ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے لیے گزشتہ ہفتے سوئس شہر ڈیووس میں سرکردہ کاروباری شخصیات، ماہرین تعلیم اور عالمی رہنما جمع ہوئے تاکہ موجودہ وقت کے کچھ اہم مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی، افراط زر یا اقتصادی ترقی پر گفتگو ممکن بنائی جاسکے۔
تاہم ایک بم شیل رپورٹ نے عالمی اشرافیہ کے اس اجتماع کے تاریک پہلو کو اجاگر کیا ہے، برطانوی جریدے ڈیلی میل کے مطابق ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران ایسکارٹ( سیکس ورکرز فراہم کرنے والی ) ایجنسیوں کی مانگ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح امیر مہمانوں نے ایسی خواتین کے حصول کے لیے سب سے زیادہ ڈالر ادا کیے، یہاں تک کہ کچھ نے وائلڈ اور سیکس پارٹیوں کی میزبانی بھی کی۔
’سیکس‘ کے لیے ادائیگی
ڈیلی میل کے مطابق، ایسکارٹ ایجنسیوں نے ورلڈ اکنامک فورم کے دوران ہر طرح کی خواتین کی مانگ میں اضافہ دیکھا، جس کے دوران فورم کے طاقتور شرکا نے ’سیکس‘ کے لیے پریمیئم قیمتیں ادا کیں۔
بکنگ کے بعد عام طور پر طوائفوں کو غیر افشا کرنے والے معاہدوں پر دستخط کے لیے مجبور کیا گیا تھا لیکن وہ ہزاروں ڈالر کمانے میں کامیاب ہو رہیں، بعض خواتین نے فقط ایک بکنگ میں 6,000 پاؤنڈز تک کمائے۔
ان تقریبات میں بکنگ کا اوسط دورانیہ تقریباً 4 گھنٹے تھا، جس کے نتیجے میں ایونٹ کے پہلے 3 دنوں میں صرف ایک ویب سائٹ سے بکنگ پر تقریباً 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈز خرچ کیے گئے، تاہم، دیگر ایجنسیوں نے ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ رقم کمائی ہوگی ، مختلف ایسکارٹس کی مجموعی بکنگ کا اندازہ تقریباً 1 ملین سوئس فرانک لگایا گیا ہے۔
ڈیووس میں عیاشیاں
ڈیلی میل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈیووس میں کاروبار کے کچھ طاقتور ترین ناموں نے ایک ساتھ کئی خواتین کو بُک کیا، ادائیگی پر ’ڈیٹس‘ کا بندوبست کرنے والے ایک پلیٹ فارم کے مطابق اس سال نمایاں طور پر زیادہ سیکس پارٹیاں ہوئی ہیں، کیونکہ صرف اس پلیٹ فارم سے 90 کے قریب صارفین نے 300 طوائفیں بُک کیں۔
مذکورہ پلیٹ فارم کے ترجمان نے ڈیلی میل کو بتایا کہ اس سال پلیٹ فارم کے ذریعے تقریباً 300 خواتین اور ٹرانس کو بک کیا گیا جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد صرف 170 رہی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں اس مرتبہ نمایاں طور پر زیادہ سیکس پارٹیاں ہوئی ہیں۔
ایک اور ایسکارٹ ایجنسی کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ اس بار جس جنسی عمل کی درخواستیں موصول ہوئیں وہ ’غیر فطری طریقہ‘ تھا۔
امسال عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کے لیے عالمی اشرافیہ کے جمع ہونے کے دوران ڈیووس میں بے شرمی کے واقعات کی خبریں سامنے آنے کے بعد، ایک ’سوئس محافظ‘ نے جو دراصل سیکس ورکر ہے، کچھ ایسے مطالبات کا تذکرہ کیا جسے اس نے بھی ’ عجیب و غریب‘ قرار دیا۔
واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ برطانوی جریدے ’ڈیلی میل‘ کی رپورٹ کے مطابق، اس بار طوائفوں کی مانگ میں پہلے کی نسبت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ مبینہ طور پر طوائفوں کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کیا گیا کہ وہ کسی کو نہیں بتائیں گی۔ اور اس کے لیے الگ سے ادائیگی بھی کی گئی۔
بائیس سالہ ایک مقامی ماڈل، میا مئی کے بقول اسے اپنی جسم فروشی کی چار سالہ زندگی میں پہلی بار عجیب و غریب عجیب و غریب مطالبات سننے کو ملے۔ خاتون نے بتایا کہ زیادہ تر کلائنٹس ’بالکل ٹھیک‘ تھے، تاہم بعض مردوں نے انہیں اپنے مطالبات سے اسے دنگ کر دیا۔
بعض نے کہا کہ وہ اس کے سامنے نسوانی لباس پہننا چاہتے ہیں، بعض نے سوتے ہوئے بچے کی موجودگی میں جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ایسے ہی کچھ دیگر مطالبات جنھیں احاطہ تحریر میں لانا از حد مشکل ہے۔ میا مئی کہتی ہے کہ میں بچوں کی موجودگی میں جنسی عمل نہیں کرسکتی تھی، چاہے وہ سوئے ہوئے ہوں۔ اس لیے میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ایک کلائنٹ نے تو حد ہی کردی۔ اس نے اپنی سوئی ہوئی بیوی کی موجودگی میں سیکس کرنے کی خواہش ظاہر کی تاہم میں نے انکار کردیا۔ اگرچہ کلائنٹ کا کہنا تھا کہ وہ اس کی بیوی بہت گہری نیند سوتی ہے۔
طوائفوں اور گاہکوں کے درمیان معاملات طے کروانے والی ایجنسیوں کے مطابق عالمی اقتصادی فورم کے شرکا نے جنسی عمل کے دوران خواتین پر تشدد جیسے انداز بھی اختیار کیا۔ مثلاً ان کے بال پکڑ کر گھسیٹنا، ان کے ہاتھ رسی سے جکڑ دینا، ان کی آنکھیں کپڑے سے کس کر باندھ دینا وغیرہ۔
جب میا مئی سے پوچھا گیا کہ وہ ایک سال میں اس کام سے کتنا کما لیتی ہے، تاہم اس نے اپنی ماہانہ یا سالانہ آمدن ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔ خاتون نے اس قدر بتانا ہی کافی سمجھا کہ وہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل ہے۔ وہ کس قدر دولت مند اور اعلیٰ زندگی بسر کرتی ہے کہ اس کے ساتھ ایک معاون ٹیم بھی ہے جسے اچھی بھلی تنخواہیں ادا کرتی ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کے بہت سے شرکا نے ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ طوائفوں کو بُک کیا۔ زیادہ تر گاہکوں نے اوسطاً چار گھنٹے کے لیے ایک طوائف کو بُک کیا جس کا معاوضہ تین لاکھ سوئس فرانک ادا کیا گیا جو قریباً سوا نو کروڑ پاکستانی روپوں کے برابر ہیں۔
تبصرہ کریں