آئین و قانون جو بھی بیان کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سرکاری اختیار کے حامل افراد، جاگیر دار، سرمایہ دار اور مذہبی پیشواؤں کے مقابل عام لوگ کم درجے کے شہری ہیں۔
ہمارے سماج کا یہی مرض ہے کہ جس کی وجہ سے یہاں جمہوریت کے بہتر نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ اصل مرض پر بات کرنے کی بجائے جمہوریت پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق جمہوری نظام کی عمارت مساوات اور مشورے کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔
کسی جمہوری ریاست میں تمام شہریوں کے حقوق بطور شہری مساوی ہونا ضروری ہیں خواہ ان کا سوشل اسٹیٹس جو بھی ہو۔ اسی طرح حکومت قائم کرنے کے لیے عوام اور اسے چلانے کے لیے عوام کے منتخب کردہ پارلیمان کی رائے کا حصول لازمی تقاضا ہے۔
مغربی ممالک کی ترقی کا راز یہی ہے کہ انہوں نے اپنی ریاستوں میں شہری حقوق کے معاملے میں تمام شہریوں کو مساوی کردیا۔ مغربی معاشروں میں وسائل اور اختیار ایک شہری کو دوسرے شہری پر فوقیت دینے کا باعث نہیں ہیں۔ ایک وزیر اعظم یا صدر اور عام شہری، ایک بیورو کریٹ اور عام ملازم اور اسی طرح ایک سرمایہ دار اور عام ورکر ریاست کی نگاہ میں برابر کے شہری ہیں۔ ریاستی قانون وزیراعظم سے لے کر عام شہری پر یکساں نافذ ہوتا ہے۔ تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی میدان میں پرفارم کرنے کے یکساں مواقع موجود ہیں۔
اس کے مقابل ہمارے سماج میں نام کی حد تک جمہوریت موجود ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز بھی جمہوریت کا اس وقت نام لیتے ہیں جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے یا انہیں اقتدار سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا معاشرہ براہمن اور شودر کی سماجی تفریق کا بری طرح شکار ہے۔ ہر سطح اور فورم پر خاص اور عام کا فرق واضح ہے۔ آبادیوں، تھانہ، کچہری، اداروں اور سیاست میں سماجی حیثیت کا فرق نمایاں ہے۔ قانون کی دو آنکھیں ہیں۔ ایک آنکھ سے وہ خاص کو دیکھتا ہے اور دوسری سے عام کو۔ !
ہمارے سماج کا براہمن طبقہ سیاست کے ادارے پر پوری طرح قابض ہے۔ سیاسی جماعتیں باوسائل طاقتور افراد کے قبضے میں ہیں۔ کونسلر سے پارلیمنٹ تک وسائل کی قوت رکھنے والے افراد براجمان ہوتے ہیں جبکہ عام شہری ووٹر کے درجے سے کبھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ مسلم اکثریت پر مشتمل ریاستوں میں مسلم جمہوری اصول اجنبی ہی نہیں کافر بھی ہیں۔
مسلمانوں کی مقدس کتاب اپنے ماننے والوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مشورے کا پابند بناتی ہے جس سے محدود اور وسیع دونوں قسم کی مشاورت مراد ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺنے اپنے آخری عوامی خطبہ میں شہری مساوات کا اصول اس طرح واضح فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ان کے فرمان کو دنیا کا پہلا چارٹر آف ڈیموکریسی قرار دیا جاتا ہے۔
مسلم سماج تیس سال تک مشاورت اور مساوات کے جمہوری اصولوں پر عمل پیرا رہا جس کے بعد کچھ قوتوں نے اسے ڈی ٹریک کر دیا اور یہ ارتقائی مراحل سے گزر کر بہتر شکل میں ڈھلنے کی بجائے خاندانی بادشاہتوں کے جبر کا شکار ہوگیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ لوگ آزاد عوامی رائے کے ذریعے حکومتیں قائم کرنے کی بجائے عسکری قوت کے ذریعے قابض ہونے کو ہی اسلام کا تقاضا سمجھنے لگے۔
بادشاہ سلامت کی مرضی اور اس کی پسند کے مشیروں کے خوشامدانہ مشورے فیصلہ سازی کا اصول بن گئے۔ مسلمان معاشرے جمہوری مساوات پر قائم رہنے کی بجائے اونچ نیچ کا شکار ہوتے گئے۔
ہماری سمجھ کے مطابق صحت مند جمہوری معاشرہ قائم کرنے کے لیے مساوات اور مشاورت کے اصول ہی کافی نہیں ہیں شہریوں اور ان کے ذہنوں کا آزاد ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
ہمارا خطہ بالخصوص پاکستان شخصیت پرستی کے مرض کا بری طرح شکار ہے۔ ہمارے لوگ پاگل پن کی حد تک اپنی پسندیدہ شخصیات کے ساتھ ہوتے ہیں یا دشمنی کی حد تک ناپسندیدہ شخصیات کے خلاف سیاسی و مذہبی لیڈر اس مائنڈ سیٹ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ہم نے انگریزی استعمار سے آزادی حاصل کر لی لیکن اپنے گھر میں موجود طاقتوروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں سے آزادی حاصل نہیں کرسکے۔
آج ہم اس کی سزا بھگت رہے ہیں اور اس وقت تک بھگتتے رہیں گے جب تک آزادی، مساوات اور مشاورت کے اصولوں کو ان کی روح کے مطابق نہیں اپنا لیتے۔
( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)
تبصرہ کریں