ہر وہ کتاب زندہ کتاب ہے جو ایک محدود وقت اور مخصوص نسل ہی کو متاثر نہ کرے بلکہ ہروقت میں یکساں اہمیت کی حامل رہے۔ دوسرے زندہ کتاب وہ ہے جو کوئی ایسا نظریہ چھوڑ جاۓ جس پر آنے والی نسلیں اپنی سوچ کی نمو کرتی رہیں، تیسرے اپنے پلاٹ اور موضوع کے لحاظ سے ہمہ گیر ہو یعنی موضوع خواہ مشرق کا ہو یا مغرب کا، قاری کو اس میں شمولیت اور اس کے ادراک میں مشکل نہ ہو۔
ایلکس ہیلے کی “روٹس”ہر نسل کی کتاب ہے، جو اپنے قاری کےلئےان دیکھی دنیا کے دروازےکھولتی ہے اور اسے کئی زاویوں سے متاثر کرتی ہے۔ روٹس1976میں شائع ہوئی، سات ماہ کے اندر اندر1.5ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اسے بارہا مختلف ایوارڈزکے لئےچنا گیا اور کل نو ایوارڈز سے نوازا گیا جو ایک ناول کے لئے بہت بڑی بات ہے۔
محترم جناب ستار طاہرمرحوم جن کی کتابی بصیرت پر شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا، نے اپنی کتاب ” دنیا کی سو عظیم کتابیں” کے پہلے ایڈیشن میں روٹس کو بھی شامل کیا تھا۔ انوار فاطمہ جعفری صاحبہ نے اردو کے قاری پر بہت احسان کیا اور اس شاندار کتاب کا ترجمہ کردیا۔ ترجمہ کرنے کے لئے بلاشبہ یہ ایک مشکل کتاب ہے، یہ بات ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس نے روٹس کو انگلش میں پڑھا ہو۔
بہت ساری کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کچھ باتیں دوسرے کلچر کے لئے ہضم کرنا آسان نہیں ہوتیں اور ترجمہ نگار وہاں بری طرح الجھ جاتا ہے کہ ” ٹو بی اور ناٹ ٹو بی” لیکن روٹس میں ان مقامات کو انوار صاحبہ نے بہت کمال سےپر جلائےبغیرگزارا ہے۔انہوں نے نام کا انتخاب بہت کمال کیا ھے۔
” سلاسل” جو دو معنی رکھتا ہے یعنی سلسلے اور زنجیریں ۔ اس میں افریقی غلاموں کو زنجیریں بھی پہنائی جاتی ہیں اور نسل در نسل غلام بھی رکھا جاتا ہے گویا ” روٹس” کا بامعنی ترجمہ کرنے کی بجاۓ انہوں نے ایک ایسا لفظ ڈھونڈا جو ناول کے موضوع کا حق ادا کرتا ہے۔
یہ خوبصورت ناول تاریخ اور ثقافتوں کی بہترین نمائندگی کرتا ہے، اس میں آزادی پانے،اپنا آپ تلاش کرنے،اپنی تہذیب ،زبان اور روایات کو محفوظ کرنے کی طلب پور ی شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ ناول میں زندگی سے بھرپورسترہ سالہ”کنتا”کو گیمبیاکے گاؤں سے امریکی سفید فام اغوا کرلیتےہیں۔ بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ راستے کی ناقابل بیان صعوبتوں کے بعد انہیں بذریعہ بحری جہاز امریکہ کی ریاست میری لینڈپہنچادیا جاتاہے۔
کنتا کے اندر آزادی کی خواہش اتنی شدید تھی کہ بار بار فرار کی کوشش کرتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ ہر دفعہ اسے بہت ظالمانہ مار ماری جاتی ہےاور آخری بار اس کا پاؤں کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے قید سے بھی بڑی تکلیف سے گزرناہوگا ،اور قید سے بڑی تکلیف یہ ہوتی ہے جب کسی کی اولادکواس سے چھین کرکسی دوسرے کو بیچ دیا جاۓ اور یہ سیاہ فام غلاموں کا مقدر تھا۔
خود “کنتا” کو کئی دفعہ بیچا اور خریدا جاتا ہے، اسے اپنے ماضی اور ثقافت سے عشق تھا اور جب اس کی بیٹی “کزی” پیدا ہوتی ہے تو وہ پور ی کوشش سے اسے کچھ یاد رہ جانے والے افریقی زبان کے الفاظ سکھاتاہے اور بتاتا ہے کہ وہ ڈرم بنانےکے لئے درخت کاٹ رہا تھا جب اسے اغوا کرکے امریکہ لایا گیا۔ کزی یہ کہانی اپنے بیٹے “جارج”کو سناتی ہے، جارج اپنے بچوں کو سناتا ہے اور ساتویں نسل میں یہ کہانی ایلکس اپنی نانی سے سنتا ہے ۔
ایلکس نے بہت زیادہ تحقیق اور سخت کوشش سے اٹھارہ سو ستر کا ریکارڈ تلاش کیا کیونکہ اس سے پہلے یعنی ” کنتا ” کے زمانے میں غلاموں کا کوئی اندراج اور مردم شماری امریکی ریکارڈ میں نہیں ملتی۔ غلاموں کو صرف ان کے مالکوں کے نام کے آگے تعداد کے لحاظ سے درج کیا جاتا تھا،ایلکس نے ان تھک جد و جہدکی، افریقہ تک کا سفر کیا،ان چند لفظوں کی بنیاد پر جو اس نے اپنی نانی سے سنے تھے۔
مغربی افریقہ کے اس گاؤں کو تلاش کیا اوراس کتاب کو لکھنے کے لئے دس سے زیادہ سال صرف کئے، تب کہیں جاکر یہ شاہکار تخلیق ہوا۔ ناول میں واقعات کاایسا تسلسل ہے کہ قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں لئے رکھتا ہے۔ کسی ایک بات کی بہت کھینچا تانی نظر نہیں آتی جو اکثر اس طرح کے ضخیم ناولوں میں ہوجاتی ہے خاص کر جب پلاٹ مرکب نہ ہو۔
انوار فاطمہ کا ترجمہ بہت خوبصورت ہے، تھوڑی بہت اردو پڑھنے والا بھی اس رواں اور سلیس ترجمے سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ ناول پڑھنے والے کو افریقہ کے گائوں سےامریکہ کی مختلف ریاستوں میں لے جاتاہے اور جیسے ہم ایک سنسنی خیز فلم میں داخل ہوجاتے ہیں اور قدم قدم پر دل دھڑکتا ہے اسی طرح قاری پوری طرح سے اس ناول میں داخل ہوجاتا ہےاور غیر محسوس طریقے سے افریقی غلاموں کی ہر نسل کے ساتھ سفر میں شامل رھتا ھے،اور ناول ختم ہونے کے بعد بھی ایک عرصہ تک اس کے زیر اثر رہتا ہے۔
اس میں قدیم افریقی گاؤں کی جو تصویر کشی ہے وہ بہت مہذب اور منظم ہے،صدیوں پہلے وہ لوگ ایک معاشی نظام اور معاشرتی اصول رکھتے تھے۔ امریکہ میں فارمنگ کا کلچر،غلاموں کی خریدو فروخت،کالے لوگوں کا استحصال اور گورے امریکیوں کی خود پسندی کےبیان کے علاوہ مرغ بانی اور مرغ کی لڑائی،اسکی تیاری اور مہارت کی فنی باریکیاں بیان کی گئی ہیں۔ انسانی رشتے،جذبات اور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت کی اہمیت،اس کی تلاش اور بچاؤکی کوشش اس ناول کی جان ہے۔