے ہاتھوں میں چمکتی مہندی اور ان میں دبا رومال جس سے ناک سے بہتا پانی صاف کرتی وہ “بیچاری لگتی”بچی بہادر ماں باپ کی بہادر مریم تھی..
میری بیٹی کہتی ہے:” میں ٹھیک ہوں امی، اللہ ہے نا”

ماں نے اپنے بجتے موبائل کو نورالعین کی جانب معذرت نگاہ ڈالتےکانوں سے لگایا۔
نورالعین کی آنکھ کے آگے دھبے پھر ناچے اور بے اختیار اس نے دل میں توانائی محسوس کی۔
“اللہ ہے نا!!”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں