وینزویلا میں حالیہ سیاسی واقعات ملک کو تباہ کن تنازع کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ فوج کے حمایت یافتہ وینزویلا کے صدر نکولس مدورو اور ازخود ملک کے صدر ہونے کے دعویدار اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو میں شدید تقسیم نظر آرہی ہے۔ اس تقسیم کی وجوہات اندرونی حالات بھی ہیں لیکن انہیں بڑھاوا دینے میں امریکا کا ہاتھ زیادہ ہے، جس نے خفیہ منصوبے اور معاہدے کے تحت اپوزیشن لیڈر کو وینزویلا کا صدر تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
امریکا، کینیڈا اور لاطینی امریکا کے کئی ممالک اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو کو وینزویلا کا صدر مان چکے ہیں جبکہ روس، چین، ترکی اور ایران نکولس مدورو کو ہی آئینی صدر تسلیم کرتے ہیں۔
یہ حالات وینزویلا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ صدر نکولس مدورو اور اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو میں سے کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں، لہٰذا اگر ان حالات میں نئے انتخابات بھی ہوجائیں تب بھی حالات معمول پر آنے کے بجائے شاید مزید بگاڑ اور تقسیم کی طرف چلے جائیں۔
امریکا کی طرف سے اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو کو صدر ماننے کا اعلان ایک طرح سے اشتعال انگیزی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا لاطینی امریکا کے ملکوں میں کامیاب مداخلت کے ذریعے حکومتیں بدلنے کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ واشنگٹن کی مداخلت سے لاطینی امریکا کے ممالک میں گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں درجنوں حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں اور ان حکومتوں کی تبدیلی کے لیے امریکا نے فوجی مداخلت سے بھی گریز نہیں کیا۔ واشنگٹن لاطینی امریکا میں کبھی اپنے کاروباری مفادات کے لیے حکومتیں تبدیل کرتا ہے تو کبھی بائیں بازو کی حکومتوں کا تختہ الٹ کر دائیں بازو کے سیاستدانوں کو آگے لاتا ہے۔
اس بار پھر امریکا نے وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خاموشی سے منصوبہ بنایا ہے۔ اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو نے نکولس مدورو کے دوسری مدت صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے وسط دسمبر میں واشنگٹن، کولمبیا اور برازیل کا خفیہ دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران جوآن گوائیڈو نے تینوں ملکوں کو صدارتی حلف سے پہلے اپوزیشن کی حکمت عملی سے آگاہ کیا کہ کس طرح اپوزیشن 10 جنوری کو حلف سے پہلے مظاہرے کرے گی۔ اس دوران بین الاقوامی برادری کو نکولس مدورو کے صدارتی الیکشن کی مذمت پر تیار کیا گیا اور ان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو نے وینزویلا سے باہر جانے کے لیے کولمبیا بارڈر کا انتخاب کیا۔ اس دورے کے دوران جوآن گوائیڈو نے جلاوطن اپوزیشن لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وینزویلا کی اپوزیشن بھی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے اور اس کا اتحاد لیڈروں کی ذاتی انا کی وجہ سے ممکن نہیں لیکن اپوزیشن کو اکٹھا کرنے میں بھی امریکا نے مدد دی، تاہم اب بھی کئی اپوزیشن دھڑے جوآن گوائیڈو کے ساتھ نہیں۔ ایک اہم بات یہ کہ اپوزیشن کے مظاہروں کے لیے وینزویلا کے بیرون ملک مقیم شہریوں کو بھی واپس بھجوایا گیا ہے۔
صدر نکولس مدورو کی پہلی مدت کے 5 سالوں کے دوران اپوزیشن کی نااتفاقی کسی بھی بڑے مظاہرے میں رکاوٹ رہی لیکن اس بار لاطینی امریکا کے ملکوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی مدد سے اپوزیشن کا اتحاد بھی ممکن ہوا اور اپوزیشن لیڈروں نے احتجاج کی ہمت پکڑی۔ وینزویلا کی اپوزیشن کو حوصلہ صدر ٹرمپ کے بیان سے ملا جب انہوں نے اگست 2017ء میں اپنے نیو جرسی گالف کلب کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر وینزویلا میں فوجی مداخلت کو بھی ایک آپشن قرار دیا۔
اس بیان کے بعد صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں بھی وینزویلا کی حکومت کو خوب لتاڑا۔ صدر ٹرمپ کے ان بیانات سے لاطینی امریکا کے ان ملکوں کو بھی حوصلہ ملا جو ایک عرصے سے وینزویلا کے بحران سے نمٹنا چاہتے تھے۔
جنوری کے پہلے ہفتے میں نکولس مدورو کے صدارتی حلف سے پہلے منصوبے کے عین مطابق لاطینی امریکا کے ملکوں کے گروپ لیما (Lima) نے نکولس مدورو کو صدر نہ ماننے کا اعلان کیا۔ کینیڈا جو لیما گروپ کا حصہ ہے، اس کی وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے صدارتی حلف سے ایک دن پہلے جوآن گوائیڈو کو فون کرکے حمایت کا یقین دلایا۔ جوآن گوائیڈو کی طرف سے ملک کا آئینی صدر ہونے کے اعلان کے بعد صدر ٹرمپ نے ایلیٹ ابرامز کو وینزویلا کے لیے نمائندہ خصوصی مقرر کردیا ہے۔ ایلیٹ ابرامز کی تعیناتی نے امریکی مداخلت کے الزامات کو تقویت دی ہے۔ یاد رہے کہ ایلیٹ ابرامز نے نکاراگوا میں باغیوں کو مسلح کرنے کی حمایت کی تھی اور باغیوں کے مسلح کرنے سے متعلق کانگریس سے معلومات چھپانے پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ بعد میں ایلیٹ ابرامز کو صدارتی معافی مل گئی تھی۔
دوسری طرف اگرچہ وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کو وہاں کی فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن امریکا نے تیل کی ادائیگیاں جوآن گوائیڈو کو کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بینک آف انگلینڈ نے صدر نکولس مدورو کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا سونا نکلوانے سے روک دیا ہے۔ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور عوام مہنگائی سے اس قدر پسے ہوئے ہیں کہ خوراک کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے۔ ان حالات میں اگر جوآن گوائیڈو اقتدار سنبھال بھی لیتے ہیں تو وینزویلا خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
وینزویلا میں امریکی مداخلت کی بڑی وجہ وہاں روسی فوجی اڈے کا منصوبہ ہے۔ روس نے پچھلے سال دسمبر میں وینزویلا میں فوجی اڈے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ روس کا یہ فوجی اڈا کاراکس سے 125 میل دور لا اورکیلا (La Orchila) جزیرے پر قائم کیا جانا ہے۔ 1962ء کے بعد پہلی بار روس کو لاطینی امریکا میں یہ فوجی اڈا صدر نکولس مدورو کی حکومت نے دیا۔ 1962ء میں روس نے کیوبا میں میزائل اڈا بنایا تھا۔ اس اڈے پر روس اپنے 2 ایٹمی صلاحیت والے جنگی طیارے تعینات کرنا چاہتا ہے۔ روس نے امریکا کو وینزویلا میں فوجی مداخلت سے باز رہنے کا انتباہ بھی جاری کیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک نکولس مدورو کی حکومت کو اپنی فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن واشنگٹن میں تعینات فوجی اتاشی نے فوج سے جوآن گوائیڈو کی حمایت کا اعلان کرنے اور ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے۔
وینزویلا کی صورت حال کا سیاسی حل تلاش کیا جانا ضروری ہے ورنہ امریکا کی طرف سے جمہوریت ایکسپورٹ کرنے کی اس تازہ کوشش سے ملک خانہ جنگی کی طرف بھی جاسکتا ہے۔
اس بحران کا ایک حل پولینڈ کے 1989ء کے حل جیسا بھی ہوسکتا ہے۔ پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کے تحت پارلیمانی الیکشن کرائے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن کو اکثریت ملی جبکہ ایوان زیریں کمیونسٹ حکومت کے ہاتھ آیا۔ اپوزیشن نے کمیونسٹ حکمرانوں کو پیشکش کی کہ صدر تمہارا اور وزیرِاعظم ہمارا۔ اس ڈیل کے تحت کمیونسٹ پارٹی کو صدر کے علاوہ داخلہ اور دفاع کی وزارتیں مل گئیں اور اپوزیشن نے وزارتِ عظمیٰ لے کر کابینہ تشکیل دے دی۔ اس طرح پولینڈ دوبارہ خوشحالی اور استحکام کی جانب چل پڑا۔
پولینڈ کے اس معاہدے کو روس کے صدر گورباچوف، یورپی یونین اور پوپ جان پال دوم کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس معاہدے کو دونوں فریقوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ عمل کیا اور کمیونسٹ صدر نے اقتصادی پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہیں کی اور پولینڈ میں اقتصادی اصلاحات نے ملک کو دوبارہ یورپی برادری میں باعزت مقام دلادیا۔
صدر نکولس مدورو کی اقتصادی پالیسیوں سے تو جو نقصان ہوا سو ہوا لیکن معاشی تباہی میں امریکی پابندیوں نے بھی بڑا حصہ ڈالا۔ اگر صدر مدورو اور اپوزیشن میں معاہدہ ہوجائے تو تیل، گیس اور سونے کے ذخائر سے مالا مال وینزویلا ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔