ڈپریشن سے فوری نجات لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عصمت اسامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اسلاف کا دور بھی کیا سنہرا دور تھا جب لوگ مل جل کے رہتے تھے -سب بیٹے ,انکی اولادیں ایک ہی دادا جان کے سایہ رحمت میں پروان چڑھتی تھیں-بچے اکٹھے کھیلتے اور پڑھتے تھے -خوشیاں بھی سانجھی تھیں اور دکھ بھی -ہمسایہ کو "ماں جایا” کہا جاتا تھا -محلے کی بیٹی گزرتی تو بیٹے راستہ چھوڑ دیتے تھے-دن کا آغاز آذان فجر اور تلاوت سے ہوتا تھا ,شام کو محلوں میں چوپالیں یا بیٹھکیں سج جاتیں-ہر ایک کے مسئلہ کا حل نکالا جاتا –

معیار زندگی اتنا بلند نہ تھا ,نہ ایسی ٹینشن تھی -سادگی ,معصومیت اور اپنائیت جیسے گھٹی میں تھی ,لوگ صبر و توکل ,ایثار و قربانی کے خوگر تھے -مہمان کو زبردستی روکا جاتا اور اصرار کرکے کھلایا پلایا جاتا تھا -درختوں پہ چڑیوں کے گھونسلے گراۓ نہیں جاتے تھے -وقت میں برکت تھی اور گھروں میں سکون تھا –

اب تو وہ زمانے نہیں رہے -وقت گزرنے کے ساتھ یہ ساری خوبصورتیاں ماند پڑ گئ ہیں -ہر کوئ اپنی مصروفیت میں مگن ہے -کسی کے پاس دوسرے کے لئے وقت نہیں ہے یا شاید ترجیحات بدل گئ ہیں -کوئ کسی کے لئے وقت نکالنا ہی نہیں چاہتا -میری ذات , میری زندگی ,میرے کام ,بس اسی دائرے میں ہر انسان قید ہو کے رہ گیا ہے –

ٹچ موبائل نے جہاں بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں ,وہیں اپنوں کو اپنوں سے دور بھی کردیا ہے -اب کوئ کسی کی خبر رکھنے کے لئے اس کے گھر جانے کی بجاۓ ایک ایموجی بھیج دینے کو کافی سمجھتا ہے -مشکل وقت میں کوئ کسی کے کام نہیں آتا ,ہر بندہ اپنی جنگ تنہا لڑ رہا ہے -والدین اور بچوں میں جنریشن گیپ آچکا ہے-وہ ادب ,لحاظ اور مروت جو ہمارے بڑوں نے ہمیں سکھایا تھا وہ قصہ پارینہ ہو چکا ہے,اب بچے والدین کے آگے سر نہیں جھکاتے بلکہ والدین کو بچوں کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑتی ہے (الا ماشا اللہ)-

پہلے تعلیمی اداروں کی توجہ کردار سازی پر ہوتی تھی ,اب تعلیم نے کاروبار کا روپ دھار لیا ہے -موبائل کلچر اور سکریننگ نے اخلاقی اقدار و خاندانی روایات کو پارہ پارہ کردیا ہے -اسلامی تہذیب پر کفر کا کلچر حملہ آور ہے-مادہ پرستی ,خودغرضی اور سٹیٹس کی کشمکش نے نفسیاتی مسائل کو جنم دیا ہے –

ایک سروے کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا فرد ڈیپریشن (Depression) میں مبتلا ہے -گزشتہ سال میں پانچ میڈیکل سٹوڈینٹس کی خودکشی کی خبروں نے ہر ذی شعور کو سو چنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان قابل ترین طلبہ نے اپنی زندگی کو ختم کر ڈالا…جنہوں نے دکھی انسانیت کا مسیحا بننا تھا !
بقول شاعر
~ میں سب سے ملتا رہا ہنس کے اس طرح کہ مجھے
کسی نے دیکھا نہیں ٹوٹتے بکھرتے ہوۓ
میں اس گھرانے کا چشم و چراغ ہوں جس کی
حیات گزری ہے خوابوں میں رنگ بھرتے ہوۓ !

مہنگائ اور بیروزگاری نے ایسی بھوک پیدا کردی ہے کہ دستر خوان چھوٹے ہوگئے ہیں یا شاید دل تنگ ہوگئے ہیں -دوست اپنے دوست کو قرض دینے پہ تیار نہیں -خود غرضی ,مادہ پرستی ,بے لگام خواہشات ,رقابت ,نفرت مقابلہ بازی ,دوسرے کو نیچا دکھانا ,کو -ایجوکیشن اور نظام تعلیم کے نقائص ,میڈیا کا پیدا کردہ ہیجان ..یہ سب عوامل ہیں ڈیپریشن اور ذہنی دباؤ (stress)میں اضافے کے ,یہی ساری برائیاں ذہنی بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں –

خاص طور پر ٹین ایجرز اور نوجوان بہت خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ ذہنی تناؤ ہی خودکشی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنتا ہے -لمحہ فکریہ ہے کہ ہر گھر میں ڈیپریشن ہے-ویسے تو یہ زندگی ہے ہی امتحان گاہ, کوئ غم ,صدمہ ,جاب چھوٹ جانا ,کوئ بیماری ,کسی کا دھوکہ دے جانا ,کسی عزیز رشتہ دار کی موت ,کوئ مالی نقصان ,کسی امتحان میں ناکامی جیسے حالات سے ہم گزرتے ہیں لیکن کچھ لوگ صدمہ کو سہہ جاتے ہیں جبکہ کچھ غم کو دل پہ لگا لیتے ہیں –

اداسی و پریشانی جب طویل ہو جاۓ ,انسان خود کو بالکل اکیلا سمجھ رہا ہو ,اسے اپنے مسائل سے نکلنے کا کوئ راستہ نہ مل رہا ہو یا حالات اسکے قابو سے باہر ہو جائیں تو پھر ڈیپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہےجس کی وجہ سے انسان خوف اور مایوسی میں مبتلا ہو جاتا ہے -سونے ,جاگنے ,کھانے پینے کے معمولات خراب ہو جاتے ہیں, جسمانی کمزوری ,بے خوابی ,اپنی بے قدری ,خالی پن کا احساس ,دنیا اندھیر لگنا,کوئ نجات کا راستہ نظر نہ آنا ,

تنہائ پسند ہو جانا ,خود کو الزام دینا ,خود ترسی ,اعصابی تناؤ ,سردرد ,معدے کے مسائل ,چڑچڑاپن ,لڑنا جھگڑنا,چیزیں توڑنا …یہ سب ڈیپریشن کی علامات ہیں-تحقیق بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا میں ڈیپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد 350 ملین سے زائد ہے -ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO کی رپورٹ کے مطابق ,یہ ڈیپریشن اگر اس طرح بڑھتی رہی تو 2030 میں معذوری (Disability )کی دوسری بڑی وجہ بن جاۓ گی –

یہ بہت اہم اور حساس موضوع ہے جس پہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید کسی کے دکھ کا درماں کرسکوں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائ ,اس نے گویا ساری انسانیت کو بچا لیا !
Psychology says :
"Depression is not a sign of weakness ,it means ,you have been strong for far too long !”
ماہرین کہتے ہیں کہ جیسے جسمانی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے ,ویسے ہی ذہنی بیماریوں کا مداوا بھی کیا جاسکتا ہے -علاج کے لئے ماہر نفسیات بھی موجود ہیں اور کچھ عملی تدابیر ہیں,جن سے لائف سٹائل کو بدل کے ,سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے –
There is no health ,without mental health .

کچھ لوگو ں کے خیال میں ڈیپریشن کی بیماری ,ایمان میں کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن عملی صورتحال اس نظریے کی تائید نہیں کرتی -یہ الگ بات ہے کہ مضبوط ایمان ہمیں مایوسی سے بچاتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بڑے مضبوط ایمان والے بھی حالات کے چیلنچز کا مقابلہ کرتے کرتے کسی وقت ڈیپریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں -اس بات کو بالیقین سمجھنے کے لئے تاریخ کے ایک سنہرے دور کے اوراق پلٹتے ہیں …بہت توجہ سے دیکھئے گا …

"ایک عظیم الشان کردار کا انسان ,ایک پہاڑ پہ کھڑا یہ سوچ رہا ہے کہ وہ اس پہاڑ سے کود کے اپنی جان دے دے …!”
جانتے ہیں یہ ہستی کون ہے ؟ یہ افضل البشر ,سید الانبیا ,آقاۓ دوجہاں ہیں ..صلی اللہ علیہ وسلم !فداک امی و ابی …میں قربان جاؤں …آقا نے ایسا سوچا ؟ کیوں کہ وحئ الہی کے نزول کے بعد کچھ وقت کے لئے وحی آنا رک گئ تھی -کتب میں لکھا ہے تقریبا دو یا تین سال تک وحی الہی نازل نہ ہوئ تو کفار کو طنز و استھزا کے تیر چلانے کا بہانہ مل گیا ,انھوں نے کہنا شروع کردیا کہ (نعوذ باللہ) محمد (ص) کے رب نے اسے چھوڑ دیا ہے اور ناراض ہو گیا ہے …لیکن رب العالمین نے اپنے حبیب کو چھوڑا تو نہیں تھا -سورہ والضحی ‘نازل کردی گئ :

ترجمہ :”قسم ہے ضحی ‘ (سورج نکلنے کے وقت )کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاۓ,آپ کے رب نے نہ آپکو چھوڑا ہے ,نہ بیزار ہوا ہے اور البتہ آخرت کی زندگی بہتر ہے آپ کے لئے اس پہلی (دنیا کی زندگی )سے اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ,کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ,پھر ٹھکانہ دیا ,پھر پایا آپکو بے خبر ,پس رہنمائ کی ,پھر پایا اس نے آپکو ضرورت مند ,پس مالدار کردیا -پس نہ سختی کیجئیے گا یتیم پر ,اور نہ جھڑکئیے گا مانگنے والے کو اور جو آپ پر اپنے رب کی نعمت ہے اس کا اظہار کیجئیے گا !”

سورہ والضحی ‘ آج بھی ہمارے لئے روشنی ہے –
اب آتے ہیں ذہنی تناؤ اور ڈیپریشن کے علاج کے لئے کچھ عملی تدابیر کی طرف-یہ تدابیر ماہرین نفسیات کی بیان کردہ ہیں لیکن اگر مرض اتنا شدید ہو کہ میڈیسن کے بغیر ٹھیک نہ ہوتا ہو تو پھر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہئیے – وگرنہ یہ فرسٹ ایڈ جیسی تدابیر بھی فائدہ دے جاتی ہیں :

*ڈیپریشن میں مبتلا فرد کو تنہا نہ چھوڑیں ,اسے احساس دلائیں کہ آپ اس کے ساتھ ہیں ,اسے محبت اور نرمی سےڈیل کریں ,اس کے مسائل اور احساسات کو سنیں ,بعض اوقات صرف کسی کو سنادینے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے اور ایک کندھا مل جاۓ تو رولینے سے دماغ سے گردوغبار نکل جاتا ہے !انگلینڈ میں سرجری کے ایک اعلی ‘امتحان کے دوران جب سوال پوچھا گیا کہ صدمہ (Shock ),کی شدید کیفیت میں مریض کا سب سے پہلا علاج کیا کیا جاۓ ؟تو اس کا جواب یہ ملا
"Words of comfort”
یعنی تسلی و اطمینان کے چند الفاظ !

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی اجل کو مہلت دو (یعنی اسے امید اور حوصلہ دو )کیونکہ ایسا کرنے سے اس کو نفسیاتی حوصلہ ملے گا "-(ابن ماجہ )-

*اسے اسکی ذات کے خول اور منفی سوچوں,احساس کمتری یا صدمہ سے نکالنے کے لئے کسی حد تک اس کا ماحول تبدیل کردیں -اسے کسی پارک میں لے جائیں ,فطرت کا مشاہدہ کرنے ,دھوپ اور ہوا کو محسوس کرنے سے ,سبز گھاس پہ چلنے سے طبیعت میں تازگی آتی ہے -بات کا موضوع بھی بدل دینا چاہئیے -آسمان کے بدلتے رنگ ,پھولوں کی خوشبو ,پرندوں کی چہچہاہٹ ..یہ سب مثبت سوچ پیدا کرتے ہیں -مریض اگر کسی موضوع پر بات کرنے سے کتراۓ تو وہ بات نہ کی جاۓ ..

*چہل قدمی ,واک ,جاگنگ ,دوڑ لگانا ,ہلکی پھلکی ورزش ,تازہ ہوا میں گہرے سانس لینے کی مشق کرنا بھی ذہنی دباؤ کو نارمل کرنے میں اہم ہے –

*ایک مفید ٹپ (tip)چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ,انکے ساتھ مل کے کھیلنا ,انکی باتیں سننے سے انسان فطرت کی طرف واپس آجاتا ہے –

*غذا سے علاج کریں -جنک فوڈ ,فاسٹ فوڈ ,ایسے چائنیز کھانے جن میں اجینو موتو ڈالا گیا ہو …ہارمونز میں تبدیلی لاتے اور ڈیریشن پیدا کرتے ہیں -اس کے برعکس تازہ سبزیاں ,پھل ,دالیں ,پھلیاں او ڈرائ فروٹ دماغ اور جسم میں ایسے کیمیائ مادے پیدا کرتے ہیں جو خوش رہنے کے لئے ضروری ہیں –

*ماضی کے دکھوں اور مسقبل کے خوف سے نجات کے لئے زمانہ حال میں رہنا سیکھیں .کہا جاتا ہے کہ "جو اپنے چاۓ کے کپ کا لطف نہیں اٹھاسکتا ,وہ محل میں بھی خوش نہیں رہے گا !”

*ہر انسان کے حالات اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں لہذا اپنا موازنہ کسی کے ساتھ نہ کریں -نہ تو اپنے جج بنیں نہ کسی اور کے -والدین اپنے بچوں کو مطلوبہ رزلٹ نہ آنے پر انھیں معاف کردیا کریں کیونکہ آپکے بچے کی جان ,اس کے گریڈ سے زیادہ اہم ہے اور دوسری بات
"we cant teach a fish ,how to climb on a tree !”

*فیملی , رشتے دار ,دوست احباب بھی خوشی اور سکون کا ذریعہ بن سکتے ہیں اگر ہم انکے دکھ سکھ میں شامل ہوں اور انکی بے لوث مدد کردیا کریں -انکے ظلم و زیادتی کو معاف کرنا بھی روحانی ترقی کا ذریعہ ہے -بقول شاعر
~ یہی عادت تو ہے سعدی سکون قلب کا باعث
میں نفرت بھول جاتا ہوں ,محبت بانٹ دیتا ہوں !

*مشغلے اور تخلیقی سرگرمیاں (Activities)بھی خوشی پیدا کرتی ہیں –
*قرآن سے ڈیپریشن کا علاج کریں -سورہ رحمان کی تلاوت سے کئ امراض سے شفا ملتی ہے -مسجد اور نماز سے باطنی قوت حاصل ہوتی ہے –

*سورہ یوسف میں ہمارے لئے امیدوں کا سبق ہے …گمشدہ لوگ مل جاتے ہیں ,بچھڑے ہوۓ عزیز مل جاتے ہیں ,کھوئ ہوئ بینائ واپس آجاتی ہے ,قحط کے بعد خوشالی کا دور آسکتا ہے ,کوئ کسی کےنصیب کی بادشاہی نہیں چھین سکتا ,کوئ کسی کے کردار پہ الزام لگا کے اس کی عظمت کو گھٹا نہیں سکتا ,دشمن اپنی دشمنی سےباز آسکتے ہیں ….حالات بدل سکتے ہیں !
~ لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائ ہے !


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں