گردش، سید عنایت اللہ جان

خواتین کے لیے تعلیم کس قدر ضروری ہوچکی ہے؟

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

چند روز قبل اسلام آباد میں تعلیم پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں دنیا بھر سے بڑی تعداد میں مندوبین نے شرکت کی۔ شرکاء میں نوبل امن انعام پانے والی ملالہ یوسف زئی بھی شامل تھیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں افغان طالبان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ’آپ نے چند برس سے بچیوں کے لیے تعلیم کا حق دبا رکھا ہے‘۔ یاد رہے مذکورہ کانفرنس میں طالبان نے اپنا نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔

معروضی حالات کے پیش نظر، تعلیم کے عمل پر مختلف لوگوں اور معاشروں میں نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ممکن اور بجا ہے لیکن بطور انسان کسی کے لیے بھی، تعلیم کا بطورِ ایک حق تسلیم کرنے سے انکار ممکن نہیں۔

تعلیم انسانی شعور کو اجاگر کرنے، صلاحیتوں کو نکھارنے، جذبوں کو ابھارنے، صحت مندانہ تعلقات نبھانے اور سماج میں ایک قابل قبول سلوک اپنانے کے قابل بناتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ فرد کے دماغ فعال، اخلاق اچھے، کام کرنے کی صلاحیت بہتر، نظر تیز، احساس بیدار اور قوت ادراک توانا ہوتی ہے۔ تعلیم سے کام کرنے، حقائق سوچنے، معاملات چلانے اور بہترین انداز میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے جیسی خوبیاں پروان چڑھتی ہیں۔ پوری دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں وہی ممالک ہی ترقی یافتہ، خوشحال، محفوظ اور مضبوط ہوں گے جو تعلیم میں آگے رہیں اور جو پیچھے رہ جائیں وہاں کے حال احوال بالکل الٹ قسم کے ہوتے ہیں۔

تعلیم سے افراد شعور یافتہ، ذمہ دار اور بہترین انداز میں اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ یوں انہی خوبیوں کی بدولت پورے پورے معاشرے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تعلیم مرد ہو یا پھر عورت سب کے لیے یکساں لازمی اور بطور ایک حق تسلیم شدہ حقیقت ہے تاہم مختلف وجوہ سے، دنیا کے بہت سارے حصوں میں، خواتین کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم انسانی اور سماجی مسئلہ ہے جس کے اثرات افراد اور معاشرے دونوں پر یکساں پڑتے ہیں۔

زندگی کے لیے تعلیم اس قدر اہم ہے کہ یہ انفرادی طور پر ایک فرض، اجتماعی طور پر ایک حق، سماجی طور پر ایک مقصد اور عالمی سطح پر بطور ایک معیار تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ دو چار بنیادی حقوق جن سے کسی بھی فرد کو، کسی بھی حالت میں محروم نہیں کیا جا سکتا ان میں سے ایک حق تعلیم کا ہے یعنی تعلیم کہیں بھی مشروط نہیں، محدود نہیں، مفقود نہیں، ممنوع نہیں۔ یہ ہر جگہ سب کے لیے دستیاب ہونا لازم ہے اور ہر سطح پر سب کے دسترس میں ہونا بھی لازم ہے۔

تعلیم کے معاملے میں سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ کہ تعلیم کے حوالے سے صنفی امتیاز کا صفایا کیا جائے کیونکہ بعض معاشروں میں بدقسمتی سے تعلیم کے معاملے کو صنفی امتیاز کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ دنیا میں آج بھی ایسے معاشرے پائے جاتے ہیں جہاں لڑکیوں کے لئے تعلیم غیر ضروری بلکہ ضرر ناک خیال کیا جاتا ہے، یہ سراسر ایک غلط سوچ ہے۔ خواتین کی تعلیم ایک اہم انسانی مقصد ہے اور اس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔  ہر بچے کو، اس کی صنفی اختلاف سے قطع نظر، ایک ایسی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے جو کہ اسے اس قابل بنائے کہ وہ اپنی مکمل صلاحیتوں کو فعال کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ خواتین کی تعلیم تک رسائی سے انکار کر کے، بعض معاشرے اس بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور صنفی امتیاز کی علت کو گویا دوام بخش رہے ہیں۔

یہ بات سوچنے کی ہے کہ جب خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی تو انہیں نہ صرف معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ بہت سارے شعبہ ہائے حیات میں بحران پیدا ہوگا۔ تعلیم خواتین کو خوشحال، ذمہ دار اور باصلاحیت بناتی ہے اور انہیں مختلف مواقع اور مقامات پر اپنی خدمات انجام دینے کی بہتر مہارت اور علم فراہم کرتی ہے۔ نتیجے میں، یہ غربت، جہالت، شقاوت اور حقارت کے گول دائروں کو توڑنے اور معاشرے کے مجموعی فلاح و بہبود کے عمل میں برابر کے حصہ دار بنتی ہیں۔

تعلیم یافتہ مائیں، تعلیم یافتہ نسلوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ ماؤں کے صحت مند بچے پیدا ہونے کا امکان کہیں زیادہ ہوتا ہے جو کہ آگے چل کر زندگی میں زیادہ بہتر انداز سے پھلنے پھولنے اور کامیاب ہونے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں اور وسائل سے بخوبی لیس ہوتے ہیں۔ مزید برآں، لڑکیوں کو تعلیم دینے سے بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے اور سماج میں تعلیم، صحت، سکون اور استحکام کا ماحول بننے میں مدد ملتی ہے۔

 تعلیم کے ساتھ انسان کا تعلق کئی اعتبارات سے بہت زیادہ اہم ہے مثلاً صحت، خوشحالی، تہذیب و شائستگی اور معاشرے کو ایک زیادہ کار آمد افرادی قوت کی دستیابی وغیرہ۔ اس کے علاؤہ علاوہ خواتین کی تعلیم کا سماجی، اخلاقی اور سیاسی ترقی پر بھی کافی گہرا اثر پڑتا ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین زیادہ باخبر، زیادہ باشعور، زیادہ فعال اور زیادہ مہذب ہوتی ہیں جس کا نتیجہ ایک فلاحی معاشرے کے قیام کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے خواتین اپنے حقوق کا تحفظ اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی زیادہ بہتر انداز میں کر سکتی ہیں، جس سے نتیجتاً ایک زیادہ خوشحال، مطمئن اور محفوظ معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے۔

تعلیم بے شمار فوائد رکھنے کے باوجود، بہت سارے معاشروں میں خواتین کی تعلیم کو قبول نہیں کیا جاتا اور وہاں خواتین کے تعلیم کے حوالے سے لوگ زیادہ پرجوش اور حساس نہیں ہوتے۔ اس صورتحال کی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں مثلاً مخصوص ثقافتی اور سماجی حالات، امن و امان کی مخدوش حالت، بے پردگی کے خدشات اور سماجی اقدار سے روگردانی کا خوف وغیرہ لیکن ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ تعلیم کے معاملے میں مختلف معاشروں کے مخصوص حال احوال کا کما حقہ ادراک کیا جائے اور وہ تمام جائز خدشات کا ازالہ کرنے کی گنجائش بہر صورت باقی رہے اور ہاں تعلیم کے لیے کسی ایک نظام پر اصرار کے بجائے ہر معاشرے کو مخصوص حالات کے اندر رہتے ہوئے اپنے بنیادی عقائد، سماجی اقدار اور ثقافتی تناظر کے مطابق ڈھالنے کا حق دیا جائے۔ کچھ معاشروں میں، خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے انہیں تعلیم کے یکساں مواقع میسر نہیں آتے۔ بعض علاقوں میں، خاندان اپنے بیٹوں کی تعلیم کو بیٹیوں کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں، یہ نہ صرف ایک افسوسناک رجحان ہے بلکہ یہ رویہ باقاعدہ صنفی امتیاز کا موجب بھی ہے۔

غربت اور پسماندگی کی صورتحال خواتین کی تعلیم تک رسائی میں ایک مشکل ترین رکاوٹ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بہت سارے خاندانوں کے پاس اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے کے وسائل نہ ہوں، یا یہ بھی ممکن کہ لڑکیوں کو اپنے خاندانوں کی مالی مدد کرنے کے لیے سکول چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس صورتحال سے غربت اور پسماندگی کا ایک ایسا منحوس دائرے پیدا ہوتے ہے جو کہ صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ پورے پورے معاشروں کو بھی آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ ایسے دائروں سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے رہنما اور پالیسی ساز بھی خواتین کی تعلیم میں کوئی خاص کردار نہیں کرتے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور وسائل میں سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ یہ صورتحال تعلیم کی پسماندگی کو برقرار رکھتی ہے اور انہیں ان مواقع سے محروم کرتا ہے جن کی انہیں کامیابی کے لیے درکار ہے۔

کوئی مانیں یا نہ مانیں، کوئی قبول کریں یا نہ کریں خواتین کی تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کے خاندانوں اور معاشروں دونوں کو یکساں ضرورت ہے مزید برآں انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے فوائد ناقابلِ تصور ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، تو وہ صحت مند، مطمئن اور کار آمد ہوتی ہیں اور اس قابل زیادہ ہوتی ہیں کہ اپنے خاندانوں اور معاشروں کے فلاح و بہبود میں زیادہ بہتر، نتیجہ خیز اور فعال کردار ادا کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین سے ہم ایک زیادہ صحت مند، مطمئن، پُرسکون اور خوشحال معاشرے کے قیام میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

2 پر “خواتین کے لیے تعلیم کس قدر ضروری ہوچکی ہے؟” جوابات

  1. حافظ نور اللہ Avatar
    حافظ نور اللہ

    بہترین تحریر معاشرے کے اہم مسئلہ اجاگر کیا ہے ۔۔۔۔۔

    1. سید عنایت اللہ جان Avatar
      سید عنایت اللہ جان

      بہت بہت شکریہ پیارے بھائی
      آپ کی حوصلہ افزائی میرے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے