عامر-خاکوانی،-اردو-کالم-نگار،-صحافی

کیا جاوید احمد غامدی نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے بیانیہ کو سپورٹ کیا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جاوید احمد غامدی وہ اسکالر ہیں جن کا میں احترام کرتا ہوں، اگرچہ ان کی کئی آرا سے شدید اختلاف ہے۔ میں عالم دین نہیں، مذہبی حوالوں سے ایک عام آدمی کی حیثیت ہے، اس لیے فقہی، مذہبی حوالوں سے کسی عالم دین کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہوں، کسی کو گمراہ کہنا بھی میرے پیمانے سے بڑا کام ہے۔

انفرادی طور پر مجھے یہ زیادہ سہل اور محفوظ لگتا ہے کہ اپنی دینی روایت کے ساتھ جَڑَت رکھیں اور زیادہ باریکیوں میں جائے بغیر سیرت مبارکہ کے مطالعے سے اسوہ حسنہﷺ کی پیروی کریں اور اچھے مسلمان بننے کی کوشش کریں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔

جاوید احمد غامدی کا اپنا ایک خاص اسکول آف تھاٹ ہے، اس پر ہمارے روایتی مذہبی حلقے اور بیشتر دینی اسکالرز شدید تنقید کرتے رہتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کی فکر پر ٹھوس علمی تنقید بھی بہت ہوئی ہے، کئی کتب، بہت سے مقالات اور مضامین لکھے گئے ہیں۔

ایک زمانے میں محمد دین جوہر نے اس پر اپنے جریدے ’جی‘ کا ایک خاص شمارہ نکالا تھا جس میں نادر عقیل انصاری کا وقیع مقالہ بھی شامل تھا۔ نادر عقیل انصاری کے حلقہ سے بعض احباب کاشف شیروانی، طارق ہاشمی وغیرہ نے ایک علمی جرید ہ ’حرف نیم گفتہ‘ بھی نکالا ہے جس میں غامدی اسکول آف تھاٹ پر تنقید چھپتی رہتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر مشتاق خان کی ایک کتاب موصول ہوئی۔غامدی فکر پرشاید یہ سب سے اچھی اور ٹھوس علمی تنقید ہے۔ یہ تنقید اپنے اندر وزن رکھتی ہے، اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں جاوید احمد غامدی کا فکری حامی یا پیروکار نہیں ہوں۔ ان سے اختلاف رکھتا ہوں، تاہم یہ بات پسند ہے کہ انہوں نے بڑی شائستگی سے اپنی مختلف آرا پر مبنی ویڈیوز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

جاوید احمد غامدی نے ایک طویل ویڈیو سیریز ان اعتراضات کے جواب دینے پر بنا رکھی ہے۔ ہر وہ اعتراض جو مختلف علما اور ناقدین غامدی فکر پر کرتے ہیں، ان کا جواب جاوید احمد غامدی نے اپنی ویڈیوز میں دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، مگر اچھی بات یہ کہ وہ اپنا مؤقف پوری تفصیل، وضاحت اور علمی شائستگی کے ساتھ دوسروں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔کاش ہمارے دیگر علما بھی ایسا کریں۔ چند ایک اپنا ولاگ کرتے ہیں مگران کی توجہ سوشل میڈیا ویوز لینے پر زیادہ رہتی ہے۔

مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کی ایک ویڈیو پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ یار لوگوں نے دھڑا دھڑ پوسٹیں کیں اور جاوید احمد غامدی پر خوب تبریٰ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے احباب ان پر تندوتیز حملوں میں سرفہرست رہے۔ انہیں یہ لگا کہ جاوید احمد غامدی نے حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کی تائید کی ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید احمد غامدی کے بعض ایسے مداحین اور فکری ہمعصر بھی برہم ہوگئے جو سیاسی اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ سیاسی تعصبات شاید مذہبی فکری معاملات سے زیادہ گہرے اور مؤثر ہوتے ہیں۔

پچھلے 2، 3 برسوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ جو بات سنی، وہ اصلاحاً مختلف نکلی۔اس لیے اب کوشش ہوتی ہے کہ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن لینے کے بعد ہی رائے بنائی اور دی جائے۔

جاوید احمد غامدی کی ویڈیو خود سنی، پھر اس پر جو اعتراضات کیے گئے، وہ بھی سنے۔ جاوید احمد غامدی نے تنقید کے بعد ایک وضاحتی ویڈیو بنائی، وہ بھی سنی، بعض ’انصافیئن‘ دوستوں نے ڈاکٹر معید پیرزادہ کے ایک تنقیدی ولاگ کا ذکر بھی کیا۔ اسے بھی نمٹا لیا، اس کے بعد ہی یہ تحریر لکھنے کا ارادہ کیا۔

جاوید احمد غامدی پر تنقید کے بہت سے مواقع اور کئی اسباب موجود ہیں۔ان سے کماحقہ استفادہ کیا بھی جا رہا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جو بات جتنی ہے، اتنی ہی کی جائے۔ جاوید احمد غامدی کے مذکورہ ویڈیو کلپ کے ساتھ غیر ضروری حساسیت سے برتاؤ کیا گیا، پی ٹی آئی کے لوگوں کو نجانے اس میں ایسا کیا نظرآیا جس پر انہوں نے تنقید کی؟ جاوید احمد غامدی نے وہی باتیں کی ہیں جو وہ برسوں سے کہتے چلے آئے ہیں۔

روایتی مذہبی حلقوں کے لئے چند معروضات

کیا آپ کسی بابے کی تلاش میں ہیں؟

عمران خان کی زندگی بدلنے والے روحانی لوگ

یہ ان کی مخصوص فکر کا تسلسل ہی ہے۔ 3، 4 سادہ سے نکات ہیں اور ہاں یہ ویڈیو بھی اچانک نہیں ٹپک پڑی بلکہ شام میں آنے والی تبدیلی کے بعد کئی ویڈیوز کی ایک سیریز چل رہی تھی جس میں پاکستان کے حوالے سے یہ موضوع زیربحث آیا، جاوید احمد غامدی کی ویڈیو کے مرکزی نکات درج ذیل تھے۔

1۔کسی ملک یا قوم کی حفاظت کی ذمہ داری اصل قوت نے ادا کرنی ہوتی ہے اور دورحاضر میں قوت کسی (پرائیویٹ)لشکر میں نہیں بلکہ ریاست اور اس کی فوج میں مرتکز ہوتی ہے۔ ہمارا ملک فوج کی قوت سے قائم ہے اور یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

فوج کے بغیرملک کا تصور نہیں، پھر وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہی بن جائیں گے جیسا کہ آج کل شام وغیرہ میں ہے کہ ملک ایک سے زیادہ لشکروں میں منقسم ہے، کچھ پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا، کچھ پر کردوں کا کنٹرول ہے۔ایک طرح سے حصے بخرے ہو چکے ہیں۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ پاکستان میں اگر ایسا نہیں تو اللہ کی عنایت سے فوج کے باعث ہے اور ملک کو اس طرح کے انتشار، اختلاف وغیرہ سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

  2۔ ہمارے ملک کے جو حالات ہیں، اس میں اچانک برطانوی طرز کی جمہوریت رائج نہیں ہوگی۔ تدریجی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ جمہوریت یا جمہوری روایات کے لیے پہلے بھی خاصا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر انارکی اور انتشار ہی پیدا ہوگا اور ایسی صورتحال میں جب انارکی اور انتشار اور ملوکیت میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے تو پھر ملوکیت ہی چننا ہوگی۔ ہمارے ہاں بھی اگر انتشار، انقلابی نعروں یا فوج میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہو تو پھر فوج کو ہی لینا چاہیے۔

اس دوسرے نکتے کی وجہ سے شاید پاکستان تحریک انصاف یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ حلقے جاوید احمد غامدی پر زیادہ ناراض اور ناخوش ہوئے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کے اپنے دلائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ دستوری بادشاہت بھی نہیں ہے کہ لوگ اس سے جڑے رہیں تو اگر حکومتی نظم ونسق درہم برہم ہوجائے گا، انتشار اور تقسیم حد سے زیادہ بڑھ گئی تو پھر تباہی آئے گی، جس سے ہرحال میں بچنا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی کا ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر ملک میں جمہوریت لانی ہے تو پھر سیاسی لوگوں کو اپنے اندر جمہوریت لانا ہوگی۔ ان جماعتوں پر چند خاندانوں کا غلبہ نہ ہو، وہ نیچے سے اوپر اٹھے، اس میں جمہوری کلچر ہو، کارکن کو بھی آگے آنے کا موقعہ ملے۔ دوسری جانب دستور یعنی آئین ہمارے ہاں موجود ہے، اس پر اتفاق رائے بھی ہے۔

  جاوید احمد غامدی کے مطابق ہمیں پاکستان میں کسی انقلاب کی ضرورت نہیں۔ یہ تدریجی عمل کے ذریعے ہوگا۔ 2 کام کرنا ہوں گے۔ ایک حقیقی جمہوری سیاسی کلچر رکھنے والی سیاسی جماعتیں بنانا جبکہ دوسرا کام عوام میں شعور کا لیول بلند کرنا۔

 جاوید احمد غامدی کا کہنا ہے کہ جب قوم کا شعور بہتر اور بلند ہوگا تو پولیس، انتظامیہ، فوج غرض ہر شعبے میں زیادہ میچور لوگ آگے آئیں گے اور تبدیلی بتدریج آتی جائے گی۔ یہ شعور سیاسی جدوجہد پیدا کرتی ہے، دانشور، علما دین بھی اسے پیدا کرتے ہیں۔ تاہم اگر سیاسی جدوجہد کو فوج کے مقابل کھڑا کر دیں تو پھر انتشار پیدا ہوگا جس کی ہرگز حمایت نہیں کی جا سکتی۔

جاوید احمد غامدی سے اس پر سوال پوچھا گیا کہ ہمارے ہاں مقتدر قوتیں پیچھے ہٹنے اور سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں کو سپیس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ایسے میں تدریج کا عمل کب اور کیسے شروع ہو؟ اس پر جاوید احمد غامدی نے طویل جواب دیا جس میں کمزوری محسوس ہوئی۔

مثلاً انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی آزاد اخبار قائم ہوسکتا ہے یا ایک سے زیادہ چینل بن سکتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی تک یہ اطلاع شاید نہیں پہنچی کہ پاکستان میں آزاد اخبار نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور نیوز چینل بے شک درجنوں میں ہیں، مگر کسی کے پاس خبر نشر کرنے کی آزادی یا اختیار نہیں۔ سپیس مزید سے مزید کم ہورہی ہے۔

جاوید احمد غامدی کا پورا زور بہرحال اسی پر رہا کہ فوج کے خلاف عوام کو کھڑا کرنا غلط ہے،کسی بھی صورت میں ملک کے اندر انتشار یا انارکی پیدا نہیں ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتیں اپنا کام تو کریں، اپنی پارٹی میں وہ کیوں نہیں جمہوریت لاتے، جبکہ اس پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگتی۔

اس ویڈیو میں جاوید احمد غامدی نے ایک غلطی کی کہ جس قدر زور انہوں نے اختلاف وانتشار سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور عوام کو سمجھانے میں لگایا، اس کا دسواں حصہ بھی اگر مقتدر قوتوں کو بھی نصیحت کرنے میں لگاتے تو شاید ویڈیو کچھ بیلنس ہوجاتی۔

اس پہلے ویڈیو کلپ پر جب سخت تنقید ہوئی تو انہیں دوسرا ولاگ بھی کرنا پڑا جس میں جاوید احمد غامدی نے زیادہ کھل کر تفصیل سے مقتدر قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی، غیر جمہوری رویے پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ ماضی میں بھی بہت بار کہہ چکے ہیں کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے لیے چھوڑ دی جائے اور ہر کوئی اپنا کام کرے۔

جاوید احمد غامدی نے یہ بھی کہا کہ جو سیاسی پراجیکٹ شروع کیے جاتے ہیں، سیاسی نرسریاں لگائی جاتی ہیں، یہ بھی غلط اور تباہ کن ہیں، بعدمیں پچھتانا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ کسی چلتی ہوئی سیاسی حکومت کو یوں مداخلت کر کے ہٹانا ایک طرح سے گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔ اگر ایسی بات وہ پہلی ویڈیو میں کہہ دیتے تو پھر یہ تنازع جنم ہی نہ لیتا۔

میرا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کے لیے اب جاوید احمد غامدی کی رائے کو سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ ویسے تو پاکستان تحریک انصاف بھی آفیشلی کسی بغاوت کے حق میں نہیں۔ وہ انتشاریا انارکی بھی نہیں چاہتے۔ ان کا البتہ یہ اعتراض ضرور ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کو سائیڈ پر ہوجانا چاہیے۔ سیاسی معاملات مینیج نہ کیے جائیں اور ملک میں صاف و شفاف انتخابات کرائے جائیں، عوام کے مینڈیٹ کا احترام ہو، وغیرہ وغیرہ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے