عابد حسین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نومبر 2017 میں فیض آباد پر دیے گئے دھرنے کے خلاف از خود نوٹس کے فیصلے میں جہاں ایک جانب سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہیں دوسری جانب عسکری حکام پر بالخصوص کافی تنقید کی گئی۔
جسٹس فائز عیسی اور جسٹس مشیر عالم پر مبنی دو رکنی بینچ نے گذشتہ سال 22 نومبر کو یہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چھ فروری کو پیش کیے جانے والا تفصیلی فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے جس میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان، ان کے دھرنے کے پس منظر، الیکشن کمیشن آف پاکستان، میڈیا کے نگران ادارے پیمرا، سینسرشپ اور خفیہ اداروں پر مبنی کئی مختلف موضوعات پر عدالت نے روشنی ڈالی۔
اس فیصلے کا خاص نکتہ خفیہ اداروں کے بارے میں تھا جہاں ان کی کارکردگی کو آڑے ہاتھ لیا گیا۔
پاکستان کی سب سے اہم خفیہ سروس، آئی ایس آئی کے بارے میں عدالت نے کہا کہ ‘عام تاثر ہے کہ آئی ایس آئی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو کسی خفیہ ادارے کے دائرہ کار میں نہیں آتا، جیسے سیاست، اور ایسے اقدامات نہیں لیے گئے جس سے یہ آئی ایس آئی کا سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر زائل ہو سکے۔’
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا ہے کہ’تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے’۔
اس کے علاوہ عدالتی فیصلے نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے بارے میں بھی لکھا کہ وہ سیاسی امور پر تبصرے کرتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملک کے عسکری اداروں اور خفیہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا تاثر نہ دیں کہ ان کی کسی سیاسی جماعت سے ہمدردی ہے اور ایسا کرنے والا کوئی بھی شخص سیاسی معاملات میں ملوث ہوتا ہے یا میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عسکری اداروں کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے کے آخر میں دی گئی تجاویز میں عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔
اس عدالتی تجویز پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے جب دفاعی امور کے ماہر اور صحافی اعجاز حیدر سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عمومی طور پر عسکری اداروں کے خلاف انضباطی کاروائی فوجی ایکٹ کے تحت کی جاتی ہے لیکن ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہوا جس کے بعد ان پر پاکستان کے فوجداری قوانین کے تحت مقدمے چلے۔
‘لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ عسکری سربراہان فیض آباد واقعے میں ملوث کسی اہلکار کے خلاف کاروائی کریں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اہلکار سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاملات میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف قانون کی روشنی میں کاروائی کریں۔’
اس سوال پر کہ عدالتی تجویز کا تعین کرنے کے لیے کون تفتیش کرے گا، اعجاز حیدر نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو اس بات کی آگہی ہے کہ فوجی قوانین سیاست مداخلت کے بارے میں بہت واضح ہیں اور فیض آباد مقدمے کے فیصلے کی مدد سے انھوں نے اسی نکتے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
‘دوسری بات یہ ہے کہ ایک بار فوج کے حلف کی پاسداری کا معاملہ طے ہو جائے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے تو اگر مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش آتا ہے تو اس صورت میں فوجی حکام سے وضاحت طلب کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی بات کو دہراتا ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں۔’
یہاں پر یہ بتانا ضروری ہوگا کہ 2014 میں سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے ایک مقدمے سماعت کی تھی جس میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سول کورٹس میں فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
اسی مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے قانونی ماہر اور لاہور ہائ کورٹ کے وکیل رضا علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ کی موجودگی میں فیض آباد دھرنے پر دیے جانے والے فیصلے کا دائرہ کار کیا ہے؟
‘وفاقی حکومت کے پاس یہ حق ہے کہ وہ عسکری حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں لیکن اگر ماضی کے مقدموں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سول عدالتوں کا دائرہ کار فوجی اہلکاروں پر لاگو نہیں ہوتا۔ دوسری جانب عسکری حکام یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے احکامات پورے کر دیے لیے اور وہ اس کی تفصیلات دینے کے پابند نہیں ہیں۔‘
(بی بی سی)