پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کی طرف سے کسی قسم کے حملے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں ایسی خبریں آ رہی ہے کہ پاکستان حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ ’ہم ایک خود مختار ملک ہیں اور اپنے دفاع کے لیے سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے۔‘
انھوں نے کہا ماضی میں پاکستان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، لیکن پاکستان نے ان سے سبق سیکھا ہے اور آئندہ کوئی غلطی کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں کچھ اہم واقعات ہونے والے ہوتے ہیں تو انڈیا یا کمشیر میں ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے کہا انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ آخر کشمیریوں میں موت کا خوف ختم کیوں ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے انڈیا کی جانب سے فوری الزامات کا جواب دینے کے لیے کچھ وقت لیا کیونکہ ہم اپنی تحقیق کرنا چاہتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا نے پاکستان کے قیام کے 72 سال بعد ابھی تک اسے دل سے قبول نہیں کیا ہے اور جب بھی پاکستان بہتر صورتحال میں پہنچتا ہے وہ اس کی ترقی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جوہری طاقت بننے کے بعد جب بھارت پاکستان پر روایتی جنگ مسلط کرنے کی کی پوزیشن میں نہیں رہا تو اس نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان فوج جنگ کی بھٹی سے گزری ہوئی فوج ہے۔پاکستان کی فوج نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ‘ہم نے خون کے سمندرسے گزر کر قوم کو جلا بخشی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن اگراس پر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کو تیار پائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا ایک جمہوریت ہے اور جمہوریتیں جنگیں نہیں کرتیں۔ انھوں نے کہا انڈیا کو یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ایک خطے میں ایک ملک ترقی نہیں کرتا بلکہ پورا خطہ اکھٹے ترقی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا انڈیا اور پاکستان کے ہیومن سیکورٹی انڈیکس پر دھیان دینا چاہیے اور ا پنی آنے والی نسلوں کو بہتر معیار زندگی دینے پر توجہ دینی چاہیے۔
ایران کی جانب سے پاکستان پر الزامات کے حوالے سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ایران اور انڈیا کا موازنہ نہیں ہو سکتا۔ انڈیا کے ساتھ ہماری تاریخ ہے لیکن ایران ہمارا برادر ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ہماری توجہ افغان بارڈر پر رہی ہے اس لیے ایران کے ساتھ بارڈر کو زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ ایران کے ساتھ ہماری 900 کلومیٹر بارڈر ہے اور ہماری فوج نہیں لگی ہیں کیونکہ ہمیں وہاں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا پاکستان اور ایران سرحد پر باڑ لگانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔