عبداللہ حسین پاکستان کے نامور ناول نگار اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول ’اداس نسلیں‘ کو اردو ادب کے تین بڑے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینیئر تھے۔ کوئی 50 سال قبل وہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور کیمسٹ ملازم تھے۔ فیکٹری کے آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ تنہائی سے تنگ آکر ایک دن انہوں نے وقت گزاری کے لیے کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ تجربہ کامیاب ہوا۔ انہیں محسوس ہوا کہ تخلیق کی دیوی ان پر مہربان ہے۔ انہوں نے ناول لکھنا شروع کیا۔ یوں پانچ سال بعد 1962 میں ’اداس نسلیں‘ وجود میں آ گیا۔ اس ناول نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ پچھلے 62 برسوں میں درجنوں ناول لکھے گئے، مگر کوئی بھی اس ناول کی تاب ماند نہ کر سکا۔
عبداللہ حسین پہلے ناول کی پذیرائی سے مسرور تو ہوئے، مگر انہوں نے جلدی سے کام نہیں لیا۔ ان کی ہر تخلیق میں کئی برسوں کا گیپ آیا۔ ’نشیب‘، ’باگھ‘ اور پھر ’نادار لوگ‘ ان سب کی تیاری میں بڑی محنت شاقہ سے کام لیا گیا۔ ان کا میں نے ایک اخبار کے سنڈے میگزین کے لیے تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو میری زیرِطبع کتاب میں شامل ہے۔
عبداللہ حسین سے ملاقات ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ انہیں دیکھ کر بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی مرحوم یاد آ جاتے ہیں۔ ویسا دراز قد، نوکیلی سفید مونچھیں اور وہی تنک مزاجی۔ عبداللہ حسین بلا کے صاف گو شخص ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات کھل کر بیان کیے۔ ان کے کئی حوالوں سے خیالات بالکل وہی تھے جو برطانوی مصنفہ ایما ڈنکن نے اپنی کتاب میں نواب بگٹی سے منسوب کیے۔
عبداللہ حسین بڑے کٹر قسم کے وجودیت پسند تھے۔ ان کے فیورٹ سکالر بھی فرانسیسی وجودیت پسند فلاسفر سارتر اور کامیو رہے۔ گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کہ اردو میں بڑے ناول بہت کم لکھے گئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ عبداللہ حسین اس پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر ہنسے اور کہنے لگے ’اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ادیبوں کا سانس ٹوٹ جاتا ہے۔‘ پھر وضاحت کرتے ہوئے بولے ’کبڈی کے کھیل میں کئی دفعہ کھلاڑی مخالف ٹیم کے گھیرے میں آ جاتا ہے۔ اسے کوئی پھرتیلا حریف نیچے گرا کر مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ کھلاڑی ہر قیمت پر چھڑا کر واپس آنا چاہتا ہے، مگر اکثر اوقات لائن سے تھوڑا پہلے اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اسے دم ٹوٹنا یا سانس ٹوٹنا کہتے ہیں۔ ہمارے بیشتر ادیبوں کا یہی حال ہے۔ ان میں اتنی قوت اور ہمت نہیں کہ بیٹھ کر طویل عرصہ کسی ناول پر کام کریں۔ میں ایک ناول لکھنے میں کم از کم پانچ سال لگاتا ہوں، پھر ایک سال اس کی آخری شکل بنانے میں لگ جاتا ہے۔ آج کل کے ادیب تو مہینے میں ناول لکھنا چاہتے ہیں۔‘
پھر عبداللہ حسین کہنے لگے ’مجھے تو لگتا ہے کہ ہماری پوری قوم کا سانس جلد ٹوٹ جاتا ہے۔ بحیثیت قوم ہم میں ضبط برداشت اور طویل المدت پلاننگ کی ہمت نہیں رہی۔ لوگوں میں چند گھنٹے بیٹھ کر مطالعے کرنے کی سکت نہیں رہی، ان کا سانس بہت جلد ٹوٹ جاتا ہے۔‘
میں نے پچھلے پندرہ، سولہ برسوں میں بارہا عبداللہ حسین کی بات پر غور کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا پوائنٹ درست تھا۔ صرف ادب ہی نہیں بلکہ بطور قوم ہمارا یہ مسئلہ بن گیا ہے۔ اسے جس مرضی شعبے پر فٹ کرکے دیکھ لیں۔ سپورٹس کو ہی لے لیں۔ پاکستان کا مقبول ترین کھیل کرکٹ ہے۔ بارہا ہم نے دیکھا کہ پاکستانی ٹیم اچھا کھیل رہی ہوتی ہے، پھر اچانک ہی ٹیم کولیپس کر جاتی ہے، جیسے اس کا سانس پھول گیا اور وننگ لائن کراس کرنے سے پہلے ہی دم ٹوٹ گیا۔
یوں لگتا ہے کہ اصل مسئلہ تکنیک نہیں بلکہ ذہن کا ہے۔ اکثر میچوں میں ہمارے کھلاڑی صبر و تحمل اور پلاننگ سے کام لینے کے بجائے جوش اور جلدبازی دکھاتے ہیں اور جیتا ہوا میچ ہروا دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اور شائقین بھی ایسے کھلاڑیوں کو ہیرو بناتے ہیں جن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے دماغ کو کم سے کم استعمال کیا جائے۔ ان کھلاڑیوں کے نام کیا لیے جائیں، ان کے حامی ناراض ہو جائیں گے، مگر ایسے سپرسٹار کھلاڑی بھی رہے ہیں جنہیں تین تین سو میچ کھیل کر بھی سمجھ نہیں آئی کہ کس گیند کو چھوڑنا ہے، کس پر شاٹ کھیلنا ہے۔ جب بھی کسی میچ میں عقل سے کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے، یہ شہزادے گلیوں، محلوں میں ٹیپ بال سے کھیلنے والے بچوں کی طرح گیند اونچا اٹھا کر کھسیانی مسکراہٹ لیے پویلین میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔
نجانے ہمارے سلیکٹرز کو ان کھلاڑیوں میں کیا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ ٹیم سے چمٹ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے تجربے کار کھلاڑی بھی پوری طرح سیٹ ہوجانے کے باوجود قبل ازوقت فنشنگ کرنے کے چکر میں خود ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ رویہ محض ادب یا سپورٹس میں نہیں بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی یہی ناپختگی اور پلاننگ کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے عوام نعرے لگانے والے جذباتی سیاستدانوں کو ہمیشہ پذیرائی بخشتے ہیں۔ عقل و فہم کی بات کرنے اور مستقبل کے بارے میں واضح ویژن رکھنے والے لیڈر کو نااہل سمجھا جاتا ہے۔ بیشتر ملکی پالیسیوں میں بھی یہی عجلت کارفرما رہتی ہے۔ حکومتیں طویل المیعاد ٹھوس پالیسیاں بنانے کے بجائے فوری نوعیت کے اقدامات کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ان کی یہی خواہشں ہوتی ہے کہ ایسا منصوبہ شروع ہو جس کے نتائج ایک سال میں سامنے آ جائیں تاکہ وہ اس کا کریڈٹ لے پائیں۔
تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت، پل اور انڈر پاس بنانے ہوں یا دیگر ترقیاتی منصوبے، ہر جگہ حکمران چھکے لگا کر میچ جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ٹھوس بنیادوں پر ہونے والے کام نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان حکمرانوں کو یقین ہی نہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کر سکیں گے۔
ان کا تمام تر زور اسی پر ہوتا ہے کہ سال ڈیڑھ کے اندر ہی سیاسی نتائج نکل آئیں۔ اب ایسے میں لانگ ٹرم پلاننگ تو سرے سے غائب ہو گئی، ہر جگہ شارٹ ٹرم پلان ہی نظر آتے ہیں۔
اصل تشویش یہ ہے کہ کسی فرد یا ٹیم کی غلطیوں کے نتائج نسبتاً محدود ہوتے ہیں، جبکہ قوموں میں ٹمپرامنٹ ختم ہو جائے اور وہ اپنے کل کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف آج ہی کو کل کائنات سمجھ لیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قوم کی حیثیت سے ان کا وجود شدید خطرے میں ہے۔
تبصرہ کریں