گردش، سید عنایت اللہ جان

ایک اہم پی ایچ ڈی مقالے پر مختصر تبصرہ

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نہایت ہی مخلص، پرجوش اور پر اعتماد دیرینہ دوست، بہترین جذبوں، ارادوں اور صلاحیتوں کے حامل نوجوان، ملک کے نظریاتی تشخص اور اقدار سے محبت رکھنے والے باشعور سیاسی کارکن سید محمد یونس کو اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا کامیابی سے دفاع کرنے پر دل و جان کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس کے شاندار مستقبل اور دائمی سلامتی کے لیے رب کریم سے دست بدعا ہوں۔

سید محمد یونس جس خاندان کا چشم و چراغ ہے وہ نسل درنسل علم و فضل، شرافت و دیانت، خدمت و ہمدردی، دین و تحریک، مہمان نوازی و حوصلہ افزائی اور تہذیب و شائستگی کے آفاقی قدروں سے منسلک چلا آرہا ہے۔ جسمانی طور پر بے حد خوبصورت و توانا، ذہنی طور پر تیز و طرار، سماجی طور پر فعال و ذمہ دار، اخلاقی طور پر شائستہ و خدمت گزار، تحریکی طور پر قائدانہ صلاحیتوں کے حامل و متحرک، حد درجہ خوش مزاج، ہمہ وقتی خندہ رو، اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سر شار، یہ ہے سید محمد یونس اور اب خیر سے ڈاکٹر سید محمد یونس۔

سید محمد یونس 2007ء کو میری خصوصی ترغیب پر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لینے پر آمادہ ہوئے تھے اور میری دیکھا دیکھی علم و عمل کا ایک قابلِ رشک سفر جاری رکھتے ہوئے 4 ستمبر 2023 کو علمی سلسلے کی سب سے اونچی منزل پر پہنچ کر ہزاروں نوجوانوں کو اپنے عمل سے کامیابی کی ایک ایسی زندہ و تابندہ مثال پیش کر دی جس سے ان شاءاللہ بے شمار نوجوان زندگی میں بہت کچھ کر گزرنے کی تحریک پائیں گے۔

مجھے خوشی ہے کہ میں ان مجموعی کوششوں کا ایک چھوٹا سا حصہ رہا جس کے نتیجے میں معاشرے کو ایک نیک اور لائق و فائق فرد میسر آیا۔ 2007ء کو سید محمد یونس اور میرے چھوٹے بھائی سید کفایت اللہ جان نے ایک ہی وقت میں دو مختلف ڈیپارٹمنٹس (اصول دین اور ماحولیات) میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ میں نے دونوں کا یکساں جذبے اور محبت سے استقبال کیا تھا۔ مجھے یقین تھا یہ دونوں نوجوان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اپنی ہمت و صلاحیت کے بل بوتے کامیاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرا یقین درست ثابت ہوا، آج دونوں ماشاءاللہ پی ایچ ڈی ہیں۔ سید محمد یونس نے نہ صرف خود کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ اپنے تمام بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کو بھی اسی دولت سے مالا مال کرنے کا اہتمام کیا۔ آج سب ماشاءاللہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو اپنے اپنے دائرہ کار میں عزت، مسرت اور شرافت سے مصروف عمل ہیں۔

سید محمد یونس کا مقالہ امریکہ کے دو معروف اسلامی تنظیموں "اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ” اور "اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ” کے دعوتی اور فلاحی کردار سے متعلق تھا۔ ڈاکٹر محسن انصاری اپنے مضمون "امریکہ میں دعوتی جدوجہد اور خدمات” میں لکھتے ہیں کہ "1960ء اور 1970ء کے عشرے میں امریکہ میں منظم، اسلامی سر گرمیوں کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ اس طرح جہاں برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والوں نے "اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ” (ICNA) اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اپنے اعتماد سے نوازا، وہاں مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے دُور اندیش مسلمانوں اور قائدین نے "اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ” (ISNA)، "مسلم امریکن سوسائٹی” (MAS)، "کونسل آف امریکن ریلیشن” ( CAIR) اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور دوام کے لیے منظم جدوجہد کا انتظام کیا”۔ ڈاکٹر سید محمد یونس نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں انہیں تنظیموں کے عملی جدوجہد اور خدمات کا ایک جامع اور محیط علمی جائزہ لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو علمی اور معاشی اعتبار سے زبردست مواقع میسر آئے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی مجموعی ترقی و خوشحالی اور فلاح و بہبود میں مسلمانوں کی شبانہ روز محنت اور بہترین صلاحیتوں کو یکجا کر کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں گراں قدر خدمات کو قابل ذکر عمل دخل حاصل ہے۔ مذکورہ بالا تنظیموں نے ان دونوں سطحوں پر مسلمانوں کے کردار کو منظم اور مربوط بنانے کے لیے بڑی محنت سے کام کیا ہے۔

سید محمد یونس نے اپنا مقالہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے دو مایہ ناز سکالرز پروفیسر عبد القادر ہارون اور پروفیسر میر اکبر شاہ کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ میں اپنے عزیز دوست اور فاضل مقالہ نگار کی سوچ اور اپروچ کی حد درجہ تحسین کر رہا ہوں جنہوں نے وقت کی ایک اہم ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف ایک وقیع علمی کاوش انجام دی بلکہ ایک ایسا رجحان ساز قدم بھی اٹھایا جو رہتی دنیا تک مسافران علم کو مطلوبہ نقوش فراہم کرتا رہے گا۔ علمی رجحانات اور عملی تقاضوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اصلاح احوال کے لیے ایک ایسی ضروری چیز ہے جس کو کسی صورت نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

اسلام، الہامی مذاہب کے سلسلے کی آخری معتبر کڑی ہے جس کے سامنے قیامت تک پیش آنے والے علمی، فکری اور عملی چیلنجوں سے نمٹنے کا پیچیدہ امتحان درپیش ہے۔ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں۔ حقوق و فرائض، حلال و حرام، جائز و ناجائز، رد و قبول، مطلوب و نامطلوب اور خیر و شر کے درمیان کھینچی لکیریں کافی کچھ گرد آلود ہو گئی ہیں۔ عصر حاضر میں انسانی حال احوال نے مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر غیر معمولی کروٹیں لیئے ہیں ایسی کہ جن سے عقل و شعور سخت پریشانی سے دو چار ہیں۔ کہاں تک جانا ہیں اور کہاں پہ جا کر رکنا ہیں؟ کہاں تک ساتھ دینا ہے اور کہاں سے راستہ موڑنا ہے؟ کس سے تعلق نبھانا ہے اور کس سے خود کو بچانا کر آگے گزرنا ہے؟ مجبوری کیا ہے؟ اختیار کیا ہے؟ اجتماعی آداب کے تقاضے کیا ہیں؟ اصول اور قواعد کیا ہیں؟ اس طرح ضروریات اور مقاصد کے درمیان ضروری توازن کیسے قائم کر کے برقرار رکھنا ہے؟ یہ سارے معاملات علمی اور فکری طور پر ازسرنو زیر غور لا کر منزل کے راستے کو صاف اور کشادہ رکھ کر تباہی کے گڑھے کے سامنے بندھ باندھنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے اور دنیا بہت تیزی سے آگے نکل جائے گی۔

سید محمد یونس کی یہ علمی کاوش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ مختلف وجوہ نے مل کر مغرب اور عالم اسلام کے تعلقات کو تناؤ کا شکار کیے رکھیں ہیں ایسے ماحول اور عالمی حالات میں ایسی علمی کاوشیں مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جاری تناؤ پر قابو پا کر نئے سرے سے تعلقات بنانے اور نبھانے کے لیے پل کا کام دے گی۔ مشرق وسطی میں جنم لیتے انسانی سانحات ہو یا یورپ کے مختلف ممالک میں پے در پے قرآن مجید کی توہین کے واقعات، مغربی ممالک کو غیر منظم ہجرت سے پیدا ہونے والا تناؤ ہو یا پھر مغرب کا اسلامی ممالک پر سیاسی اور معاشی تسلط کا مسئلہ، نت نئے اختراعات سے اٹھنے والے اخلاقی اور سماجی مسائل کی پیدائش ہو یا پھر حقوق و معاوضوں میں در آنے والا غیر منصفانہ تفریق و تقسیم کا چیلنج حقیقت ہے کہ یہ سارے معاملات ہم سے اپنے دل و دماغ پر زور ڈالنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ان پیچیدہ احوال نے ہمارے لیے ہر سطح پر پریشان کن مسائل میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ ایسے حال احوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی اور عملی دونوں محاذوں پر مثبت کام انجام دے دیا جائے تاکہ نفرت کے جذبات میں کمی آسکے۔

قوموں کی برادری میں، عزت و تکریم کے اعتبار سے، عصر حاضر کا غالب ترین پیمانہ افادیت ہے یعنی ایک ملت دنیا کے لیے اپنی اہمیت، افادیت کے آئینے میں ثابت کرے گی تو کوئی قابل ذکر جگہ پائی گی ورنہ بے توقیر اور غیر محفوظ ہو کر رہ جائے گی۔ دنیا میں دو ارب نفوس پر پھیلی ملت کو، دنیا کے لیے اپنی افادیت کو نمایاں کرنا سب سے اہم ہدف ہے جیسے پانے پر تمام دستیاب وسائل اور توجہات مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مغرب اور عالم اسلام کے درمیان ایسے زاویوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ جن سے دونوں فریق کو باہمی تعلقات اعتدال پر لانے میں مدد ملے۔ طویل عرصے سے عالم اسلام مغرب کو دوست اور مغرب عالم اسلام کو ایک پرامن شراکت دار نہیں سمجھ رہا۔ سوچوں کی اس تفریق نے عالمی سطح پر تعلقات کار میں بہت ساری تلخیاں بھر دی ہے جو کہ کسی کے حق بھی نہیں۔

ہم مانیں یا نہ مانیں دونوں عالمی فریقوں میں کئی اقدار مشترک پائے جاتے ہیں اس کے علاؤہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہے، دونوں کو ایک دوسرے سے بے شمار مفادات اور توقعات وابستہ ہیں جن کی تکمیل برابری کی سطح پر معتدل تعلقات کار اور خوشگوار ماحول میں ہی ممکن ہیں اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں۔

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم (مغرب اور عالم اسلام) ازسرنو ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے، نامناسب طرزِ فکر و عمل کا ادراک کرنے اور باہمی تنازعات و شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز (ISNA اور ICNA جیسی تنظیموں) سے کام لینے اور حسب ضرورت مزید کی تشکیل جیسے اقدامات پر توجہ دیں۔ ہر وہ قدم، ہر وہ کاوش اور ہر وہ خواہش مبارک ہے جو مغرب اور عالم اسلام کے درمیان تعلقات کو اعتدال، خوشگواری اور خیر خواہی سے ہم آہنگ بنا دیں۔

میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر سید محمد یونس، اس کے قابلِ احترام والدین اور تمام خاندان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مزید شاندار کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔ میرے پیارے دوست اہلیان دیر اور وابستگان تحریک کو آپ پر فخر ہے سدا سلامت رہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے