ڈونلڈ-ٹرمپ-امریکی-صدر

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا  بھاری مینڈیٹ ؛  بَنْدَر کے ہاتھ میں اُسْتُرا؟ ……….(1)‏

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

امریکی نظام کے تین بنیادی ستون ہیں؛ صدر(Executive)  ایوان نمائندگان اور سَینٹ  ( کانگریس ،مقننہ) اور   تیسرا ستون عدلیہ ہے ۔بالعموم صدر کی نکیل سنبھالنے کا کام مقننہ (کانگریس ) کرتی ہے۔  ان میں سے  ایک ایوان کا کنٹرول بالعموم اپوزیشن پارٹی کے پاس  ہوتا ہے۔ اس لیے صدر بھی بے پناہ اختیارات کے باوجود مطلق العنان بننے سے قاصر ہوتا ہے۔

کبھی  ایسا  ہوتا ہے کہ صدر اور کانگریس  کے دونوں ایوان ایک ہی جماعت کے پاس ہوتے ہیں ۔ماضی میں  ایسا  ہو چُکا ہے بلکہ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں قریباً  بائیس ماہ تک ان کے پاس  بھاری مینڈیٹ رہا تھا۔ موجودہ صورت حال میں صدر ٹرمپ نومبر 2026  تک   ہیوی مینڈیٹ سے مستفید ہوں گے۔ اس وقت تک  صدر، سینٹ اور  ایوان  نمائندگان  تینوں ستون ایک ہی پارٹی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ نومبر 2026  ء میں  امریکا میں وسط  مدتی  انتخابات ہوں گے ، ایوان نمائندگان،  سَینٹ اور 39  ریاستوں کے گورنروں کا انتخاب  ہوگا۔ امریکا میں  پاکستان  کی طرح بیک وقت  عام انتخابات نہیں ہوتے بلکہ ہمارے پارلیمان کے ایوان بالا  سینٹ کی طرح نصف ارکان برقرار رہتے ہیں اور نصف اپنی مدت پوری  کرنے کے بعد  ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ ان کی جگہ  وسط مدتی  انتخابات کے ذریعے نئے  ارکان  کا انتخاب ہوتا ہے اور وہ کانگریس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان انتحابات کے نتیجے میں صدر   ٹرمپ کی ری پبلکن  پارٹی  کے کسی ایک ایوان میں اکثریت ختم ہونے کا امکان  بھی ہوسکتا ہے  لیکن اس بارے میں  یقینی طور پر کچھ نہیں  کہا جاسکتاہے۔ فی الوقت  تو وہ  ایک  مطلق العنان صدر بنتے نظر آرہے ہیں   کہ روایتی چیک اینڈ بیلنس کا نظام بڑی حدتک ان کی گرفت میں ہوگا۔کسی بھی صدر کے لیے آخری رکاوٹ امریکی سپریم کورٹ ہوتی ہے  جس کے جج  صدر  ہی نامزد کرتا ہے  مگر  حتمی تقرر کے لیے  کانگریس یا سینٹ سے بھی منظوری لینا پڑتی ہے ۔ امریکی صدر  کسی جج کا تقرر اپنی جماعت کے حامیوں میں سے ہی کرتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2000 ءکے صدارتی  انتخابات میں جارج بش کی شکست کو ان کے والدبڑے بش  کے  مقرر شدہ ججوں نے کامیابی میں تبدیل کردیا تھا۔فی الوقت امریکی سپریم کورٹ  کے نو  ججوں میں سے  چھے  کا تعلق   تو  ری پبلکن  پارٹی  ہی سے  ہے۔ان میں سے تین کو   ڈونالڈ  ٹرمپ  نے اپنے سابقہ  دور میں مقرر کیا تھا اور صرف تین جج ہی  ڈیموکریٹ صدور  کے مقرر شدہ ہیں۔

عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ میں کون کون سی باتیں مشترک ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیوں کر رہےہیں؟

ٹرمپ دفتر میں سارا دن کیسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں، انوکھے انکشافات

امریکی سپریم کورٹ کے جج کا تقرر  تاحیات یا رضاکارانہ ریٹائرمنٹ تک کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے عدالتِ عظمیٰ  میں  صورت  حال کی تبدیلی مشکل ہے۔  اگر نئے  صدر کسی  نئے جج کو نامزد کرتے ہیں  تو اس کا تقرر  مقننہ کی منظوری سے مشروط ہے ۔ مقننہ پر صدارتی جماعت کے کنٹرول کی صورت میں کوئی بھی صدر بآسانی اپنی حسب مرضی نامزد جج کا تقرر منظور کرا سکتا ہے۔

کانگریس میں عدد ی اکثریت اور وائٹ ہاؤس  میں ٹرمپ کے  براجمان ہونے  کے بعد  امریکی طاقت کے سارے  ستون ایک ہی ہاتھ میں مرتکز ہو ں گے ۔اس کے عواقب و مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ  یہ کوئی نئی صورت حال نہیں ہوگی۔  اس  سےقبل چوبیس امریکی صدور اس  قسم کے ہیوی مینڈیٹ سے مستفید ہو چُکے ہیں   لیکن صدر ڈونلڈٹرمپ  کی شخصیت ، ان کے رجحانات  اور  رویوں کی وجہ سے ان کے طرز حکمرانی کا  بہ غور جائزہ  لینا ضروری ہے۔

تاہم، اہم  بات یہ ہے ، جس جماعت کا  کانگریس  اور سپریم کورٹ پر کنٹرول   ہو، اقتدار پراس  کی  مکمل گرفت  ہوتی ہے اور اس وجہ سے  بالعموم اداروں سے منسلک افراداسی  پارٹی  کے وضع کردہ رہ نما خطوط  کے مطابق ہی کام کرتے ہیں ۔ پھر امریکا میں کانگریس  کے ارکان   فلور کراسنگ  کے کسی قسم کے قانون کے پابند نہیں ہوتے ،  اس لیے  بدترین حالات  میں بھی  صدر کے نامناسب احکامات کی صورت میں  ایوان نمائندگان کے ارکان ہوں  یا سینیٹر  اپنے  پارلیمانی ووٹ کے ذریعے معاملہ سلجھا سکتے ہیں ، یہی معاملہ ججوں کا ہے۔

اس  مظہرکی ایک مثال  2021  ء میں  دیکھی جاچکی ہے۔جب  واشنگٹن  میں  امریکی  پارلیمان کے مرکز   کیپٹول  پر ٹرمپ کے حامیوں  نے ہلہ بول دیا تھا ۔ اس  کے بعد ایوان  نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے آئین کی پچیسویں ترمیم کے تحت  صدر ٹرمپ کو حکومت کرنے کا نااہل قرار دیے دیا تھا  اور باقی ماند ہ مدت (آخری دس دن) کے  لیے  نائب  صدر   مائیک پینس سے کہا تھا کہ وہ عہدہ صدارت سنبھال لیں  مگر  انھوں نے اس  فیصلے کو رد کردیا تھا۔ تاہم  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  نامساعد حالات میں بھی امریکی  نظام  کے پاس  معاملات   پٹڑی  سے اترنے کی صورت  میں  حل موجود ہے ۔

(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے