گردش، سید عنایت اللہ جان

ملک ریاض حسین، ایک تصویر یہ بھی ہے

روز دل کرتا ہے ملک ریاض حسین کو دس سلوٹ کروں لیکن ہاں ایسا سوچنا ان کی دولت کی بدولت نہیں بلکہ ان کی مہارت کی بدولت ہے۔ آج اہل وطن کو جن جن مقامات پر بھی ‘بحریہ ٹاون‘ کے نام سے جو روشن اور آباد انسانی بستیاں نظر آرہی ہیں یہ سب ان کی مہارت اور صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک ریاض حسین کا جذبہ، حوصلہ، مستقل مزاجی، وژن، مشن اور مہارت نہ ہوتی تو آج انہیں جگہوں پہ گندے نالوں اور سنسان ویرانوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آتا۔

ہم مانیں یا نہ مانیں ملک ریاض حسین اپنی ذہانت، مہارت اور حوصلے کے طفیل اس ملک میں کامیابی کا ایک قابل ذکر ماڈل بن چکے ہیں۔ یہ ملک ریاض حسین کا امتیاز ہے کہ انہوں نے پراپرٹی اور تعمیرات کا کاروبار جو ایک عرصے سے فائلوں میں دبا لیا گیا تھا، سے نکال کر برسر زمین لے آیا۔ انہوں نے بزبان حال ثابت کیا کہ اگر جذبہ، وژن، مشن، محنت، مستقل مزاجی اور حوصلہ موجود ہو تو تعلیم کی کمی، حالات کی ناسازگاری، وسائل کی نایابی اور ایک پیچیدہ سرکاری انتظام اور بے حس سماجی ڈھانچے ایسے مسائل کا انبار بھی انسان کی کامیابی کو روک نہیں سکتا۔

ملک ریاض حسین ایک حد درجہ باصلاحیت انسان ہے لیکن بدقسمتی سے وہ جتنا باصلاحیت اور کامیاب ہے اس سے کہیں زیادہ بدنام ہے۔ ہر جگہ زمینوں پر قبضوں، دھوکہ دہیوں اور غلط بیانیوں کے لیے بدنام کر دیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے اس میں حقیقت کم جھوٹ زیادہ ہے۔ ملک ریاض حسین کے حوالے جگہ جگہ مختلف افسانے، قصے کہانیاں اور روایات مشہور ہیں جن میں موجود سچائی تشنہ ہے۔ ذہنی انتہا پسندی، انتہا پسندی کی سب سے تباہ کن شکل ہے۔ یہ پسماندہ معاشروں کی سب سے بڑی علت ہوتی ہے یہ علت پورے پورے معاشروں کو انصاف، اعتدال، احساس، ادراک اور اعتراف سے بہت دور لے جاتی ہے۔ اس میں مبتلا ہو کر لوگوں کو کسی میں خیر نظر آتی ہے نہ ہی صلاحیت حالانکہ انسان اپنی فطرت، شخصیت اور کردار و اخلاق کے اعتبار سے خیر و شر دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص ٹوٹلی شر کا حامل بن سکتا ہے نہ ہی بالکل خیر ہی خیر میں بدل سکتا ہے۔ انسان کی زندگی دونوں کی بیچوں بیچ گزرتی ہے۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں بھی آتا ہے اور رحمان کی آواز پر بھی کان دھرتا ہے۔ قدرت کو انسان سے اچھے کام بھی مطلوب ہوتے ہیں اور موقع و اختیار پا کر برے کام بھی کر گزرتے ہیں اور ہاں خوف خدا کے سبب بہت سارے لوگ برائیوں سے رک بھی جاتے ہیں۔ انسان نے انسان بن کر رہنا ہے اور انسان ہی رہ کر مرنا ہے کیونکہ وہ انسان ہی پیدا ہوا ہے کچھ اور نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو برابر کے انسان سمجھنا شروع کر دیں اور ہر کسی کے لیے یہ گنجائش بہر صورت باقی رکھے کہ غلطیوں کے باوجود بھی ایک فرد پر اچھائیوں کے دروازے کبھی مستقل بند نہیں ہوتے۔ یہ امر بھی ضروری ہے کہ عیبوں اور صلاحیتوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ رکھ کر دیکھیں یہ نہ ہو کہ کسی عیب کی وجہ سے ہم کسی بھی فرد کی تمام صلاحیتوں اور خدمات کا انکار کر بیٹھیں یہ بہت بڑی خرابی ہے۔ ملک ریاض حسین کئی طرح کے الزامات کی زد میں رہے ہیں اور یہ بھی بالکل ممکن ہے کہ کچھ الزامات سچائی پر مبنی ہوں لیکن ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ موصوف ایک باصلاحیت، حوصلہ مند، صاف گو، محنتی، مخیر اور پُرعزم شخص ہیں جن کے کام اور کامیابیاں سب برسرِ زمین، سب کو نظر آ رہی ہیں۔ ہم ایک فرد کو قبضہ مافیا، جھوٹا اور دھوکہ باز قرار دیں اور دوسری طرف پورے نظام میں موجود خرابیوں، کرپشن، جھوٹ اور دھوکہ بازی سے آنکھیں بند کر لیں تو یقین کریں یہ بالکل انصاف کے منافی طرزِ عمل ہے۔

عموماً کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو کچھ بنیادی صلاحیتیں، فطری رجحانات، کسی حد تک سازگار ماحول، کام کے لیے ضروری گنجائش، مطلوبہ وسائل سمیت ایک مخلص اور باصلاحیت ٹیم ہاتھ لگے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا وسائل غیر مربوط ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ غیر معمولی خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں جو کہ منتشر اسباب کو یکجا کر کے وہ ماحول اور مواقع پیدا کریں جو کہ قومی سطح پر بڑی کامیابیوں تک لے جائیں۔ ملک ریاض حسین وہ فرد ہے جو خدا داد صلاحیتوں سے کام لے معمولی حیثیت سے غیر معمولی کامیابی تک جا پہنچے اور خود کو تعمیراتی شعبے میں غیر معمولی شخصیت کے طور پر منوا کر دم لیا۔ کم از کم پاکستان میں مجھے ان کے پائے کا کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا۔ بہت سارے لوگوں سے ہم نے سنا ہے کہ میں یہ کام کر دیتا لیکن فلاں وجہ سے نہ ہو سکا، میں وہ کامیابی پا لیتا لیکن فلاں وجہ راستے میں حائل ہوئی، یوں وہ اپنی ناکامی کی ذمہ داری کسی نہ کسی "وجہ” پر ڈال کر کنارے بیٹھ جاتے ہیں اور یوں کوئی غیر معمولی کامیابی پانے کی بجائے معمولی زندگی گزار کر مہلت زندگی کے اختتام پر اگلے جہاں سدھار جاتے ہیں۔

ملک ریاض حسین نے ایک موقع پر اپنے مقصد کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں صرف گھر بنا کر نہیں دیتا بلکہ ایک پورا رہائشی پیکج دیتا ہوں کہ جہاں رہنے والوں کو تمام بنیادی سہولیات، اعلی معیار زندگی، تحفظ، آسائش اور خوشی میسر آئیں”۔ یہی وجہ ہے کہ بحریہ ٹاؤنز معیاری تعلیمی اداروں، جدید ترین ہاسپٹلز، خوبصورت مساجد، چمکتی دمکتی سڑکوں، پر رونق مارکیٹس، اعلیٰ پائے کے ریسٹورینٹس اور ہوٹلز، مسحورکن تفریحی مقامات، سرسبز و شاداب پارکس اور رنگ برنگ چڑیا گھروں، سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات، ناگہانی آفات کی صورت میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ہیوی مشینری اور آلات جنہیں آسانی اور سہولت سے متاثرہ جگہوں پر منتقل کیا جا سکتا ہیں جیسی وسائل سے خوب مالامال ہیں۔ مجھے متعدد مرتبہ بحریہ ٹاؤنز جانے کا موقع ملا ہے وہاں داخل ہو کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا پاکستان سے باہر آگیا ہوں۔

ملک ریاض حسین کے کام اور معیار کو دیکھ کر نہ صرف قومی سطح پر مسلسل تعریف ہو رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اعتراف کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ کاروباری اعتبار سے قابلِ رشک کامیابیاں اپنے نام کرنے کے باوجود عام لوگوں کے بارے میں ان کا جذبہ، احساس اور ہمدردی حسب دستور قائم و دائم ہیں ان کے سماجی اور فلاحی خدمات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے ان کے ملازمین کا ذکر کر رہے ہیں اس وقت بحریہ ٹاؤنز میں چالیس سے پچاس ہزار کے قریب ملازمین کام کر رہے ہیں۔ یہ سارے خوشحالی کے مواقع، عزت نفس کا احساس اور معقول معاوضے پا کر باوقار زندگی بسر کر رہے ہیں مجھے ذاتی طور پر تین ایسے لوگ معلوم ہیں جو بحریہ ٹاؤن کے ملازم ہیں وہ سارے اپنے کام، ماحول، معاوضے اور ملنے والی سہولیات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ وہ ملک ریاض حسین کی ہمدردی، انکساری، بصیرت اور مہارت کے خوب معترف ہیں۔

ہزارہ سے تعلق رکھنے والا ہمارا ایک دوست وہاں پہ پیش امام اور خطیب ہے ان کو ملنے والی سہولیات گریڈ 18 کے افسروں سے کسی طرح کم نہیں۔ میرا ایک اور جاننے والا جو سی ڈی اے کا ملازم ہے اور ساتھ ہی ساتھ بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی سے متعلق کام کر رہا ہے وہ بحریہ ٹاؤن کے کام سے زیادہ خوش اور اس کے لیے زیادہ پر جوش دکھائی دے رہا ہے ایک اور نوجوان جو میرا پڑوسی اور بحریہ ٹاؤن کا ملازم ہے گپ شپ کے دوران ہمیشہ کہتا ہے "ایک باوقار اور خوشحال زندگی کے امکانات بحریہ ٹاؤن کی ملازمت میں جتنے زیادہ ہیں شاہد ہی کسی اور جگہ ہو”۔ ملک میں اکثر ملازمین ہمیشہ اپنے اداروں کے حوالے سے شاکی پائے جاتے ہیں یہ اعزاز بحریہ ٹاؤن کو حاصل ہے کہ جہاں کے ملازم تکے ہارے، شاکی، مایوس، تنگ دست اور اپنے ہی اعلیٰ افسران کو گالیاں دینے والے نہیں بلکہ اپنے کام، معاوضے اور باس سے بدرجہ اتم مطمئن دکھائے دیتے ہیں۔

اب کچھ تذکرہ کرتے ہیں ان اقدامات کا جو انہوں نے معاشرے کے فلاح و بہبود اور غریب طبقے کے لیے اٹھائے ہیں۔ معاشرے کا سب سے بڑا بوجھ اس کا غریب طبقہ ہوتا ہے جبکہ غریب کا سب سے بڑا اور ازلی و ابدی مسئلہ بھوک۔ تیسری دنیا میں ایک غریب زندگی بھر صرف اور صرف بھوک سے لڑتا رہتا ہے۔ ایک غریب کی سوچوں، دوڑ دھوپ، محنت مشقت اور صبح و شام کا مرکز و محور صرف اور صرف پیٹ ہوتا ہے اور وہ اس سے آگے بہت کم سوچتا ہے۔ ملک ریاض حسین نے ملک بھر میں "بحریہ دسترخوان” کے نام سے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا جس پہ روزانہ ہزاروں لوگ باعزت طور پر پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں۔ غریبوں کو کھلانے پلانے کا رواج ماشاءاللہ ہمارے معاشرے میں کافی پرانا اور توانا ہے لیکن جس معیار اور ماحول میں یہ خدمت بحریہ دسترخوان پر انجام پاتی ہے اس کی مثال کمیاب ہے۔ عزت، سہولت، لذت اور ضرورت کا لحاظ رکھ کر غریبوں کو کھلانے پلانے کا اہتمام بلاشبہ وہ بھاری نیکی ہے کہ جس کے خالق و مخلوق یکساں طور پر قدر دان ہیں۔ غریب طبقے کا دوسرا بہت بڑا مسئلہ علاج معالجے کی سہولت ہے ملک ریاض حسین نے ملک بھر میں بے شمار غریب نوجوانوں، مرد و خواتین اور بچوں بچیوں کا بالکل مفت اور بہترین علاج کروایا ہے۔ پاکستان ایسے ملک میں اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے ہسپتالوں میں بین الاقوامی معیار کے علاج معالجے کی سہولیات بھی فاراوانی سے دستیاب ہیں۔ غریب طبقے کا تیسرا بہت اہم مسئلہ معیاری تعلیم سے محرومی ہے۔ ملک ریاض حسین نے تعلیمی سیکٹر میں بھی خصوصی اسکالرشپس کا نظام رائج کر کے قومی فلاح و بہبود کے اجتماعی عمل میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ مستحق اور لائق طلبہ کو نہ صرف ملک میں اچھی تعلیم دلا رہے ہیں بلکہ اسکالرشپس کے ذریعے ملک سے باہر بھی حصول تعلیم کے غرض بھیجے جا رہے ہیں۔ یہ ان کے ان مخلصانہ خدمات اور اقدامات کے چند جھلک ہیں جو وہ بظاہر غریبوں کے لیے لیکن حقیقت میں پوری قوم کے لیے انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی اثرات سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال قدرتی آفات سے بے شمار سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں ایسے مواقع پر متاثرین کی بحالی بھی ملک ریاض حسین اور بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کا ایک مستقل وظیفہ ہے جس میں کبھی بھی تعطل نہیں آتا۔ زلزلے ہو، سیلاب ہو، فوجی آپریشنز کے متاثرین ہو، دنیا میں کہیں بھی بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغواء شدہ بے بس لوگ ہو، ترپارکر سمیت سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قحط اور بھوک پیاس کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کا سانحہ ہو یا کچھ اور ہر وقت اور مقام پر صدموں سے دو چار شہریوں کے لیے ملک ریاض حسین کا دست شفقت خودکار نظام کے تحت پہنچتا ہے۔

"میرے نزدیک کامیابی نام ہے خام حالت میں موجود امکانات کو کیمیائی تعامل (منصوبہ بندی، نفع رسانی، عقل، عمل، محنت اور مستقل مزاجی کی آمیزش) سے گزار کر کوئی کارامد چیز بنانا” ہے۔ گرد و پیش میں مختلف اور منتشر ٹکڑوں میں موجود خام مواد کو باہم جوڑنے کے لیے مطلوبہ ذہانت، ہمت، حوصلہ اور صلاحیت کار بہم پہنچانا غیر معمولی خوبی ہے یہ خوبی ملک ریاض حسین میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ زمین اور سرمائے کی فراہمی، نقشوں اور خاکوں تک رسائی، ایک منجمد سرکاری نظام سے اپنے فائلوں کو برق رفتاری سے گزارنا، ایک ایسے ماحول میں جہاں پہ پراپرٹی اور تعمیرات کا کاروبار مکمل طور پر جھوٹ، فراڈ، فائلوں اور جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں چلا گیا تھا اس کو وہاں سے بازیاب کرا کے عام لوگوں کے دسترس میں لے آنا اور عوام کا اعتماد اس کاروبار پر بحال کرنا، لوگوں کو کام اور اعتماد دونوں دینا، رہائشی معیار کو اٹھانا اور تمام ضروری سہولتوں کو یقینی بنانا، دولت اور شہرت کے بام عروج پر پہنچنے کے باوجود عاجزی اور انکساری سے مالامال ہونا، کاروباری اور فلاحی منصوبوں میں یکساں دلچسپی لے لینا، مشکلات کے وقت مایوس یا پریشان ہونے کے بجائے اپنی قوتِ برداشت کو بڑھانا، اس تمام تر ساز و سامان کے درمیان مکمل طور پر ہوش و حواس میں رہنا جو دوسرے لوگوں کو بہت جلدی میں مدہوش کر دینے والا ہو یہ اور اس طرح کی دوسری بے شمار خوبیاں مل کر ملک ریاض حسین کو ایک کامیاب، دلچسپ، منفرد، موثر اور کار آمد شخصیت کے طور پر نمایاں کر رہی ہیں۔

میں اکثر دوستوں کی محفلوں میں یہ بات دہراتا رہتا ہوں کہ معاشرے میں بے شمار اچھے، سچے، میٹھے، کھرے اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں اور سب کے سب اپنے اپنے اہداف اور مقاصد کے تحت کام کر رہے ہیں لیکن لوگوں کا معاملہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ اکثر ان کے ذہنوں میں ہی رہ جاتے ہیں وہ زمین پہ نہیں آ پاتے۔ بہت کم لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ زمین پر سب کو نظر آئیں۔ ملک ریاض حسین دوسری قسم کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک لائق و فائق کامیاب اور موثر انسان ہے۔ میرے ذہن میں کامیابی کا جو خاکہ نصب ہے اس کے مطابق ملک ریاض حسین کامیاب لوگوں میں شمار ہے اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ صاف نظر آتا ہے، دوسرا وہ جو کچھ پانا چاہتا ہے سب ہاتھ میں رکھتا ہے تیسرا وہ جو کام کر رہا ہے اس کے نتائج اور ثمرات برسرِ زمین موجود ہوتے ہیں۔

ہر کار آمد شخص کی طرح ملک ریاض حسین بھی تنقید اور تعریف کے بالکل درمیانی مقام پر رہتا ہے ان پر تنقید بھی مسلسل ہو رہی ہے اور ان کے کام کا اعتراف بھی چار دانگ عالم میں ہو رہا ہے۔ تنقید کرنے والوں کے پاس زیادہ تر رٹے رٹائے الزامات اور ہواؤں میں اڑنے والے افواہوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا (میں قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ ملک ریاض حسین کے معاملات شفاف ہیں یقیناً مسائل ہیں، مسائل کے متاثرین بھی ہیں اور قانون کے جو کاروائی بنتی ہے اس سے بھی بالکل انکار نہیں لیکن ان چیزوں میں مبالغہ آرائی بہت ہے) اور اگر کچھ ہے تو بہت کم جبکہ اعتراف کرنے والے اس کے کام اور کامیابیوں کو شمار کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ ففٹی ففٹی کے حساب سے چل رہا ہے لیکن ملک ریاض حسین کا اپنا معاملہ بالکل الگ تھلگ ہے انہیں تنقید کی پرواہ ہے نہ اعتراف اور ستائش کی بھوک۔ وہ بس اپنے کام میں اپنی پوری ہستی سمیت مگن ہیں اور گمان غالب ہے کہ زندگی کے آخری لمحے تک اپنے کام میں مصروف عمل رہیں گے۔ ان کے کام کے اعتراف میں انہیں اب تک بے شمار ایوارڈز ملے ہیں جن میں زیادہ نمایاں ’ایشیاء پیسیفک انٹرنیشنل پراپرٹی ایوارڈ‘اور ’سرو ٹو ہیومینیٹی‘شامل ہیں۔ میرا یقین ہے بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ صرف اعمال کے بارے میں ہی حساب کتاب نہیں لے گا بلکہ انسانوں کو عطا کردہ صلاحیتوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ ہر فرد کو سوچنا چاہیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کن صلاحیتوں سے سرفراز کیا ہے اور اس نے ان کا کیا اور کہاں استعمال یقینی بنایا ہے؟۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر کامیاب افراد بوجوہ بدنام اور بے کار افراد نیک نام گردانے جاتے ہیں۔ جو کچھ نہیں کرتا یا کچھ بھی نہیں کر سکتا تو اس کو ہم ’اچھا‘ سمجھتے ہیں اور کوئی ہمت کر کے کچھ کر گزرنا چاہے تو اس کو طرح طرح سے بدنام کیا جاتا ہے۔ ہمارے بخیل نفسیات نے آج تک کسی کی کامیابی اور کنٹری بیوشن کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا۔ ملک ریاض حسین بلاشبہ ایک کامیاب، تجربہ کار، باصلاحیت اور ویرانوں کو بسانے کے عزم سے مالامال انسان ہیں لیکن بدقسمتی سے بدنام بھی بہت ہیں۔ قسم قسم کے افسانوی واقعات ان کے بارے میں مشہور کئے گئے ہیں سب سے بڑی بات یہ مشہور ہوگئی ہے کہ ’اس نے ہزاروں لوگوں کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے‘ ایسا کہنا آسان لیکن کرنا شائد ممکن نہیں۔ کیا وہ ہزاروں لوگ پتھر یا درخت بن گئے تھے کہ ان کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا تھا اور وہ کچھ نہ کر سکیں یہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ اگر سچ ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس ملک کا پورا سیاسی، عدالتی، انتظامی، دفتری اور اخلاقی ڈھانچہ بھی کرپٹ اور بے ایمان ہے لیکن ان سب پر خاموش رہ کر صرف ملک ریاض حسین کو زمینوں پر قبضے والا سمجھنا منافقت ہے، پروپیگنڈا ہے اور ان کی کاروباری کامیابیوں سے خلش میں مبتلا ہونے والے عناصر کے قصے کہانیاں ہیں۔

ملک ریاض حسین حقیقت میں نہ صرف پر رونق بستیاں بسا کر رہائشی معیار کو بلند تر کر رہے ہیں بلکہ تعلیم، صحت، روزگار اور تفریح کے مواقع پیدا کرکے ایک خوشحال، باوقار اور مستحکم پاکستان تعمیر کرنے میں اپنا حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے، گرد آلود، گندے، غیر معیاری اور غیر محفوظ انسانی آبادیوں میں اگر کوئی ہمت کر کے صاف ستھرے، محفوظ، پرآسائش، معیاری اور منظم بستیاں بسالیں تو حوصلہ آفزائی کرنی چاہیے نہ کہ بے جا تنقید اور افواہ سازی۔

اب ہم آتے ہیں اسی مسئلے کے ایک اور پہلو کی طرف، عمران خان نے 2018 کے انتخابات میں نہ صرف چند بڑے قومی مسائل پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی بلکہ قوم نے حل کے آس میں ان کو اپنی بھر پور حمایت سے  سرفراز بھی کیا مثلاً کرپشن، منی لانڈرنگ، خفیہ اثاثے، تعلیم اور صحت کے لیے مہیا سہولیات کی ناگفتہ بہ حالت اور بے روزگاری وغیرہ۔ انہوں نے جن بڑے مسائل کو بار بار اجاگر کیا، ان میں ایک رہائش کا مسئلہ بھی تھا۔ انہوں نے انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل اپنا بنیادی ایجنڈہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اقتدار میں آکر پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کریں گے‘۔ حقیقت یہ ہے کہ رہائش کا مسئلہ واقعی وطن عزیز میں عرصہ دراز سے تکلیف دہ اور حل طلب ہے۔ لاکھوں خاندان رہائش جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں جبکہ کروڑوں خاندانوں کے رہائش ضرورت کے مطابق، معیاری، صاف ستھرا، محفوظ اور پرسکون نہیں۔

رہائش قوموں کے مجموعی حالات، معیار زندگی، ترقی و خوشحالی، ذوق و مزاج اور تہذیب و تمدن کا سب سے نمایاں علامت ہوتی ہے۔ رہائشی شعبے سے نہ صرف عوام کو لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع میسر آسکتے ہیں بلکہ یہ مجموعی اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے بھی ایک بڑا میدان فراہم کر رہا ہے۔ رہائش کے مسئلے کو حل کرنے اور رہائشی معیار کو بلند تر کرنے کیلیے حکومت کو چاہیے کہ ملک ریاض حسین جیسے لوگوں، بنکوں اور ضرورت مندوں کو ملا کر ایک موثر پروگرام تشکیل دیں تو یہ مسئلہ 100 فیصد آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ ملک میں بے شمار زمینں بےکار، بنکوں میں بڑا سرمایہ غیر مستعمل، بڑی تعداد میں ضرورت مند لوگوں کی پریشانی اوپر سے ملک ریاض حسین جیسے زیرک، ماہر اور کامیاب لوگ بھی موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں نیب اور عدالتوں کے ذریعے پریشان کرنے کے بجائے کام کا موقع دیا جائے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ قومی مسائل میں کمی آئے۔ عدالتیں اور ادارے سب سے پہلے خود کو درست کریں تاکہ جو بھی غلط کام ہو رہے ہوں ان کا سدّباب بروقت ہو۔

حکومت ان تمام امکانات کو بروئے کار لاکر قوم کے دیرینہ اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کی طرف اگر اخلاص اور منصوبہ بندی سے قدم بڑھائے گی تو اللہ تعالی ضرور مدد اور نصرت فرمائے گا۔ خوشحال دنیا کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی مذکورہ بالا چار فریق (حکومت، بینک، سرمایہ کار اور ضرورت مندوں) کے تعامل سے رہائش کا مسئلہ کئی عشرے پہلے حل ہوا ہے۔ قوم کی بنیادی ضروریات اگر ہموار انداز میں پوری ہو تو بعید نہیں کہ ہمارا ذہن بھی ’تسخیر کائنات‘یعنی علمی اور سائنسی دائروں کی جانب شفٹ ہو جائے یوں ہم بھی قدرت کے خزانوں میں موجود امکانات کی جانب متوجہ ہو، ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں جگہ پانے میں کامیاب ہو۔ بدقسمتی ہے کہ یہاں اکثر کامیاب اور کار امد افراد بوجوہ بدنام ہیں۔ ملک ریاض حسین بھی ان میں سے ایک ہیں، میرا خیال ہے کہ سسٹم میں وہ جان ہونی چاہیے کہ کسی بھی فرد کی صلاحیت سے بروقت فائدہ اٹھانے پر قادر ہو اور یہ کہ کسی بھی فرد کو جرم کرتے وقت خود بخود پکڑ لیں۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان کمی کوتاہی سے ماورا مخلوق نہیں لیکن اگر کسی میں کوئی صلاحیت موجود ہو تو کمی کوتاہی کے باوجود اس سے استفادے کی خوبی دستیاب ہونی چاہیے۔ سسٹم میں ایسا فیلٹریشن پلانٹ نصب ہونا چاہیے کہ کوئی بھی جرم، قبضہ یا دھوکہ کر کے نکل نہ جائے بلکہ فوراً پکڑ میں آ جائے۔

ہم میں آخر کب لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا؟

ہم کب اپنے نفسیاتی بخل پر قابو پائیں گے؟

ہم کب اپنے انسانی وسائل کی قدر کریں گے؟

ہم آخر کب تک اپنے بنیادی مسائل کی منہ دیکھتے رہیں گے؟

ہم کب تک حقائق اور افواہوں کو باہم خلط ملط کر کے بندگان خدا کی ناقدری کے مرتکب رہیں گے؟

ہم پر آخر کب وہ وقت آئے گا؟

جہاں ہم سب مل کر وہ نظام تشکیل دے دیں کہ جس میں رہ کر صالحیت اور صلاحیت جیسے جوہری اوصاف باہم بغلگیر ہو۔

جہاں سب ذہن، ہاتھ اور زبان مربوط انداز سے ایک دوسرے کی تکمیل، تحسین اور توصیف میں لگے ہو۔

جہاں سب ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہو۔

جہاں سب بظاہر اپنے اپنے کاموں میں منہمک لیکن حقیقت میں ایک دوسرے کے کام بنانے اور سنوارنے میں لگے ہوئے ہو۔

 اللہ ہم پر رحم کریں۔ اللہ ہمارے دلوں اور نیتوں کو ایک دوسرے کے لیے صاف کریں۔ اللہ ہم سب کو ایک دوسرے کا سچا خیر خواہ اور ہمدرد بنا دیں۔ ایسا ہوا تو یقین کریں ہمارا معاشرہ بھی چمک جائے گا، ہم بھی پسماندگی کے اندھیروں سے خوشحالی کے اجالوں کی جانب پیش رفت شروع کر دیں گے، ایسا ہوا تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے اپنے گونا گوں مسائل پر قابو پالیں گے، ہم خیر، خوشی اور بہتری کے ذائقوں سے حقیقی طور پر آشنا ہو جائیں گے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے