آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے سربراہ اور جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا ہے پاکستان میں سیاسی ماحول ان کی واپسی کے لیے مناسب ہے تاہم ان کا ابھی وطن واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں زیادہ تر افراد ان کے ہیں، تاہم یہ ’غیر معمولی‘ ہوگا کہ حکومت سے گزارش کروں کہ ان کا کیس عدالت میں دائر کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں سیاسی ماحول سازگار اور بہتر ہے، آدھے سے زیادہ وزیر میرے ہی ہیں، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل میرے وکیل تھے‘۔
اے پی ایم ایل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میرا ملک ہے، میرے دوست اور رشتہ دار وہیں ہیں میں وہاں ضرور جاؤں گا تاہم ابھی میں بے وقوفوں کی طرح فوری نہیں کود سکتا، میں ایک حکمت عملی کے تحت پاکستان جاؤں گا‘۔
جنرل مشرف جو خود ساختہ جلا وطنی کے بعد دبئی میں قیام پذیر ہیں، نے ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر تنقید کرتے ہوئے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو ’لٹیرے‘ قرار دیا۔
انہوں نے خصوصی طور پر آصف علی زرداری پر تنقید کی اور الزام لگایا اور کہا کہ وہ متعدد ’قتل اور اغوا برائے تاوان‘ کے کیسز میں ملوث ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس کے نزدیک تقریباً 40 گھروں پر انتہائی کم قیمت پر قبضہ کیا۔
انہوں نے میڈیا کو تجویز دی کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف کام کریں جنہوں نے ان کے مطابق ’ملک کو تباہ کردیا ہے‘۔
پریس کانفرنس کے دوران پرویز مشرف نے اپنی جماعت کے چیئرمین ہدایت اللہ خیشجی کو متعارف کرایا جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اے پی ایم ایل میں تنظیم نو کا کام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیماری کے حوالے سے باتیں کی جارہی ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ اے پی ایم ایل ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی صحت بہتر ہورہی ہے اور وہ جنوبی افریقہ کے ٹرینر کے ساتھ جم میں روزانہ کی بنیاد پر ورزش کر رہے ہیں۔
پرویز مشرف، جنہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک پر 9 سال حکمرانی کی، کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا اصل مقصد نواز شریف اور آصف علی زرداری کو سیاست سے باہر کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اے پی ایم ایل ان کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے تمام اقدامات کرے گی۔
سابق فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی حمایت کرتی ہے جو ملک میں ’تیسری قوت‘ بن کر ابھری ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لیے اگر کوئی بھی اقدامات کیے گئے تو ان کی جماعت تحریک انصاف کا ساتھ دے گی۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات
پریس کانفرنس کے دوران سابق صدر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو توڑنے کی ضرورت ہے اور پاکستان ایسا بہت آسانی سے کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ہندو اور یہودی لابی بہت مضبوط ہے اور بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری میں بھارت کی سنی بھی جاتی ہے۔
جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل، پاکستان سے تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان اور اسرائیل کے وجود کو لاحق خطرات کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنے دور حکومت میں کیے گئے اقدامات یاد دلائے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیو یارک میں امریکی یہودی کانگریس سے بات کی تھی اور ان ہی کی کوششوں کی وجہ سے ان کے دور حکومت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کی ترکی میں اپنے اسرائیلی ہم منصب سے بات ہوئی تھی۔
پاک-بھارت تعلقات
ان کا کہنا تھا کہ جوہری قوت کے حامل پڑوسی ملک بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ’خطرناک سطح‘ پر پہنچ گئی ہے اور اس ہی طرح کی صورتحال 2002 میں بھی پیدا ہوئی تھی جب بھارت نے اپنی آرمی، نیوی اور ایئر فورس کو سرحد پر 10 ماہ تک تعینات کر رکھا تھا تاہم بھارت میں ایڈونچر کرنے کی اتنی ہمت نہیں ہوئی اور پاکستان کی تیاریاں دیکھتے ہوئے اس نے اپنی فوج کو واپس بلالیا تھا۔
پاکستان کے سابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارت کو کشمیر کے چند علاقوں میں زمینی صورتحال کے حساب سے فائدہ ہورہا ہے تاہم وہ سرجیکل اسٹرائیک نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان بھی دیگر کئی علاقوں میں فائدے میں ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ پاک فوج بھارت کی کسی بھی حرکت کی تیاری کے لیے ایک منصوبہ بنا کر رکھے۔
ایک سوال کے جواب میں جنرل مشرف نے جوہری حملوں کی باتوں کو احمقانہ قرار دیا اور کہا کہ ’پاکستان، بھارت پر ایک جوہری حملہ کرے گا اور بھارت، پاکستان پر 20 حملے کرکے ہمیں ختم کردے گا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان، بھارت پر 50 جوہری بم پھینکے، تو وہ ہم پر 20 بم بھی نہیں پھینک سکیں گے، کیا آپ 50 بم پھینکنے کے لیے تیار ہیں؟’
انہوں کہا کہ ’یہ اتنا آسان نہیں، اس طرح باتیں نہیں کریں، یہاں ہمیشہ فوجی حکمت عملی تیار رہتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بھارت کشمیر میں کوئی حملہ کرتا ہے تو پاکستان، سندھ اور پنجاب میں حملے کرکے انہیں سبق سکھا سکتا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی
سابق صدر کا کہنا تھا کہ اگر امریکا، افغانستان سے اپنی فوج واپس بلالیتا ہے تو کابل میں خانہ جنگی کا آغاز ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد 3 طرح کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہیں جن میں پہلی یہ کہ افغان، ازبک اور تاجک میں جنگ کا آغاز ہوجائے گا، دوسری طالبان ملک پر قبضہ کرلیں گے اور تیسری یہ کہ شمالی اتحاد بھارت کی مدد سے ملک کے چند حصوں پر قبضہ کرلے گی اور ایسی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان افغانستان میں پروکسی وار کا آغاز ہوسکتا ہے۔(بشکریہ ڈان)