امریکی-صدر-ڈونلڈ-ٹرمپ-اور-اسرائیلی-وزیراعظم-بنیامین-نیتن-یاہو

ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی اب کیا رُخ اختیار کرے گی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت اسرائیل نوازی کا بھرپور شاہکار تھا بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ وہ حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ  اسرائیل نواز صدر ثابت ہوئے تھے۔ بل کلنٹن، باراک  اوباما اور جوبائیڈن تینوں ہی کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم  بنیامین نیتن یاہو کو مسائل رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے ساتھ نہیں۔  پھر، اسرائیل کی  فرمائش پر ایران کے ساتھ  کیے گئے  معاہدے کے پرخچے  اُڑانا بھی ٹرمپ کی تاریخ تھی۔

امریکا کا  تل ابیب  سے سفارت خانہ  بھی بیت المقدس میں  ٹرمپ ہی نے منتقل کیا تھا اور اس  کو اسرائیل کا دائمی دارالحکومت قرار دیا تھا۔ حالیہ  انتخابات کی مہم کے دوران میں ایک تقریر میں ٹرمپ صاحب نے  اقتدار میں آنے کے  بعد دو اہم اقدامات کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ  کسی بھی ایسے غیر ملکی شخص کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہوگی جو  اسرائیل کے وجود کے حق کو  تسلیم  نہیں کرتا اور ملک میں پہلے سے موجود ایسے تمام غیر ملکی طلبا کو امریکا بدر کردیا جائے گا جو صہیون  مخالف خیالات  کے حامل ہیں، ان کے ویزے منسوخ کر دیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ حماس کے حامیوں، شام، لیبیا، صومالیہ اور یمن سمیت کسی بھی ایسے ملک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہوگی جو ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب  ہوں گے۔

انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والے  فلسطینیوں کے حامیوں کو گرفتار کیا جائے گا اور ان میں سے غیرملکیوں کو امریکا سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ ساتھ میں ایک نظم کا تڑکا بھی لگایا جس میں غیر ملکی تارکین وطن کو زہریلے سانپوں سے تشبیہ دی  تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیوں کر رہےہیں؟

انھوں نے  گزشتہ سال جولائی میں ریاست  مشی گن میں ایک جلسے سے  خطاب کرتے ہوئے اپنے اس  اعلان کو ان الفاظ میں دُہرایا: ’ عہدہ صدارت کا حلف اُٹھاتے ہی ہم تارکین وطن کی بے دخلی کا امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن کریں گے‘۔

اس بے دخلی کی مہم کا ہدف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ  پڑوسی  ملک میکسیکو کے ہسپانوی باشندے بھی ہوں گے۔

صدر ٹرمپ کی گزشتہ  چار سالہ  صدارت کے  جائزے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ  ماضی قریب ‏کے  کئی دوسرے صدور سے زیادہ اسرائیل پرست  ثابت ہوئے تھے۔ سابق  ڈیموکریٹک صدور ‏بل کلنٹن، باراک اوباما اور موجودہ صدر  جو بائیڈن  اپنی ٹرمپ عمومی اسرائیل نواز  پالیسی کے باوجود ‏کہیں نہ کہیں  صہیونی  ریاست کے ساتھ سینگ بھی پھنسا لیتے تھے۔ 

‎لیکن  ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ‏اسرائیل  سے مکمل و غیر مشروط تعاون کرنے والا امریکی صدر  کم ہی دیکھنے کو ملا۔ ان کے گزشتہ دور ‏حکومت میں مشرق  اوسط  کے معاملات دیکھنے کا ذمہ دار ان کا یہودی داماد جیراڈ کشنر تھا۔  یہی وہ شخص ‏تھا جس نے مشرق  اوسط کے ممالک‎  ‎بالخصوص سعودی عرب، بحرین اور  متحدہ عرب ‏امارات  کو  اسرائیل  سے تعلقات استوار کرنے کے لیے رضامند کیا اور موخر الذکر دو ممالک  نے ‏اسرائیل سے دوطرفہ سفارتی تعلقات  قائم کرلیے تھے  جبکہ سعودی عرب  نے نہیں کیے ۔

‏البتہ  سعودی ولی عہد  شہزادہ  محمد بن سلمان  کے بارے میں  یہ کہا جاتا ہے  کہ انھوں نے  تو ‏کشنر کی کمپنی میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔

پاکستان میں اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے بزنس پارٹنر کے نوجوان بیٹے علی جہانگیر کو  امریکا میں سفیر متعین کیا تھا۔ ان کے بعد 2019  میں سابق وزیراعظم   عمران  خان  نے بھی انھیں  ایمبیسڈر ایٹ لارج کی حیثیت سے امریکا میں صرف اس لیے متعین  رکھا کہ  کُشنر علی جہانگیر کا یونیورسٹی کا دوست تھا۔کشنر پاکستان و دیگر عرب ممالک کے کام تو نہیں آیا لیکن اس نے اسرائیل کے لیے مشرق  اوسط  میں قطر، عمان، متحدہ عرب امارات  اور  سعودی عرب کے دروازے کھول دیے ۔ بظاہر ان کی اگلی سرکار بھی اسی عمل کا تسلسل اور نامکمل کاموں کی تکمیل کی کوشش کرے گی۔

اس تناظر  میں ڈونالڈ   ٹرمپ   کا موجودہ روپ سابق  دورِ صدارت سے زیادہ  خطرناک اور غیر متوازن نظر آرہا ہے۔ اگر  وہ  اپنی بیان کردہ پالیسیوں پر عمل کرنا چاہتے  ہیں تو کم  سےکم نومبر 2026  تک انھیں  اس  کی کھُلی چھُٹی  ہوگی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے