نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے اس کے اسپورٹس ڈریس کی سیاہی زیادہ ہوتی یا نئی ٹریڈ مل کی چمکدار بیلٹ۔
گردن سے جوتوں تک بس سیاہ رنگ ہوتا اور اس کے رواں پیر،سنہرے رنگے بالوں کی پونی ٹیل متحرک جسم کے ساتھ ہلتی تو بےاختیار پونی یاد ضرور آتی اور لبوں کو مسکراہٹ چھو جاتی۔
میں نے اسے گھنٹوں ٹریڈ مل کرتے پایا تھا۔ خود میرے پاس ایک گھنٹے سے زیادہ وقت جم کے لیے کبھی نہ ہوتا… اور وہ کئ گھنٹوں سے کم لگاتی ہی نہ تھی۔ یہ سب مجھے خود اس سے ہی پتہ چلا کہ صبح دس سے دوپہر ڈیڑھ تک وہ اس در و دیوار میں مصروف رہتی ہے، جہاں جسمانی گھسائ کے سوا کچھ بھلائی نہ تھی۔
نہایت دوستانہ انداز کے ساتھ ہر ایک کو سلام اور ہلکی پھلکی گفتگو اس کا خاصہ ہوتی… لیکن جم میں موجود تین ٹریڈ مل میں سے ایک سے اترنا اس سنہری پونی ٹیل کا اخلاقی منشور نہ تھا۔
میں نے کئ بار نگران کو اشارتا اس کے اس” قبضہ گیر” مزاج پر ٹوکتے دیکھا، کئ بار "درخواست” بھی کرتے پایا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات…
اس کے فٹ سراپے، مغربی لباس اور پارکنگ میں کھڑی شاندار گاڑی سے مرعوب ہونے والوں کی بھی لمبی فہرست تھی جو اس نا انصافی پر باچھیں کھلاۓ مطمئن تھے۔
یہاں تک رہتا تو بھی گزارا ہوجاتا میرا، لیکن کوفت سوا اس وقت ہونے لگی جب ان محترمہ کے سرکل کے لوگ اپنے مخصوص اوقات میں آتے قبضہ گیری انداز فخریہ یہ کہہ کر اپناتے کہ "ہم تو بھئ بہت دیر تک دوڑنے والے لوگ ہیں” پہلا اپنا قبضہ ختم کرکے اپنے ساتھی کو جگہ دیتا.
گویا باقی لوگ سنڈریلا بنتے دیکھیں اور بھول جائیں کہ کبھی وہ بھی "دوڑ” سکین گے یا پھر سو جائیں کہ کبھی تو "قسمت” کھلے گی..
میں نے اس صورتحال کے حساب سے سویرے کا وقت رکھ لیا تو اندازہ ہوا کہ قبضہ کی یہ بیماری نۓ آنے والوں کو بھی لگ چکی ہے… درخواست کی کہ” اب اتر جائیں، سب نے یکساں رقم دی ہے، فیض بھی یکساں ہونا چاہیے”
اس کے بعد ہم نے خوش اخلاقی کے سارے پرت اترتے دیکھے، آواز اٹھانے پر ہنگامہ برپا ہوتے دیکھا، عدم برداشت کا الزام لگا، دھمکی ملی "اچھا نہیں ہوگا اب میرا نام لیا تو” اور سننے والوں کو ساکن دیکھا جو یہ سب نا انصافی سہہ کر بھی "جیۓ!!” کے تمغے ان تمام حق تلفی کرنے والوں کو ان سے ہنس بول کر پہنا رہے تھے…
مجھے اس دن اپنی قوم کی ذہنیت کا اندازہ وضاحت سے ہوا….یہ نا انصافی پر آواز اٹھانا ہی نہیں چاہتی… اور جو اٹھاتا ہے یہ اس کا ساتھ بھی نہیں دیتی.
یہ خوش اخلاقی تلے گھمنڈ کو سلام کرتی ہے اورگھمنڈ بھی اس وقت تک گل خندہ رہتے ہیں جب تک ان کو اصولوں کی یاد دہانی نہ کرائ جاۓ.
طوفان آیا، اخلاقی ضابطے کی پاپندی کی نوٹس چسپاں ہوئے، تیس منٹ فی فرد ٹریڈ مل کے لیے مختص ہوئے، مگر جو جہاں تھا وہ وہیں رہا.
آؤ نعرہ لگاؤ جیۓ!!!
بس جیۓ!!