گردش، سید عنایت اللہ جان

 علماء، حکومت اور معاشرے سے ایک خیر خواہانہ التماس

علماء مسلم دنیا کا وہ خاص طبقہ ہے جو دینی علم و فہم، اقدار و روایات، سرگرمیوں، روح اور بیانیے کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں، اس دھارے میں شمولیت کے لیے زیادہ تر متوسط اور غریب طبقوں سے افرادی قوت میسر آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دینی مدارس میں آٹھ سے دس سال پر محیط درس نظامی پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں اور اس کے بعد دو خاص میدانوں میں خدمات سر انجام دینے کے لیے میدان عمل میں اترتے ہیں یعنی مساجد میں امامت و خطابت یا مدارس میں درس و تدریس۔ یوں مساجد و مدارس کا تاریخی سلسلہ اور کردار ایسے لوگوں کے ہی مرہون منت ہے۔ سکول اور کالج سطح پہ بھی ایک محدود تعداد درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہی ہے لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ سٹرکچر یا تو موجود نہیں ہے یا پھر غیر فعال اور مبہم سا ہے جس سے استفادے کا عمل بہر صورت محدود ہے۔

اسلام نے علم کا حصول ایک فرض قرار دیا ہے۔ قرآن و حدیث میں علم اور علماء کی بے حد فضیلت آئی ہے۔ تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے علماء کو اپنے وارثین تک کے اعزاز سے سرفراز فرمایا ۔ علم کے دو مدارج ہیں۔ ایک تفصیلی اور تحقیقی علم اور دوم بنیادی اور ضروری علم۔

تفصیلی اور تحقیقی علم ہر کسی کا کام نہیں اس کے لیے وقت، محنت، توجہ اور دلچسپی کی وہ مقدار چاہیے جس کا ہر کوئی متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے حصول کے لیے لمبا وقت صرف کر کے ایک خاص ترتیب سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد ہی وہ استعداد اور اعتبار میسر آتا ہے جو دین کی علمی نمائندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے جبکہ ضروری علم کا ہر بندہ جو عاقل، بالغ اور صحت مند ہو مکلف اور متحمل ہے۔ علم کے اس درجے میں ضروریات دین کا احاطہ کیا جاتا ہے اور یہ آسانی سے تفصیلی علم رکھنے والوں کو سن کر یا پڑھ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

دین انسان کی ضرورت ہے، دین انسانی فطرت کا ایک ازلی اور ابدی تقاضہ ہے، دین اس دنیا میں کسی اور دنیا کا سفیر ہے، دین کائنات کی خدائی توجیہہ کا وکیل ہے، دین اخلاق اور روحانیت کا عالمبردار ہے، دین اپنے حدود، حقوق اور دائروں تک محدود ہونے کا داعیہ ہے، دین کہتا ہے یہ دنیا سب کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ اس کے بعد بھی آنے والا ہے، دین باور کراتا ہے کہ یہ زندگی، یہ وسائل، یہ دنیا، یہ سانسیں، یہ اختیار، یہ ارادہ اور یہ آزادی جو کہ ہمیں حاصل ہیں یہ "اتفاق” نہیں بلکہ خالق کائنات کی جانب سے ایک "امانت” ہے۔ اس کے بارے میں بروز قیامت پوچھا جائے گا۔ یہ تصور، یہ ایمان، یہ بیانیہ اور یہ احساس پیدائش سے لے کر موت تک اور صبح سے لے کر شام تک جو لوگ ہمیں روز گوش گزار کرتے ہیں اور جو اس طرزِ زندگی کا خود نمونہ بن کر رہتے ہیں وہ ہیں علماء۔

انسان قدرتی طور پر سارے ایک دوسرے کے محسن ہیں، ایک دوسرے کے محافظ ہیں، ایک دوسرے کے خدمت گار ہیں، ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ایک دوسرے کے لیے تسلی اور اطمینان کا باعث ہیں، یہ جو سائنسدان ہیں، یہ جو سیاستدان ہیں، یہ جو تاجر ہیں، یہ جو پروفیسرز ہیں، یہ جو جج اور وکیل ہیں، یہ جو ڈاکٹرز اور حکیم ہیں، یہ جو ہنر مند اور محنت کش ہیں اور یہ جو صحافی اور سیکورٹی فورسز ہیں یہ سارے لوگ حقیقت میں ایک دوسرے کے محسن، خدمت گار اور ضرورت مند ہیں۔ لیکن ان ساروں کے مقابلے میں مجھے علماء کئی اعتبارات سے ممتاز حیثیت کے حامل محسوس ہو رہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ انسان کو اپنے انجام، اخلاق اور اعمال کے بارے میں چوکنا رکھتا ہیں۔ یہ صبر، سادگی، تحمل، شفافیت اور احترام سے نہ صرف خود آراستہ رہتے ہیں بلکہ لوگوں کو بھی مقدور بھر حرص و ہوس کی آگ میں جلنے سے روکتے ہیں۔ یہ ہر اچھے کام کے لیے انسان کو اندر سے آمادہ اور تیار کرتے ہیں۔ یہ عموماً ایک اچھی، سچی اور کھری زندگی کا خوگر بناتے ہیں۔ یہ اس سوچ سے لوگوں کو نکالتے ہیں کہ جس کو عام طور پر "کھاؤ پیو اور عیش اڑاؤ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کو اس طرزِ زندگی کی طرف بلاتے ہیں جن کو عمومی طور پر نیکی، دیانت داری، خیر اور تقویٰ کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔

علماء معاشرے کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سماجی دھارے میں کما حقہ شامل نہیں۔ وہ ذہنی حمایت، قلبی احترام اور سماجی توقیر رکھنے کے باوجود معاشرے میں کوئی واضح اور متعین کردار ادا نہیں کر پاتے۔ میں ایک عرصے سے علماء کے سماجی کردار اور معاشی حقوق یا حیثیت کے بارے میں غور و خوض کر رہا ہوں۔ میں اس بارے میں یکسو ہوں کہ ہمارا معاشرہ علماء کے بارے میں قطعاً یکسو نہیں۔ ذرا سوچیے نائب قاصد کی حیثیت، کام، بھرتی اور حقوق متعین اور مقرر کرنے کے لیے ایک سٹرکچر موجود ہے لیکن علماء کا کوئی بھی معاملہ واضح اور متعین نہیں۔ علماء کے پاس وہ اہلیت، موقع اور اسباب ہوتے ہیں جن سے سماجی زندگی توازن، شفافیت اور ایمان داری سے ہم کنار رکھنے میں اہم کام لیا جا سکتا ہے یعنی ممبر و محراب اور عوامی احترام و اعتبار لیکن اس کے باوجود وہ خود کوئی مستقل وسیلہ اور اسباب نہیں رکھتے۔

علماء بالکل نارمل لوگ ہوتے ہیں ان میں کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہوتی بلکہ میں نے پانچ برس قریب رہ کر ان میں غیر معمولی ذہانت، معاملہ فہمی اور انتظامی صلاحیتوں کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ بے شمار ایسے شعبے ہیں جن میں علماء مخلصانہ جوہر اور پیشہ ورانہ مہارت سے بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے تمام لوگ کر سکتے ہیں۔ قانون، تعلیم، سماجی بہبود، قیام امن، صحافت، باہمی معاونت، ماحولیات، تنازعات کے خاتمے، پبلک ریلیشن یہاں تک کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی وہ اہم اور وقیع خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں ضروری تعلیم، بنیادی تربیت، وافر موقع اور قانونی پلیٹ فارم مہیا کر کے ان پر اعتماد کیا جائے اور یہ کہ انہیں باقاعدہ سپیس دیا جائے۔

قوموں کو اپنا وجود قائم رکھنے اور ارتقاء کا سفر طے کرنے کے لیے باہمی ہم اہنگی، انصاف، اعتماد اور اشتراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ قوم، حکومت اور علماء ایک پیج پہ رہے۔ ان تمام دھاروں میں باہمی اعتماد، اشتراک اور دائمی رفاقت و معاونت تب ممکن ہے جب تمام مساجد اور مدارس سرکاری تحویل میں لے کر ایک مربوط انتظام کے تحت چلانا شروع ہو۔ اس اقدام سے نہ صرف علماء کا سماجی کردار اور معاشی حقوق متعین ہونے میں مدد ملی گی بلکہ قومی وحدت، عمومی امن اور باہمی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے والا ماحول بھی میسر آئے گا۔ وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر مدارس کے نصاب اور مساجد کے انتظام میں ضروری تبدیلیاں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس سے آنکھیں بند کر کے صدیوں سے لگے بندھے نظام پر اصرار کرنا بلا شبہ دین و دانش کے مکمل خلاف رویہ ہے۔ عصری تناظر میں سیاسیات، معاشیات، سماجیات، جدید مواصلات، بین الاقوامی تعلقات اور انسانی نفسیات سے متعلق گہرا ادراک اور ضروری بصیرت بہم پہنچانا بہر صورت علماء سے وقت کا ایک اہم ترین مطالبہ ہے۔ اس سے رخ پھیرا جا سکتا ہے نہ ہی آنکھیں بند۔

علماء کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ نہ صرف عصری مسائل اور احوال کا کما حقہ ادراک حاصل کریں بلکہ خود کو سماجی دھارے اور ریاستی ڈھانچے میں اچھی طرح جذب بھی کریں اور معاملات کو نبھانے کے لیے ضروری استعداد بھی بہم پہنچائیں۔ سیاست میں میرٹ آئے، تجارت میں دیانت آئے، تعلقات میں خلوص آئے، جذبات میں اعتدال آئے، زبان میں میٹھاس آئے، نگاہوں میں حیاء آئے، تعلیم کا معیار بلند ہو اور اخلاقی بحران کے چیلنج سے کیسے نمٹیں؟ حرام کاری اور حرام خوری جو ہر طرف چھائی ہوئی ہے ان تمام چلینجز میں علماء کا ٹھوس کردار وہ فرض ہے جس سے چشم پوشی کسی صورت ممکن نہیں اور اگر چشم پوشی کریں گے تو دین و سماج کا بے تحاشا نقصان ہوگا۔

مجھے اس بات کے اعتراف میں کوئی جھجک نہیں کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے علماء کی ایک بڑی تعداد حکومت پہ مدارس و مساجد کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے حوالے سے اعتبار کرنے کو تیار نہیں لیکن یہ سوچ طویل اور تکلیف دہ نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ حکومت اگر اس سلسلے میں خلوص، اہلیت اور دلچسپی کا مظاہرہ کرے گی تو بہت جلد سرکاری انتظام پہ علماء کا اعتماد بحال ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء رجسٹر ہو، طلبہ رجسٹر ہو، مدارس و مساجد سارے رجسٹر ہو، تمام علماء باضابطہ طور پر بھرتی ہو کر مساجد اور مدارس میں تعینات ہو، ان کا ایک باقاعدہ سروس سٹرکچر ہو، باوقار زندگی بسر کرنے کے لیے تمام ضروری اسباب انہیں میسر ہو اور یہ کہ ان کے معاملات چلانے کے لیے ایک معتبر اور بااختیار وفاقی ادارہ بھی قائم اور فعال ہو تو بہت بہتر قومی اور فلاحی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے