بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقاب یا شاہین یہ وہ پرندہ ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے اور یہ پرندہ جب شکار کے لیے نکلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے پرندے ڈر کے مارے چھپ جاتے ہیں اور کچھ پرندے چھپنے کے باوجود بھی عقاب کی تیز نظر کا شکار ہو کرمارے جاتے ہیں۔
پرندوں کی دنیا میں عقاب کو پرندوں کا شیر تسلیم کیا جاتا ہے۔ عقاب بڑا خوددار پرندہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس خوددار پرندے کی قدروقیمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عرب امارات کے شیخ عقابوں کا شکار کھیلنے پاکستان آتے ہیں۔ اعلی نسل کے عقابوں کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بعض علاقے بھی عقابوں پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔
اردو ادب میں طوطوں کے متعلق کئی محاورے موجود ہیں۔ مثلا طوطاچشم، لحاظ نہ کرنے والے کو طوطا چشم کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بچے گھروں میں بڑی خوشی سے طوطے پالتے ہیں۔ طوطا ایک خوبصورت پرندہ ہے، جس کی چونچ سرخ اور اس کے پر اور دم سبز چمکیلی ہوتی ہے ۔
کونج ایک مسافر اور سیلانی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ زیادہ تر وسطی ایشیا کے سرد ممالک میں پایا جاتا ہے۔ جب ان ممالک میں برف جم جاتی ہے اور سردی انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو کونجوں کی ڈاریں پاکستان کا رخ کرتی ہیں۔ یہ پرندے قطار بنا کر سفر کرتے ہیں۔ موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی یہ پرندے سرد علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں ۔
چکور پنجاب کا رومانی پرندہ ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ چاند سے محبت کرتا ہے۔ جب چاند کی چود ھویں ہوتی ہے تو چکور چاند تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاند تک نہیں پہنچ پاتا اور نڈھال ہو کر زمین پر گر جاتا ہے لیکن یہ بات صرف کہانی کی حد تک ہے اصل میں یہ عام پرندوں کی طرح ہی زندگی گزارتا ہے۔
کوئل موسم برسات میں ہی کوکتی ہے، جب ساون کی رت آتی ہے تو کوئل کی خوبصورت آواز فضاوں میں امرت گھولتی ہے۔ مور ایک حوبصورت پرندہ ہے۔ دنیا کا کوئی چڑیا گھر مور کے بغیر مکمل نہیں۔ مور صرف چڑیا گھر میں ہی نہیں ہوتا بلکہ اب لوگ گھر میں بھی پالتے ہیں۔
بگلا ایک معروف پرندہ ہے، یہ شکار کے لیے سارا سارا دن پانی میں کھڑا رہتا ہے۔ یہ پرندہ آبی کیڑے مکوڑے کھاتا ہے۔ بٹیر چڑیا کی طرح چھوٹاپرندہ ہے جو کیڑے مکوڑوں کی تلاش میں گروہوں کی شکل میں کھیتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انھیں بھی پا لا جاتا ہے اور کھایابھی جاتا ہے۔
دنیا کے قدیم اور موجودہ معاشرے میں ایسے پرندے بھی موجود ہیں جن سے لوگ نفرت بھی کرتے ہیں مثلا الو، اس پرندے کو منحوس خیال کیا جاتا ہے اور یہ جادو ٹونے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ اسی الو کو یورپ میں دانش مند خیال کیا جاتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ پرندوں کی انسانوں سے رفاقت صدیوں پرانی ہے۔ انسان پرندوں سے پیار کرتا ہے تو پرندے انسان سے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ پیار اس سے بھی زیادہ مضبوط بن جائے، یہ ایک دوسرے کے پاس بے خوف و خطر چلتے پھرتے رہیں۔ ایسا ہو جائے تو یہ ایک انوکھی دنیا ہوگی۔