نصرت یوسف……..
قطار در قطار بنے دریچوں سے ہم کلام ہوتی جامن اور نیم کے درخت کی شاخیں آج بالکل ساکت تھیں، لگتا تھا کسی گہری سوچ میں ہیں، ایسی سوچ جس نے ان کی آغوش میں چہچہاتے پرندوں سے بھی ان کو بے نیاز کردیا ہے.
ورنہ سبز، اور سبز سے زرد ہوتی نیم کی نمولیوں اور کچا پکا جامن پھل زمین کی مٹی میں پٹا پٹ پرندوں کی چونچیں گرا رہی تھیں، ایسا وہ کرتے تو نہ تھے لیکن آج کوئ سرزنش نہ تھی تو خوب فساد برپا تھا.
دریچوں سے آتی سورج کی سکڑی کرنوں نے فضا میں موجود مٹی کے ذرات کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا، اس نے ایسے ذرات کو نگاہ بھر دیکھا اور پھر بے اختیار ہاتھ میں تھامی کتاب کے سرورق پر نگاہ ڈالی،جو اس کے بیٹے نے دوسرے شہر سے ماں کے لیے بھیجی تھی، وہاں بھی کرنیں بنی تھیں، کرنوں کا ماخذ چھ حرفی لفظ “ترجیحات”تھا۔ کتاب کی کرنوں میں کہیں بھی اچھلتے کودتے ذرات نہ تھے، شاید لکھنے والے کے ارد گرد کرنیں اتنی وافر ہوں گی کہ ان پر پھسلتے ننھے ذرے اپنا آپ چھپا گۓ۔
اس نے کتاب دھیرے سے سائڈ میں رکھ دی، کسی درخت پر کوئ پرندہ بولا تھا، اس کا دل چاہا وہ بھی اتنا ہی سریلا بولے، وہ بھی ذروں جیسا ناچے جھومے، وہ بھی ان درختوں کی مانند سکوت سے ڈھک جاۓ، سکوت تو اس کے وجود کا حصہ برسوں سے تھا لیکن ادھورا تھا اور ادھوری کوئی بھی چیز ہو گہن لگی ہوتی ہے ۔ اسے لگتا اسے بھی گہن لگ چکا ہے۔ نہ جانے کب لگا۔
چالیس برس پہلے وہ سہاگن بنی تھی، سہاگن اور گہن کا بھلا کیا جوڑ! رب تو اسے”مکمل” کرنا کہتا ہے، ایمان سے جوڑتا ہے، اسے تو گہن سے کوئی نسبت نہ ہونی چاہیے لیکن اپنے آپ کو بارہا سرزنش کے باوجود اسے لگتا اسے گہن لگنامدت قبل سرخ جوڑے کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ اس کے کسی رعنائ خیال تک اس کے سہاگ کا فہم نہ تھا، اس کا سانس رکنے سا لگتا،اسے لگتا وہ درخت کے تنے کی پرانی کھال مانند جھڑتی جا رہی ہے۔اچھی سہاگنوں کی مانند وہ بنا شکوہ کیے جھڑتی چلی گئ۔
چالیس برس بعد دریچوں کے ساتھ جڑی آرام کرسی پر بیٹھ کر آج وہ نہ جانے گہن اور سہاگن کا فلسفہ کیوں سوچنے بیٹھ گئ، سامنے کمرے میں اس کا سہاگ عمر کی تھکان کے ساتھ خاموش لیٹا تھا. شاید وہ بھی گہنا گیا تھا۔