بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
“پاگان والیو نام جپو مولا نام،مولا نام”
مردانہ آواز کے ساتھ ایک زنانہ آواز بھی ہوتی، کچھ دنوں سے روز وہ یہ سن رہی تھی۔ حیرت بھی تھی کہ اتنی صبح یہ سن کر اسے کوفت بھی نہیں ہوتی تھی۔ پھر ایسا ہونے لگا کبهی کوئی نعت، کبھی کوئی لوک گیت روز ہی اس کی سماعت میں جیسے رس گھولتا۔
پھرکچھ دنوں سے جیسے یہ سب ختم ہوگیا۔
” آج کتنے دن ہوگئے امی! ان کی آواز نہیں آئی”
“کس کی بات کررہی ہو؟”امی نے کچھ حیران ہو کے پوچھا۔
” امی! وہی جو روز صبح کچھ نہ کچھ گاتے ہوئے گزرتے ہیں”۔
ہاں اب جیسے ان کی آواز کی عادت سی ہوگئی ہے، آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دے دیتی تھی، خوش ہو کے چلے جاتے تھے۔
“آپ نے انھیں دیکھا امی ؟”
“ہاں! باپ بیٹی ہیں، خانہ بدوش مانگنے نکلتے ہیں۔ بڑی پیاری لڑکی ہے” امی نے بات کو آگے بڑھایا۔
” اور امی! اس کی آواز بھی تو بہت اچھی ہے نا”
“ہاں! چلو اب تم آج میری تھوڑی ہیلپ کرو، تمھاری پھوپھو کے گھر آج میلاد پہ جاناہے”
میرب کافی دیر سوچتی رہی، نہ جانے کیا ہوا ان لوگوں کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہی اللہ کیا کرو، دکھ نا کسی کو دیا کرو
جو۔ دنیا کا مالک ہے نام اسی کا لیا کرو
پھر آواز بند ہو گئی شاید کسی نے کچھ دینے کے لیے انھیں آواز دی تھی، وہ کافی دیر اس آواز کے سحر میں کھوئی رہی ۔ رات کو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح انھیں دیکھے گی ضرور۔
صبح جیسے ہی میرب کے کانوں میں آواز آئی، وہ جلدی سے گیٹ کی طرف گئی۔ امی پہلے ہی وہاں تھیں۔ اس کو شاپر پکڑا رہی تھیں۔ دیکھو میرب! آج کافی دنوں کے بعد آئی ہے، اس کے بابا کو بہت بخار تھا۔ اس نے دیکھا مناسب شکل کی چودہ یا پندرہ سال کی ‘اجو’ اسے بہت اچھی لگی۔
امی نے بتایا اتوار کو میلاد کا پروگرام ہے، تم بھی اپنی سہیلیوں کو بلالینا۔ یہ سنتے ہی اس کے ذہن میں انوکھی سی خواہش جاگی۔ پتہ نہیں،امی مانیں گی بھی یا نہیں۔ بہت دیر سوچتی رہی بالا آخر اس نے ہمت کر ہی لی۔
“امی ایک بات کہوں مانیں گی”
“بولو بیٹا! کیا کہنا ہے” امی نے میرب کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” امی! میں چاہ رہی ہوں کہ ہم ‘اجو’ کو بھی بلائیں۔ امی! کتنی اچھی آواز ہے نا اس کی، پلیز! امی میرا بہت دل کررہا ہے”
“اچھا کل ان سے بات کرتی ہوں”۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولیں۔
میرب کے لیے صبح کا انتظار بہت مشکل تھا، صبح ہوئی اُن باپ بیٹی سے بات بھی ہوئی۔ اس کا باپ خوشی سے ہاتھ جوڑنے لگا
“باجی! میلاد میں میری بیٹی نعت پڑھے،اس سے زیادہ میری کیا خوش قسمتی ہوگی۔ باجی! میں ‘اجو’ کو لے کر وقت پہ آ جاؤں گا”
پھر امی نے میرب کا سوٹ دیا اور اجو کو سمجھایا کہ صاف ستھری ہو کے آئے۔
آج اتوار تھا،بڑی تیاری تھی مہمان آ چکے تھے اور اجو بھی۔ جب اجو کی باری آئی تو سننے والے حیران رہ گئے۔ مہمانوں کی فرمائش تھی کہ اجو اور بھی نعتیں سنائے۔
سب کو اجو کی آواز اور انداز بہت پسند آیا ۔ قسمت اجو پہ مہربان ہو گئی۔ اب جب بھی محلے میں میلاد ہوتا تو اجو کو ضرور بلایا جاتا۔ اب ایسا بھی ہونے لگا کہ میلاد میں آئی مہمان خواتین اجو کو اپنے گھر بلانے لگیں۔ اجو کی ڈیمانڈ بہت بہت بڑھتی جارہی تھی۔یوں ان کے ما لی حالات بھی بہتر ہو گئے۔ اب محلے میں ان کا آنا بھی بہت کم ہو گیا،قسمت نے مزید یاوری کی۔اجو کی آواز کے چرچے ‘فاروق سارنگ’ تک بھی پہنچ گئے جس کا اپنا میوزک سٹوڈیو تھا۔اجو کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔
اب وہ اچھی گلوکارہ ہے، گلی گلی گھوم کر گانے والی آج آرام دہ زندگی گزار رہی ہے، اب وہ گلی گلی نہیں پھرتی، جہاں جاناہوتا ہے وہ اپنی گاڑی میں جاتی ہے لیکن اجو جو اب ‘اجو’ نہیں ‘زیبی’ ہے کبهی کبهار میرب کے گھر ضرور آتی ہے کیوں کہ وہ احسان فراموش نہیں۔
2 پر “احسان شناس” جوابات
بہت عمدہ تحریر ۔
بہت عمدہ تحریر