(ضیاء چترالی)
یہ دمشق کی تاریخی مسجد ’جامع توبہ‘ ہے۔ اس کی داستان بڑی عجیب ہے۔ شام کے مشہور ادیب شیخ علی طنطاویؒ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس مسجد کا نام ’جامع توبہ‘ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پہلے بے حیائی و منکرات کا مرکز تھا۔ اس جگہ کو خرید کر یہاں ایک مسجد تعمیر کرائی گئی۔
ایک طالب علم جو بہت زیادہ غریب اور عزت نفس میں مشہور تھا، وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں رہتا تھا اور یہیں اپنے شیخ کے حلقہ درس میں بیٹھ کر علم دین حاصل کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ اسے کھانے کو کچھ نہ ملا۔ دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی کھانا خریدنے کے لیے کوئی پیسہ اس کے پاس تھا۔تیسرے روز بھوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے! سوچنے لگا کہ اب میں اضطراری حالت میں ہوں کہ شرعاً مردار کھانا اور ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے۔ اسی بنا پر چوری کا راستہ بہترین آپشن تھا۔
شیخ طنطاویؒ کہتے ہیں:
یہ سچا واقعہ ہے اور میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اس واقعہ کی تفصیل سے آگاہ ہوں۔ میں صرف حکایت بیان کروں گا، نہ حکم نہ ہی فیصلہ، باقی نتیجہ وعبرت خود ہی اخذ کیجیے گا۔
یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چھتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے۔ یہ نوجوان مسجد کی چھت پر گیا اور وہاں سے محلے کے گھروں کی طرف چل دیا۔ پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا۔ وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جھکا کے وہاں سے چلا گیا۔ بعد والے گھر پہنچا تو دیکھا گھر خالی ہے، لیکن اس گھر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے۔ بھوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو اس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
یہ مکان ایک منزلہ تھا۔ چھت سے بالکونی اور پھر وہاں سے صحن میں کود گیا۔ فوراً باورچی خانے میں پہنچا۔ دیگچی کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں بھرے ہوئے بینگن کا سالن تھا۔ ایک بینگن اٹھایا۔ بھوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بھی پروا نہیں کی۔ بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا۔ اپنے آپ سے کہنے لگا: اللہ کی پناہ! میں طالب علم ہوں۔ لوگوں کے گھر میں گھسوں اور چوری کروں؟
اپنے اس فعل پر شرم آگئی۔ پشیمان ہوا اور استغفار کیا، بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا، پھر جیسے آیا تھا ویسے ہی سراسیمہ واپس لوٹ گیا اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ درس میں حاضر ہوا۔ درآنحالیکہ بھوک کی شدت سے سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟ جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بھی متفرق ہوگئے، تو ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی۔ اس زمانے میں خواتین کا بغیر حجاب کے وجود نہیں تھا۔
خاتون نے شیخ سے کچھ گفتگو کی۔ وہ طالب علم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا۔ شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تو اس طالب علم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا، پھر اس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو؟
نوجوان نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
نوجوان خاموش رہ گیا۔
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس نوجوان نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں کس طرح شادی کروں؟
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ، تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس نوجوان نے پھر وہی جواب دیا: اللہ کی قسم! میرے پاس ایک لقمہ روٹی کےلیے پیسے نہیں ہیں، میں کس طرح شادی کرسکتا ہوں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہیں، انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ ان کا شوہر وفات پاگیا ہے اور وہ اس شہر میں بے کس ہیں اور ان کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے، اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا ہے، اس خاتون کو اس کے شوہر سے گھر اور مال میراث میں ملا ہے، اب یہ آئی ہیں اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہیں، جو نیک ہو، شرعاً اس کا شوہر اور اس کا سرپرست بن سکے تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے، کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تو شیخ نے اس خاتون سے پوچھا کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
خاتون نے بھی مثبت جواب دیا۔ شیخ نے اس خاتون کے چچا اور دو گواہوں کو بلاکر ان دونوں کا عقد پڑھا دیا اور اس طالب علم کی طرف سے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا، پھر اس خاتون سے کہا کہ اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو۔
خاتون نے ہاتھ تھام لیا اور اپنے گھر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی، جب گھر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ وہ نوجوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے مبہوت ہوگیا! اور پھر جب اس گھر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے، جس میں وہ چوری کے لیے داخل ہوا تھا۔ زوجہ نے شوہر سے پوچھا کہ تمہارے کچھ کھانے کے لیے لے آؤں؟ نوجوان نے کہا: جی ہاں۔ اس نے دیگچی کا ڈھکن اٹھایا، بینگن کو دیکھا اور بولی: عجیب ہے، گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے اور پھر چھوڑ دیا ہے؟ وہ نوجوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنا دیا۔
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری امانت داری اور تقویٰ کا نتیجہ ہے، تم نے حرام بینگن کھانے سے اجتناب کیا تو اللہ نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دے دیا! بے شک جو کوئی اللہ کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرتے ہوئے تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ہے۔
(فصول في الثقافۃ والأدب لعلي الطنطاوي رحمہ اللہ)
تبصرہ کریں