سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
ایک یادگار سفر
یہ 11 جولائی 2001 کا ایک تپتا ہوا دن تھا اور ہوا میں حدت کے لرزتے ہوئے سراب بکھرے تھے۔ میں مقررہ وقت پر بس اڈے پہنچا، جہاں مسافروں کی گہماگہمی اپنے عروج پر تھی۔ میرا ٹکٹ، جو میں نے ایک دن پہلے ہی خرید لیا تھا، 250 روپے کا تھا۔ بس کی روانگی کا وقت قریب تھا، اور مجھے محض سوار ہونا باقی تھا۔
بس میں قدم رکھتے ہی احساس ہوا کہ بیشتر نشستیں پہلے ہی بھر چکی تھیں۔ میرے ٹکٹ پر کوئی مخصوص سیٹ نمبر درج نہ تھا، مگر قسمت کی مہربانی کہ مجھے ڈرائیور کے پیچھے والی نشست ملی۔ دل کو عجب خوشی ہوئی۔ یہ جگہ نہ صرف آرام دہ تھی بلکہ یہاں سے باہر کے مناظر بھی صاف دکھائی دیتے تھے، اور اترنے چڑھنے میں بھی آسانی تھی۔
بس ابھی چند سو میٹر ہی چلی ہوگی کہ اچانک ڈرائیور نے رفتار دھیمی کی۔ سڑک کے کنارے دو غیرملکی، شلوار قمیض میں ملبوس کھڑے تھے۔ ایک نوجوان لڑکی، جس نے سر پر دوپٹہ خوبصورتی سے اوڑھ رکھا تھا، اور اس کے ساتھ ایک بیس، بائیس سالہ خوش شکل نوجوان تھا۔ کنڈکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے بس رکوائی اور انہیں سوار ہونے کی اجازت دی۔
ابھی وہ اندر آئے ہی تھے کہ کنڈکٹر کی کرخت آواز میرے کانوں سے ٹکرائی: ’یہ سیٹ خالی کر دو!‘۔ میں حیران رہ گیا۔ میری نشست، جو ابھی کچھ لمحے پہلے میری خوش نصیبی کی علامت تھی، یکایک چھین لی گئی اور ان دونوں غیرملکیوں کے حوالے کر دی گئی۔ میری حیرانی اور خفگی کی پروا کیے بغیر کنڈکٹر نے میری طرف دیکھا اور بے رخی سے حکم صادر کیا: ’تم اس لکڑی کے صندوق پر بیٹھ جاؤ!‘ میں نے احتجاج کیا، مگر میری بات ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ سیٹی بجی، بس دوبارہ اپنی راہ پر گامزن ہوئی، اور میں مجبوری کے عالم میں درمیانی راستے میں رکھے ایک چوبی بکسے پر براجمان ہوگیا۔
میرے شانے اس انگریز نوجوان کے اتنے قریب تھے کہ بس کے ہچکولوں کے ساتھ وہ مجھ سے ٹکراتا اور میں اس سے۔ ابتدا میں یہ قربت محض ایک زحمت معلوم ہوئی، مگر دھیرے دھیرے اجنبیت کی دیواریں پگھلنے لگیں۔ کچھ لمحے بیتے، اور ایک خاموش مفاہمت نے جنم لیا۔ پھر چند رسمی جملے، مسکراہٹوں کا تبادلہ، اور یوں وہ سفر جو ابتداء میں ناپسندیدہ لگ رہا تھا، ایک خوشگوار دوستی میں ڈھل گیا۔
زندگی کی راہوں میں کبھی کبھار حادثات، تعلقات کی بنیاد بن جاتے ہیں، اور یہ مختصر سفر شاید انہی اتفاقات میں سے ایک تھا۔ ایک ایسا لمحہ، جو برسوں بعد بھی یادوں کے دریچے میں روشن رہتا ہے۔
نیکٹر اور لینا – ایک سرگرداں مسافر کی داستان
یہ اجنبی، جس کا نام نیکٹر تھا، دور دراز بیلجیم کی سرزمین سے نکلا تھا۔ ایک ایسا مسافر جسے راستوں نے پکارا، اور وہ ان پکاروں کے پیچھے چل پڑا۔ اپنی محبوبہ سے خفا ہو کر، جب وہ محض اٹھارہ برس کی عمر میں گھر سے نکلا، تو یہ نہیں جانتا تھا کہ آگے اس کی قسمت میں در در کی ٹھوکریں لکھی جا چکی ہیں۔
یورپ کی گلیوں میں بھٹکتا، آسٹریلیا کی وسعتوں میں کھوتا، ملیشیا کے رنگوں میں ڈھلتا، آخرکار نیپال آن پہنچا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ آوارگی بے سبب نہیں تھی، کہ راستے اسے وہ کچھ سکھا گئے جو کتابیں نہیں سکھا سکتیں۔
نیپال میں ہی اس کی ملاقات لینا سے ہوئی۔ ایک لڑکی جس کے قدم بھی زمین پر ٹکنے کو تیار نہ تھے۔ اس کے والدین تو جہاز میں بیٹھ کر بیلجیم جا بسے، مگر لینا نے نیکٹر کی طرح خود کو سرگردانی کے حوالے کر دیا۔ یہ دونوں مسافر ہندوستان، پاکستان، ایران، ترکی اور یونان کے راستوں سے ہوتے ہوئے بیلجیم کی جانب گامزن تھے، جیسے ہوا کے دو بے لگام جھونکے، جو کسی سرحد، کسی دیوار کے قائل نہ ہوں۔
جب نیکٹر بس میں سوار ہو رہا تھا، تو اس کے کندھے سے ایک چمڑے کے غلاف میں لپٹی کوئی شے جھول رہی تھی، ایسی جسے پہلی نظر میں بندوق سمجھا جا سکتا تھا۔ میں نے پوچھا تو ہنس کر بولا، ’یہ بندوق نہیں، یہ یی داکی (Yidaaki)ہے۔‘ اور پھر جیسے کسی پرانے داستان گو کی طرح گویا ہوا کہ یہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا موسیقی کا آلہ ہے۔ درخت کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر کے بنایا گیا ایک سُریلا جادو، جس کی سانسوں سے جنگل گونج اٹھتا ہے۔ نیکٹر نے آسٹریلیا میں اس آلے کو بجانا سیکھا تھا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ جب ہم ایران میں داخل ہوں گے، تو وہ مجھے اس کی صدا سنائے گا۔
نیکٹر چھوٹے قد کا تھا، مگر اس کی شخصیت میں ایک عجیب سی وحشت تھی۔ اس کی نیلی، بلی سی آنکھوں میں کسی خانہ بدوش کی سی خشونت تھی، ایسی کہ جب وہ غور سے میری بات سنتا، تو لگتا کہ آنکھوں سے نہیں، کسی گہرے کنویں سے جھانک رہا ہو۔
اس کے لمبے بالوں کو ایک بھاری پگڑی نے قید کر رکھا تھا، جو سر کے پیچھے لڑھک رہی تھی، اور اس کی داڑھی بے ترتیب ہو کر سینے تک جا پہنچی تھی۔ وہ دیکھنے میں کسی قندھاری چرواہے جیسا لگتا تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا، ’یہ داڑھی کیوں رکھی؟‘
وہ مسکرایا، ایک ہلکی سی تلخی کے ساتھ، اور بولا، ’جب میں آسٹریلیا سے پہلی بار کسی اسلامی ملک میں آ رہا تھا، تو سوچا کہ بغیر داڑھی کے جانے کون سا سلوک ہوگا میرے ساتھ۔ مغربی میڈیا نے میرے ذہن میں مسلمانوں کی ایک خاص تصویر بنا رکھی تھی۔ مگر جب میں ملیشیا پہنچا، تو حقیقت اس تصویر سے بالکل مختلف نکلی۔‘
اور لینا؟ وہ اٹھارہ، انیس برس کی ایک کم گو دوشیزہ تھی۔ نہایت واجبی سی صورت، مگر اس کے بھورے بال اور نیلی آنکھیں چیخ چیخ کر کہتی تھیں کہ وہ کسی اور دیس کی باسی ہے۔ وہ زیادہ بولتی نہیں تھی، اور میری زیادہ تر گفتگو نیکٹر سے ہی ہوتی رہی۔ ایک تو وہ میرے قریب تھا، دوسرے بس میں چلنے والی ایرانی اور بلوچی موسیقی اتنی بلند تھی کہ ہمیں چیخ چیخ کر بات کرنا پڑتی تھی۔ نیکٹر نے تو اس شور سے بچنے کے لیے رات کے وقت کانوں میں ٹشو پیپر ٹھونس لیے تھے۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ مسافر جو دنیا دیکھنے نکلا تھا، کیا جانتا تھا کہ دنیا صرف آنکھوں سے نہیں، کانوں سے بھی سنی جاتی ہے۔
یہ کوئی سیدھا، ہموار سفر نہ تھا، بلکہ ایک ایسا سلسلہ تھا جس میں ہر جھٹکا ایک نیا تجربہ تھا، ہر موڑ ایک نئی آزمائش۔ سڑک کا کچھ حصہ نیا بنا تھا، مگر بیشتر راستہ ایسا کہ اگر نظر ہٹ جائے، تو یوں لگے جیسے صدیوں پرانا کارواں ابھی کسی اونٹ کی گھنٹی بجا کر گزر گیا ہو۔
بس ہچکولے کھاتی، لڑکھڑاتی، جیسے کسی مدہوش رقاصہ کی طرح زمین پر جھوم رہی ہو۔ ایرانی اور بلوچی موسیقی کے شور میں ڈرائیور یوں مگن تھا جیسے یہ کوئی عام سواری نہیں، بلکہ رقص کرتی ہوئی کوئی مخلوق ہو، جو اپنی مرضی سے چل رہی ہو، کبھی دائیں، کبھی بائیں۔
لیکن بس میں صرف مسافر نہ تھے، بلکہ تجارت کا پورا ایک بازار سوار تھا۔ باسمتی چاول کی بوریاں چھت پر باندھی گئی تھیں،اور اس کے کچھ ڈھیر سیٹوں کے درمیان راستے میں لگے تھے، اور انہی بوریوں پر اضافی مسافروں کو بٹھایا گیا تھا۔بس سے باہر اترنے کے لیے ان بوریوں کو اپنے قدموں تلے روندنا پڑتا تھا۔ اس بس کی کھڑکیاں کھسکنے والی تھیں جو خال ہی بند رہتی تھیں۔ سارے راستے ان کھڑکیوں سے لُو اندر آکر چہروں کو جھلسا رہی تھی۔ باہر سے داخل ہونے والی گرم ہوا، تندور کے دہانے سے اٹھنے والی لُو جیسی تھی۔ رات پڑی، تو ہوا میں ہلکی سی خنکی آئی، مگر راستہ وہی کٹھن، ویسا ہی بے رحم۔
کوئٹہ سے تفتان – ایک بے ہنگم سفر
کوئٹہ سے تفتان تک کا سفر یوں تو نقشے میں سیدھا معلوم ہوتا تھا، مگر حقیقت میں کہیں زمین ادھڑی ہوئی تھی، کہیں سڑک پرانی چادروں کی طرح جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی۔ کہیں ندی نالوں کے پل بارشوں کے قہر سے یوں بکھر چکے تھے جیسے پرانی عمارتیں زلزلے کے بعد۔ بس، جو کسی بوجھل اونٹ کی مانند تھی، جب بھی سڑک چھوڑ کر کچے میں اترتی، تو یوں لگتا جیسے ابھی کسی دلدل میں دھنس جائے گی۔ ہر موڑ پر دل کسی انجانے خوف سے دھڑکنے لگتا کہ اب گری، تب گری۔
بس کے اندر نہ صرف مسافر سوار تھے بلکہ چاول کی بوریاں، پاکستانی گھی اور تیل کے کنستر بھی سفر میں شریک تھے، جیسے یہ بھی اپنی قسمت آزمانے نکلے ہوں۔ جب بس ایک طرف جھکتی، تو نیکٹر کا لمبا، دبلا پتلا وجود بےاختیار میری جانب لڑھک آتا، اور مجھے نہ صرف اپنا آپ سنبھالنا پڑتا بلکہ اس یورپی نوجوان کے وزن کو بھی برداشت کرنا پڑتا۔
جب بس دوسری طرف جھکتی، تو میں نیکٹر کے کندھے سے جا لگتا۔ لینا، جو کسی خوابیدہ مجسمے کی مانند بیٹھی تھی، ہمارے اس شانے سے شانہ ٹکرانے کے کھیل میں خاموش تماشائی بنی رہی۔ رات اسی ہنگامے میں گزر گئی۔ یہ سفر نہیں تھا، یہ کسی طوفانی سمندر میں بے یار و مددگار بھٹکنے والی کشتی کا ماجرا تھا۔
صبح کی مدھم روشنی جب کھڑکیوں سے اندر آنے لگی، تو ہم نوکنڈی پہنچ چکے تھے۔ اب راستہ ہموار تھا، جیسے کسی شوریدہ روح کو سکون آ گیا ہو۔ نئی، کشادہ اور چمکتی سڑک پر بس ہلکے ہلکے بہاؤ میں آگے بڑھ رہی تھی، جیسے رات کی تمام تھکن اسی راستے پر بکھر گئی ہو۔ شاید اسی لمحۂ سکون میں بس والے نے شیخ محمد المحیسنی کی تلاوت چلا دی—ایک پرسکون، گونجتی ہوئی آواز، جو خاموشی کو بھر رہی تھی۔
نیکٹر، جو رات بھر جھولتا رہا تھا، ایک لمحے کو ٹھہر گیا۔ اس نے آنکھیں موند کر اس آواز کو سنا، پھر آہستہ سے بولا، ’مجھے نہیں معلوم یہ کیا کہہ رہا ہے، لیکن اس کی آواز میں کوئی عجیب سی بات ہے… جیسے کوئی صحرا کی گونج ہو، جیسے کوئی پراسرار موسیقی میرے اندر اتر رہی ہو۔‘
بس اب تفتان کی طرف گامزن تھی، اور ہم سب اسی تلاوت میں کھو گئے۔ شاید راستے کی سختیاں، جھٹکے، اور رات بھر کی بے قراری اسی میں تحلیل ہو رہی تھی۔(جاری ہے)
تبصرہ کریں