تہذیب کسی بھی ملت کے مجموعی طرزِ زندگی کو کہا جاتا ہے یعنی ایک قوم کے ذہنی، علمی، سماجی، اخلاقی، مادی اور روحانی معیار اور اثاثہ کیا ہے؟ انسان نے اپنی طویل تاریخ میں بے شمار تہذیبوں کو وجود بخشا ہے اور پھر اپنے ہی ذہن اور ہاتھوں ان کا خاتمہ بھی کر بیٹھا ہے۔ تہذیبوں کا ارتقائی و اختتامی عمل دراصل اس حقیقت کی دلیل ہے کہ انسان اپنے فکر و عمل میں یکسر آزاد اور متحرک واقع ہوا ہے جبکہ اہلیت اور نااہلی کی حالتیں بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ آزادی اور حرکت کے اس عمل میں وہ لاتعداد تبدیلیوں، بہتریوں اور تباہیوں کے تجربات سے گزرتا ہے، آگے بڑھتا ہے اور ایک نئے تہذیبی سفر پر نکلتا ہے۔ اس سرکل کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو انسان کہیں کہیں آزاد ہے اور کہیں کہیں برابر طور پر پابند بھی۔ انسان کا تہذیبی وجود آزادی کا بھی متقاضی ہے اور عین برابر میں کسی حد تک پابندی کا بھی کیونکہ بعض انسانی مصالح آزادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں تو عین اسی طرح کچھ بنیادی چیزیں پابندی کے ساتھ بھی۔
تہذیبوں کی بنیادوں میں یوں تو بہت سارے فرق پائے جاتے ہیں لیکن اصولی فرق ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے ایک تہذیب کا حامل خدا ہونا یا پھر مخالف طور پر بے خدا ہونا۔ خدا پرستانہ تہذیب میں اخروی نجات کے خاطر جواب دہی کا احساس پایا جاتا ہے جبکہ بے خدا تہذیب میں دنیاوی راحت کے حصول کے لیے آزادی کا تصور، اسی نکتے سے تہذیبوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں اور یوں انسانوں کے طرزِ عمل بھی۔ تہذیبوں کے نمو و ارتقاء میں مذہب اور الحاد کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے۔ تہذیبوں کے میدان میں اصل مقابلہ مذہب اور الحاد کے درمیان برپا ہے یعنی اس پوری بساط کا ایک خالق ہے یا اس سب کچھ کے پیچھے محض ایک اتفاقی حادثہ کار فرما؟ پھر ایک اور مقابلہ جزوی طور پر مذاہب کے آپس میں بھی لگا رہتا ہے کہ کچھ مذاہب شرک کی طرف چلے جاتے ہیں اور کچھ توحید پر قائم رہتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں توحید کا نمائندہ مذہب اسلام ہے اور ہم اسلام کے نقطہ نظر سے ہی اس کی تہذیب کا ایک طائرانہ سا نظارہ کریں گے۔
ہر تہذیب کو اظہار کے لیے دو راہیں چاہیے ایک علم کی راہ اور دوسری کردار کی راہ یعنی ایک قوم سوچتی کیا ہے اور عملاً کرتی کیا ہے؟ سوچ کا حاصل حصول علم ہے اور عمل کا حاصل حصول کردار۔ انسان نے مختلف علوم و فنون اور کردار و اخلاق سے طرح طرح کی تہذیبوں کے وجود و ارتقاء میں کام لیا ہے جبکہ مختلف تہذیبی دھاروں کی مدد سے، اس نے نوع بہ نوع علوم و کردار کو نمایاں کرنے میں۔ آئیے اسلامی تہذیب کا ایک طائرانہ سا نظارہ کر رہے ہیں۔
اسلامی تہذیب، جو تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پر محیط ہے اور اسپین سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک ایک وسیع و عریض جغرافیائی علاقے پر پھیلی ہے (سپین کی حد تک، تاریخی تناظر میں، کیونکہ ابھی تو کچھ ہی ثقافتی نقوش کے علاوہ، کچھ بھی باقی نہیں ہے) انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ بااثر اور متحرک تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اسلامی تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں مختلف ممتاز خصوصیات نے اس کے متنوع ثقافتی، فکری، اخلاقی، مادی اور فنی ورثے کو محفوظ بنایا ہیں۔ عملی طور پر ہر تہذیب کی طرح اسلامی تہذیب بھی چار پانچ چیزوں پر فوکس کر رہی ہے یعنی کلام، طعام، لباس، طرزِ رہائش اور طرزِ اظہار مثلاً غم و خوشی منانے کے مختلف انداز۔ کلام میں اسلام کا اصل زور سچائی و نرمی پر، طعام میں حلال و طیب پر، لباس میں ساتر و باوقار ہونے پر اور طرزِ رہائش میں سادگی و پر سہولت ہونے پر دیتا ہے۔ اس طرح اخلاق میں اسلام کا بنیادی زور شفقت و احترام پر، سماج میں برابری و احساس پر، تعلقات میں خلوص اور محبت پر جبکہ اجتماعی نظام میں انصاف اور استحقاق پر رہتا ہے۔ تہذیبی رویوں میں خواتین کا لحاظ، بزرگوں کا احترام، بچوں پر شفقت اور جوانوں پر اعتماد لازم ہے۔ اسلامی تہذیب میں رشتوں کا تعین موجود ہے، ان کے حقوق مقرر ہیں، ان سے حسنِ سلوک مطلوب ہے اور ان کے مفاد اور توقعات دیکھنا عند اللہ ضروری ہے۔ اسلامی تہذیب جس مزاج، اخلاق، رویوں اور جذبات کو فروغ دیتی ہے اس کا خاص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد آزاد بننے کے بجائے ذمہ دار بنے، وہ لاتعلق بننے کے بجائے حصہ دار رہے، اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے چکر میں پڑنے کے بجائے اجتماعی مفادات کو عزیز رکھیں، فرائض اور حقوق میں کسی ایک جانب جھکنے کی بجائے متوازن رہے، وسائل کی پیداوار اور اخراجات کی ترتیب میں بخیلی سے کام لیں اور نہ ہی عیاشی سے بلکہ ہر موقع اور وقت پر اعتدال کا مظاہرہ کریں۔
ہر تہذیب کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ مظاہر بھی، اوپر بیان شدہ رویے اصولی ہیں جبکہ اب کچھ تذکرہ مظاہر کا بھی ہو جائے۔ اسلامی تہذیب کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک اس کا طرزِ تعمیر ہے۔ اسلامی فن تعمیر کی خصوصیت اس کے متنوع ہندسی نمونوں اور عربی خطاطی ہے، جو مساجد، محلات اور عوامی عمارتوں کی زینت بن رہی ہے۔ اسلامی فن تعمیر میں گنبدوں، میناروں، باغوں، حوضوں اور صحنوں کا استعمال ایک گہری علامتی اہمیت رکھتا ہے، جو آسمانی اور زمینی دائروں کو جوڑنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ مساجد کا ڈیزائن، خاص طور پر، قبلہ، مکہ کی سمت، اور نماز ہال کے ارد گرد مرکوز ہے، جہاں مسلمان پانچ وقت عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کی ایک اور نمایاں خصوصیت اس کی فنی روایات ہیں، جو خطاطی کی روشنی میں جدت اور روایت کے وسیع دائرے کا احاطہ کر رہی ہیں۔ اسلامی فن خطاطی ہندسی ڈیزائنوں اور پھولوں کی شکلوں کے استعمال کے لیے جانا جاتا ہے، جو اسلامی تصور میں کائنات کے اتحاد اور ہم آہنگی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ خطاطی، خاص طور پر، اسلامی فن میں ایک خاص مقام رکھتی ہے، کیونکہ تحریریں اسلام میں انتہائی قابل احترام سمجھی جاتی ہیں اور اکثر و بیشتر مساجد، دوسرے مقامات اور مختلف اشیاء کو سجانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
اسلامی تہذیب اپنی سائنسی کامیابیوں کے لیے بھی خاص شہرت رکھتی ہے، جس نے انسانی علم کی ترقی پر گہرا اور دیرپا اثر چھوڑا ہے۔ اسلام کے سنہری دور میں یعنی 8ویں صدی عیسوی سے 14ویں صدی عیسوی تک، مسلمان علماء نے فلکیات، ریاضی، طب اور فلسفہ جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔ اس طرح اسلامی تہذیب اپنے ثقافتی تنوع اور جامعیت کے لیے بھی مشہور ہے۔ اسلام کے کلیدی اصولوں میں سے ایک "تنوع میں اتحاد” کا نظریہ بھی ہے، جس کی عکاسی اسلامی شہروں اور معاشروں کے ڈیزائن میں ہوتی ہے، جہاں مساجد، بازار اور دوسرے عوامی مقامات، مختلف پس منظر اور عقائد رکھنے والے لوگوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ امت کا تصور، نسلی، لونی اور لسانی حدود سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کے مسلمانوں میں یکجہتی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس طرح اسلامی تہذیب کا سب سے پائیدار اثاثہ اس کا ادبی ورثہ ہے جس میں شاعری، فلسفہ اور تاریخ نویسی کے مختلف کام شامل ہیں۔ اسلامی مخطوطات کا ڈیزائن، ان کی خوبصورت خطاطی اور روشن دائروں کے ساتھ، مسلمان کاتبوں اور فنکاروں کی جمالیاتی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔ رومی، حافظ اور ابن عربی جیسے مسلم شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات ان کی گہری روحانی بصیرت اور اعلی شاعرانہ ذوق کے سبب حد درجہ قابل احترام ہیں، جب کہ مسلم فلسفیوں جیسے ابنِ سینا، ابنِ خلدون اور الفارابی نے مابعد الطبیعات، اخلاقیات اور الہیات کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں سائنسی ترقی کا آغاز اسلام کے سنہری دور سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ 8ویں صدی عیسوی سے 14ویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا تھا۔ اس دوران مسلمان علماء نے ریاضی، فلکیات، طب اور کیمسٹری سمیت سائنس کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مسلمانوں کی سائنسی خدمات میں ایک قابل ذکر پہلو ریاضی کا میدان ہے۔ مسلمان ریاضی دانوں نے الجبرا، جیومیٹری اور مثلثیات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس زمانے کے سب سے مشہور ریاضی دانوں میں سے ایک محمد بن موسی الخوارزمی شامل تھے، جنہیں عموماً الجبرا کا باپ کہا جاتا ہے۔ الجبرا پر الخوارزمی کے کام نے جدید الجبری اشارے اور طریقوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اس طرح اسلامی فلکیات نے بھی ترقی کی ہے، مسلمان علماء نے ستاروں، سیاروں اور دیگر آسمانی اجسام کے مطالعے میں بھی قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ مشہور مسلمان فلکیات دانوں میں سے ایک ابو الریحان البیرونی تھے جنہوں نے فلکیات اور ریاضی کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ زمین کے طواف اور مختلف آسمانی اجسام کے سائز کے تعین پر البیرونی کا کام اس وقت بہت اہم تھا۔ اس طرح طب کے میدان میں، اسلامی اسکالرز نے اناٹومی، فزیالوجی(علم الاعضاء)، اور فارماکولوجی(ادویہ سازی) کے مطالعے میں اہم پیش رفت کی ہیں۔ سب سے زیادہ بااثر مسلمان ڈاکٹروں میں سے ایک ابن سینا تھا۔ ابن سینا کی مشہور طبی درسی کتاب "کینن آف میڈیسن” صدیوں سے یورپ میں ایک معیاری طبی ماخذ کے طور پر پڑھی جاتی تھی اور اس نے طب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس طرح اسلامی اسکالرز نے کیمسٹری کے شعبے میں بھی اہم کامیابیاں اپنے نام کیے ہیں، مسلم کیمیا دانوں نے کشید کاری، سربلندی اور کرسٹلائزیشن (وضاحت و تعین) کے لیے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں۔ مشہور مسلم کیمیا دانوں میں سے ایک جابر بن حیان تھے، جنہیں اکثر کیمسٹری کا باپ کہا جاتا ہیں۔ جابر بن حیان کے کام نے جدید کیمیا کی بنیاد ڈالی ہے اور اس نے آگے چل کر کیمیا اور دھات کاری کے شعبوں میں اہم دریافتیں کیے ہیں۔
آٹھویں صدی سے چودھویں صدی تک مجموعی طور پر اسلام کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے اور اس دور میں قابل ذکر سائنسی اور تہذیبی ترقی ہوئی ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے مختلف سائنسی شعبوں میں اہم شراکتیں انجام دیں ہیں اور ان کے کام نے بہت سی مزید سائنسی ترقیوں کی بنیاد رکھی ہے جس کو آج بھی دنیا تسلیم کر رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ گزشتہ چار پانچ صدیاں اسلامی تاریخ کی ایسی گزری ہیں جن میں کوئی خاص سائنسی کام، کامیابی یا حصہ داری ہمیں نظر نہیں آ رہی۔ سائنسی علوم میں ترقی کے عمل کو بریک کیوں لگی؟ اس کے اسباب اور وجوہات پر امت کے سرکردہ شخصیات اور اداروں کو خوب سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف ہم اپنی ابادی کے برابر علوم کے ارتقائی عمل میں درست حصہ دار بنیں بلکہ اقوام عالم میں ایک باوقار مقام بھی پانے میں کامیاب ہو کیونکہ فی زمانہ فوقیت کے لیے علوم کے میدان میں نمایاں کردار شرط اول ہے۔
تبصرہ کریں