انصارعباسی۔۔۔۔۔۔
جو کچھ نیب کر رہا ہے اُس سے وزیراعظم عمران خان اس لیے خوش ہیں کیونکہ اُن کے مخالف سیاستدانوں کو سختی کا سامنا ہے اور کسی بھی سچے جھوٹے الزام کی بنیاد پر اُنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ لیکن جو بات اس وقت خان صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ کہ نیب کی ان کارروائیوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو نہ یہاں کوئی کاروبار ہو گا، نہ بیوروکریسی کام کرے گی، نہ پالیمنٹ چلے گی اور نہ ہی کسی قسم کی قانون سازی ہو گی اور اس کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہوگا۔
نیب کے لیے سب سے آسان کام گرفتاریاں کرنا ہے، بعد میں سوچا جاتا ہے کہ کیس کیا بنائیں۔ جسے دل چاہتا ہے گرفتار کر لیتے ہیں اور اسی وجہ سے سرکاری افسران ہوں یا کاروباری افراد، سب پریشان ہیں۔ ڈر اس بات کا نہیں کہ انہوں نے کرپشن کی ہے اور پکڑے جائیں گے بلکہ اصل خوف اس بات کا ہے کہ کرپشن نہ بھی کی ہو تو کسی بھی بہانے نیب پکڑ سکتا ہے۔ یعنی جیل پہلے ملتی ہے، مہینوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو سالہا سال تک بے قصور قید میں ہی رہنا پڑتا ہے، پھر جا کر عدالت سے آزادی کا پروانہ ملتا ہے اور یہ حقیقت کھلتی ہے کہ کیس غلط بنایا گیا تھا یا ثبوت موجود نہیں ہیں۔
اب تو اعلیٰ عدلیہ نے بھی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ نیب بدنیتی کی بنیاد پر مقدمات قائم کرتا ہے۔ گویا ایک طرف خوف میں مبتلا بیورو کریسی کام کرنے کو تیار نہیں تو دوسری طرف یہی حال کاروباری طبقے کا ہے اور اس بات کا وزیراعظم خود بھی کئی بار اظہار کرچکے ہیں۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے جب اُنہیں احتساب کے نام پر محض الزامات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے تو اس سے سیاسی ماحول میں حدت پیدا ہوتی ہے، پارلیمنٹ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور یوں درحقیقت حکومت کے لیے نہ انتظامیہ کام کرتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ جبکہ معیشت کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اگر نیب واقعی احتساب کر رہا ہے تو کوئی اسے پوچھنے والا ہے کہ صاف پانی، آشیانہ اور رمضان شوگر مل کیسوں میں اُس نے کس بنیاد پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور کئی دوسرے افراد کو گرفتار کیا؟ لاہور ہائی کورٹ نے ان کیسوں میں کہا کہ نیب نے یہ کیس بدنیتی کی بنیاد پر بنائے اور یہ بھی کہ نہ ان کیسوں میں گرفتار افراد پر کوئی کرپشن کا الزام لگایا گیا اور نہ ہی اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا، کسی قانون یا قاعدے کی خلاف ورزی بھی نہیں کی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کے حوالے سے کہا کہ اُنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ بدعنوانی کی جبکہ نیب کی پِک اینڈ چُوز پالیسی بدنیتی پر مبنی لگتی ہے۔ آشیانہ اسکیم کے بارے میں اربوں کی کرپشن کی کہانیاں سنانے والے نیب کو لاہور ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس اسکیم میں ایک انچ حکومتی زمین نہ کسی کو دی گئی اور نہ ہی کوئی نقصان ہوا۔
عمران خان اور شیخ رشید شہباز شریف کو سب سے بڑا کرپٹ ثابت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن اعلیٰ عدلیہ نے نیب کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا اور ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ نیب ہمیشہ کی طرح اس بار بھی استعمال ہوا جبکہ حقیقت میں اس کے پاس شہباز شریف کے خلاف نہ کوئی ثبوت پہلے موجود تھا اور نہ اب ہے۔ نیب نے شہباز شریف کے خلاف یہ کیس کیوں بنائے،
اس بارے میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ میری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو جیل اور کیسوں کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ اُنہوں نے اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے انکار کردیا تھا۔ ویسے وزیراعظم عمران خان کے اپنے تعینات کیے گئے بہترین شہرت کے مالک ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب حسین اصغر نے گزشتہ چار ماہ کے دوران صوبہ میں کرپشن کے بہت سے کیس پکڑے، حکومتی جماعتوں تحریک انصاف اور ق لیگ کے تقریباً پانچ چھ ممبران اسمبلی کے خلاف ایف آئی آرز بھی دیں لیکن شہباز شریف جنہوں نے صوبہ پنچاب میں دس سال لگاتار حکومت کی، کے خلاف کوئی ایک بھی کرپشن کا کیس نہیں ملا۔
جب زمینی حقائق یہ ہیں تو وزیراعظم کو سوچنا چاہئے کہ اس کے باوجود اپنے مخالفین کو چور ڈاکو کے القابات سے نواز کر سیاسی ماحول کو خراب کرنے سے حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ نقصان ان کا اپنا ہی ہو گا۔ اس لیے میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ الزامات کی سیاست کو چھوڑ کر ایک قابلِ اعتبار اور انصاف پر مبنی احتساب کا نظام قائم کیا جائے جس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ ہو، ناکہ احتساب کے نام پر لوگوں کی عزتوں کو اچھالنا اور بے قصوروں کو جیل میں ڈالنا، جو ہمیشہ سے نیب کا وتیرہ رہا ہے۔