احسان-کوہاٹی

’ آپ بھی ۔۔۔ ‘

·

پاکستان میں ایوبی دور دورہ تھا، جنرل ایوب خان کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب سے روشن تھا۔ ہر حکمران کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کے بھاگ لگے رہیں اور اقتدا ر کا خوبصورت دن کبھی شام تک نہ پہنچے۔

سخت مزاج ایوب خان کی مخالف سیاست دانوں اور خاص کر جماعت اسلامی سے نہیں بنتی تھی۔ وہ جماعت اسلامی پر پابندی بھی لگا چکے تھے جو 6 جنوری 1964 کو عدالتی حکم پرختم ہوئی۔ اس سے پہلے 1953میں حکومت مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کو ’ قادیانی مسئلہ ‘ نامی کتاب لکھنے پر سزائے موت بھی سنا چکی تھی، جس پر بین الاقوامی دباؤ کے باعث عمل نہیں ہوسکا ورنہ وہ مولانا مودودی کو راستے سے ہٹا چکے تھے۔

اس کتاب کی اشاعت کی پاداش میں جماعت اسلامی کے 50 اکابرین کو گرفتار کیا گیا تھا یعنی جماعت اسلامی کا ایک طرح سے صفایا ہونے کو تھا لیکن قدرت کو منظور کچھ اور تھا۔ سو مولانامودودی حکومت کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔

حکومت اور جماعت اسلامی میں کشمکش جاری تھی کہ اِسی دوران 1965 کی جنگ چھڑ گئی ایوان ِ صدر سے تمام سیاست دانوں کو مشاورت کے لیے آنے کی دعوت دی گئی کہ اس وقت باہمی اختلافات ایک طرف رکھ کر پاکستان کے لیے ایک ہونے کا وقت ہے۔

جنگ کی وجہ سے فضائی سروس معطل تھی، ٹرین پر بھارت حملہ کرچکا تھا، لے دے کر ایک سڑک کا راستہ ہی بچا تھا جو بالکل محفوظ نہ تھا لیکن مولانا مودودی پیغام ملتے ہی دوسرے روز تما م خطرات کے باوجود موٹر کار پر لاہور سے راولپنڈی کے لیے، اپنے شدید سیاسی مخالف سے ملنے نکل پڑے اور انہوں نے ایوان صدر میں ہونے والی اے پی سی میں حکومت کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔

یہی مولانا مودودی جو پاکستان میں حکومت پر گرجتے برستے رہتے تھے، شدید تنقید کرتے تھے۔ جب بیرون ملک جاتے تو پاکستان کی سیاسی صورتحال پر چپ سادھ لیتے۔ ایک لفظ نہ کہتے کہ پاکستان کا امیج خراب نہ ہو۔

1968ء میں مولانا مودودی لندن پہنچے جہاں بی بی سی اردو سروس کے براڈ کاسٹر انعام عزیز نے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر سوال رکھ دیا، جس پر مولانا نے تبصرے سے معذرت کرلی کہ وہ بیرون ملک ہیں اور یہاں پاکستان کی صورتحال پر بات کرنا مناسب نہیں۔

مجھے یہ سب سابق صدر مملکت عارف علوی کے امریکا میں دیے گئے ایک انٹرویو پر بے طرح یاد آیا۔ عارف علوی صاحب کے بارے میں میری رائے مختلف رہی ہے۔ انہیں میں ایک وضعدار انسان سمجھتا ہوں۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے کراچی میں ان سے ملنے ملانے کو سلسلہ رہتا تھا۔ وہ ابے تبے والے رہنماؤں میں سے نہ تھے۔ سلیقے سے بات کرتے اور اچھے الفاظ میں اپنا مدعا رکھتے تھے۔ وہ دندان ساز ہیں اور میں نے انہیں دانتوں کے بیچ چھ انچی گوشت کے لوتھڑے کے استعمال سے بخوبی واقف پایا۔

جناب نے ایک نیوزچینل کو انٹرویو دیا اور عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ میں مماثلت کی تمہید باندھ کر کہا دونوں نے مشکل حالات اور مقدمات کا سامنا کیا۔ مزید کہا کہ ٹرمپ اصلاحات کر رہے ہیں۔ وہ امریکی پیسے کا درست استعمال چاہتے ہیں۔ ان تمہیدی جملوں کے بعد انہوں نے کہا کہ امریکی ادارے یو ایس ایڈ نے پاکستان الیکشن کمیشن کو 17 ملین ڈالر کی امداد دی تھی۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے بدترین دھاندلی زدہ الیکشن کرائے۔

یہاں یو ایس ایڈ کی اس امداد کا ذکر کرنا یوں ہی نہیں، بڑا معنی خیز ہے۔ جب وائٹ ہاؤس دنیا بھر میں امریکی امداد پر سوال اٹھا رہا ہے، کٹوتیاں کر رہا ہے تو پاکستان اور الیکشن کمیشن پاکستان کی بھی خبر لے۔ لیکن انہیں مکمل سچ کہنا چاہیے تھا۔

اس رقم کا ایم او یو 2006میں دستخط ہوا تھا جس کی خبر آج بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور یہ رقم 17 نہیں 16 ملین ڈالر تھی ۔

سوال یہ ہے کہ ان کے نزدیک کون سا الیکشن بدترین دھاندلی زدہ ہے؟ یہ رقم ملنے کے بعد تو الیکشن کمیشن نے وہ الیکشن بھی کرایا ہے جس میں مسلم لیگ ن اور دیگرسیاسی جماعتوں نے ایک زبان ہو کر آر، ٹی ، ایس بٹھا کر دھاندلی اور پی ٹی آئی کو وکٹری اسٹینڈ پر کھڑاکرنے کا بیانیہ بنایا تھا اور اسی الیکشن کے بعد عمران خان صاحب خوبصورت شیروانی پہن کر ’نیا پاکستان‘ کے انتخابی نعرے کو حقیقت میں بدلنے چلے تھے اور آپ جناب ایوان صدر میں مکین ہوئے تھے۔

آپ کے مطابق وہ انتخابات بھی غلط تھے تو اس اسمبلی سے بطور صدر ان کا انتخاب بھی درست نہ تھا۔ اگر وہ انتخابات درست تھے اور 2024کے جعلی تھے تو پھر علوی صاحب ہمت کر کے جعلی الیکشن سے منتخب ہونے والے ’جعلی وزیر اعظم ‘ سے 5 مارچ2024 کو حلف نہ لیتے۔ احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیتے اور تاریخ میں اپنا مقام طے کر جاتے۔ کوئی ارتضیٰ نشاط کا یہ شعر تو نہ لکھ پاتا

 کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

 کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں سیاست کا ہدف کرسی ہی ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ اقتدار کا ہما اس کے سر پر بیٹھے لیکن اس کھیل کا بھی طور طریقہ ہوتا ہے۔  آپس کے داؤ پیچ میں ہمیں پاکستان کا بھی تو خیال رکھنا ہے۔ زیادہ اچھا نہ ہو کہ یہ لڑائی پاکستان ہی کی حدود میں رکھی جائے۔کیا کبھی پڑوس میں کانگریس یا اپوزیشن کی کسی او ر جماعت کو چوک چوراہے پر میلے کپڑے دھوتے دیکھا ہے؟

کانگریس مسلسل تین انتخابات میں شکست کھاتی آرہی ہے، مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے لیکن کبھی اس طرح انہیں بھی ہلکا ہوتے دیکھا ہے ؟

سچ کہوں عارف صاحب! آپ سے تویہ توقع نہ تھی۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے