خلیل-احمد-تھند، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی

سقوط غزہ، عالمی امن کے لیے خطرہ

·

سقوط غزہ اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ صیہونیوں نے جنگی اصولوں کا لحاظ کرنے کی بجائے  عام فلسطینی شہریوں کا مکمل صفایا کرنے اور بچ جانے والوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

ہم اپنی تحریروں میں متعدد دفعہ اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں حماس کے اخلاص پر شک نہیں ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی حکمت عملی صیہونیوں کے منصوبے کی تکمیل کا باعث بن رہی ہے۔ ممکن ہے ان کی صفوں میں کچھ ایسے لوگ موجود ہوں جو انہیں اس سمت لے گئے ہوں لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ طویل عرصے سے مسلمانوں میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفقود چلی آرہی ہے۔

ہماری نظر میں ہر گولی کا جواب گولی سے دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ موقع محل کے مطابق جنگی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ صرف فلسطین ہی نہیں پوری امت مسلمہ میں درست اپروچ اور حکمت عملی کا فقدان ہے۔ ہر جگہ عقل و دانش پر جنون ، جذباتیت اور مرنے مارنے کے دعوے اور نعرے غالب آ چکے ہیں ۔

مسلم سماج غیر منظم ، غیر تربیت یافتہ بلکہ غیر تہذیب یافتہ ، علم و ٹیکنالوجی اور جدید تحقیق سے کوسوں دور ہے جبکہ لیڈر شپ بدکردار ، غیروں کی کاسہ لیس ، مفاد پرست یا پھر مخلص مگر غیر دانشمند اور جنونی واقع ہوئی ہے۔ ان دونوں اقسام میں عام مسلم معاشرے مسلسل پس رہے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں اقسام ہی دشمن کو مطلوب و موافق ہیں۔ غداروں کا کردار تو واضح ہے لیکن مخلص بھی کم یا کج فہمی کی وجہ سے دشمن کی گراؤنڈ میں ہی کھیل رہے ہیں ۔

فلسطین کے مسئلے کو آٹھ دہائیاں گزر رہی ہیں۔ صیہونیوں نے دنیا بھر سے اپنی قوم کو سرزمین فلسطین میں جمع کیا اور یہ کام اندھیرے میں نہیں ہوا۔ خطے کی مسلم ریاستوں کے خود غرض اور خلافت کے غدار شاہی خاندانوں نے اپنی بادشاہتوں کے لئے اسرائیل کے قیام کی سہولت کاری کی۔ اہل فلسطین دھڑا دھڑ منہ مانگی قیمت پر اپنی زمینیں صیہونیوں کے ہاتھوں بیچتے رہے۔ طاقت کا توازن بگڑتا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ صیہونیوں نے اپنی ریاست کا مطالبہ رکھ دیا جسے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق قبول کرلیا گیا ۔

دنیا بھر سے جہازوں میں بھر بھر کر لائے گئے یہودیوں نے نہ صرف منظم معاشرت اور منظم ریاست کی بنیاد رکھی بلکہ رفتہ رفتہ اسے دنیا کی بڑی قوت بھی بنا دیا۔ ان کے برعکس زمین کے نسل در نسل وارث  فلسطینی خود کو منظم کر سکے نہ ہی اپنی ریاست کو ریاست بنا سکے۔ یہی وہ فرق ہے جس نے صیہونیوں کے مقابل انہیں مغلوب، مقہور اور مجبور بنا کر رکھ دیا ۔ آج دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔

حماس سے پہلے یاسر عرفات کی غیر مسلح تحریک انتفاضہ بڑی مزاحمتی قوت تھی۔ اسی دور میں روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ افغان جنگ نے دنیا بھر سے ایسے تمام افراد کو پرفارم کرنے کا موقع فراہم کیا جو مسلمانوں کی نجات صرف عسکریت میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جہاد کی صرف ایک ہی شکل قتال ہے۔ افغانستان سے دنیا کی سپر پاور روس کی پسپائی نے اس ذہنیت کو مزید حوصلہ فراہم کیا حالانکہ اس کی پشت پر امریکا اور اس کے ہمنواؤں کی بھر پور قوت موجود تھی ۔

افغانیوں کی کامیابی کی وجہ سے کشمیر اور فلسطین میں پرامن مزاحمتی تحریکوں کی جگہ عسکری تحریکوں نے لے لی۔ آج اگر دونوں خطوں میں ہونے والے نقصانات کی بیلنس شیٹ بنا کر دیکھا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ حالات واقعات کے فرق کے باوجود افغان آپشن اختیار کرنے سے اہل فلسطین و کشمیر نے کس قدر نقصان اٹھایا ہے 

دونوں خطوں کی صورت انتہائی تکلیف دہ انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسلامی فقہ کا عام اصول ہے کہ حالات کے تغیر سے احکامات کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ غلبہ اسلام کے دعویدار اپنی درسگاہوں میں اس اصول کے رٹے لگوانے کے باوجود اس کی حکمت تک نہ پہنچ سکے ۔

ہم نے فلسطین اور اسرائیل کی قوت کا جو عمومی تقابل بیان ہے اسے ذہن میں رکھ کر دیکھا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ جب آپ مقابلے کے کسی درجے میں بھی نہ آتے ہوں تو عسکری حکمت عملی اختیار کرنا تباہی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی پرامن مزاحمت پر بمباری کرنا اخلاقی طور پر ممکن نہیں ہوتا جبکہ عسکریت کے مقابل عسکریت کو کوئی روک نہیں سکتا ۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں دشمن کی ضرورت بھی عسکریت ہی تھی جسے حماس کے جہادیوں نے پورا کردیا۔ گویا مخلص افراد کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی دشمن کی سہولت کاری اور منصوبوں کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی ہے۔

سقوط غزہ کے بعد اہم پہلو یہ ہے کہ بے دخل کئے گئے فلسطینوں کو جن عرب ریاستوں میں بسایا جائے گا کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کی طرف سے اسرائیل کے خلاف خفیہ سرگرمیوں کا جواز بنا کر ڈرون اور سرجیکل اٹیک کئے جائیں گے جو آہستہ آہستہ باقاعدہ حملوں کی شکل اختیار کرلیں گے اور گریٹر اسرائیل کے اگلے منصوبے کی تکمیل کی طرف قدم بڑھایا جائے گا لہذا سقوط غزہ کے بعد یہ جنگ ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کا دوسرا فیز شروع ہو جائے گا اور مزید عرب ریاستیں اس کی لپیٹ میں آجائیں گی ۔

اس وقت صیہونی ریاست صرف عربوں کے لیے ہی نہیں پوری دنیا کے امن کے لیے خطرے کا باعث بن چکی ہے۔ دنیا کے اہم ملکوں نے اگر اس کی حساسیت کا نوٹس نہ لیا تو تیسری عالمی جنگ اور تباہی کو روکنا انتہائی مشکل ہو جائے گا ۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے