گردش، سید عنایت اللہ جان

اللہ: تصور، وجود، حقیقت، قدرت اور منشاء کے بارے میں ایک تاثراتی خاکہ

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

انسان اگر ذرا اپنے وجود اور گرد و پیش پر غور کر لیں تو کئی سوالات اس کے ذہن میں اٹھنا شروع ہو جائیں گے کہ

وہ معدوم تھا کس نے وجود سے سرفراز کیا؟

وہ کمزور تھا کس نے طاقت بخشا؟

وہ مجہول تھا کس نے ایک معلوم ہستی بنایا؟

وہ ماضی میں کہیں گم تھا کس نے حال کے سطح پر نمایاں کیا؟

وہ بے حس تھا کس نے اسے خوشی اور کامیابی کے حیرت انگیز احساسات سے آراستہ کیا؟

وہ لاتعلق تھا کس نے اس کو کائنات، دنیا، بنی نوع انسانی اور زندگی سے جوڑ دیا؟

وہ تاریخ میں کتنے خطرات کے اندر گھیرا تھا لیکن اس کے باوجود آخر کس کے انتظام کے بل بوتے ہزاروں برس پر محیط ارتقائی سفر طے کیا؟

انسان کا سفر ابھی رکا نہیں، تھما نہیں آگے رواں دواں ہے اور اپنی جگہ یہ بھی ایک بہت ہی اہم سوال ہے کہ انسان کا مستقبل کیا ہے اور یہ کہ کہاں ہے؟

اس کے علاوہ نظام ہستی میں کمال درجے کا توازن، تناسب، حرارت، حفاظت، نظم و ضبط اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ اتفاقی ہے؟ کیا یہ کچھ کسی ارادے، نظام یا انتظام کے بغیر ہو رہا ہے؟ کیا کوئی بھی دیکھنے اور تھامنے والا موجود نہیں؟

یہ سارے سوالات اہم، بنیادی اور منطقی نوعیت کے ہیں اور جب تک انسان کو ان کا جواب میسر نہیں آتا وہ اپنی نظریاتی اور عملی زندگی کے درست تشکیل و ترتیب میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ برسوں غور و فکر اور تجربات و مشاہدات کے بعد جواب کے خانے میں میرے پاس جو نام آیا ہے وہ ہے اللہ۔

کائنات، دنیا اور خود انسان کا خالق و مالک، مولا و محور، منتظم و موعود، کارساز و محافظ، رازق و خاذق اور ھادی و منتہیٰ اللہ ہی ہے۔ مالک ارض و سماں کا نظام ہستی کی تشکیل و تعمیر اور انتظام و اہتمام میں کوئی شریک ہے نہ مددگار۔ اس نے اکیلے ہی سب کچھ پیدا کر کے تھام رکھا ہے۔

اللہ ہی زندگی کا نقطہ آغاز ہے، اللہ ہی انجام کا پتھر ہے، اللہ ہی کائنات کا منبع و ماواء ہے، اللہ ہی اول و آخر میں کار فرما ہے، اللہ ہی خیر و شر کے تصورات کا کاریگر ہے، اللہ ہی حرارت و حلاوت کا سر چشمہ ہے، اللہ ہی رازوں کا راز ہے، اللہ ہی قوتوں کی قوت ہے، اللہ ہی حاوی ہے، اللہ ہی ہادی ہے، اللہ ہی مالک ہے، اللہ ہی کارساز ہے، اللہ ہی ایمان کی بنیاد ہے، اللہ ہی اطمینان کا سامان ہے، اونچائی میں اللہ ہے، گہرائی میں اللہ ہے، گیرائی میں اللہ ہے، ماضی میں اللہ ہے، اللہ ہے، مستقبل میں اللہ ہے، کمزوروں کو تھامنے والا اللہ ہے، طاقتوروں کو پکڑنے والا اللہ ہے غرض کوئی ایسا خانہ نہیں، کوئی ایسی جگہ نہیں، کوئی ایسا لمحہ نہیں، کوئی ایسا ذرہ نہیں جہاں اللہ نہیں۔

اللہ ہی کائنات، دنیا، زندگی، اشیاء اور انسانوں کے ہاں پائے جانے والے تمام رازوں، حکمتوں اور مصلحتوں کا منبع ہے ان سب کو وہ جس گہرائی، گیرائی اور بلندی سے جانتا ہے وہ سب کچھ انسان کے احاطہ خیال و گماں سے ماورا ہے۔ ہم وقت اور مقام کے جن ٹکڑوں میں پیدا ہوئے ہیں، جن جنسوں میں ڈھلے ہیں، پل پل پلے بڑھے ہیں، جو مخصوص صلاحیتیں پائی ہیں، جو عقیدتیں یا عقائد دل و دماغ کے نہاں خانوں میں پختہ ہو چلے ہیں، جو جذبات و احساسات ارواح و اذہان میں پروان چڑھے ہیں اور ہمارے اعمال و کردار نے جو خاص شکلیں اختیار کر رکھے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس کی کوئی حکمت، راز یا مصلحت معلوم نہیں لیکن نظامِ کائنات اور انتظام حیات کے وسیع ترین منظر نامے میں جو راز، حکمت یا مصلحت کار فرما ہیں ان پر ہمارا ایمان ہے۔

ذرا انسان ادھر ادھر، اگے پیچھے اور اوپر نیچے نگاہ اٹھا کر دیکھے کوئی جھول، کوئی دھول، کوئی کمی بیشی، کوئی قدرتی یا تکنیکی خرابی اسے نظام ہستی میں نظر اتی ہے؟ نہیں قطعاً نہیں، بلکہ سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ جس ہستی نے یہ خوبصورت دنیا، یہ دل آویز زندگی اور یہ وسیع و عریض کائنات تخلیق فرمایا ہے اور جس نے ان میں خوشی، تصرف اور خیر و شر کے رنگ بہ رنگ "خاکوں” میں رنگ بھرنے کے لیے جس حکمت اور قدرت سے بے شمار چیزوں کو وجود بخشا ہے۔ انسانی ذہن ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس سلسلے میں اگر خود انسان اپنی ہستی پر ذرہ سوچے تو اسے محسوس ہوگا کہ نہ صرف وجود اور خوبیوں کے حوالے سے بلکہ ساخت اور شخصیت کے اعتبار سے بھی ایک نہایت حسین، بامقصد، متوازن اور آعلی ترین درجے کی ممتاز ترین تخلیق ہے۔

انسان اگر اپنے اوپر اللہ کی عطاؤں پر ذرا زیادہ گہرائی میں غور کریں تو اس کا قلب و نظر شکر کے سمندر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب کر رہ جائیں گے۔ جو کچھ بندے کے تصور میں آسکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر آللہ نے نوازش کی ہے۔ آللہ نے انسان کو عقل و شعور، آخلاق و کردار، جذبات و احساسات، ذوق و مزاج، شرافت و کرامت اور معیار و انتخاب کے جس بلند ترین سطح پر پیدا فرمایا ہے اس سے بہتر کا تصور بھی ممکن نہیں۔

تکوینی تناظر میں اگر اللّہ تعالیٰ اتنا بلند و حاوی، اتنا حکیم و خبیر، اتنا وسیع و عریض اور اتنا کریم و شفیق واقع ہوا ہے تو ماننا پڑے گا کہ وہ انہیں صفات و اوصاف کا حامل اپنے تشریعی نظام میں بھی ہے۔ ایسی مدبر اور قادر مطلق ہستی کی "منشاء” یعنی "تشریعی نظام” کو زندگی میں دیکھنا عین عقل و فطرت کا ازلی و ابدی تقاضہ ہی نہیں بلکہ خود حیات انسانی میں حقیقی لطف، خیر، توازن، سکون اور مقصدیت کا ذریعہ بھی ہے۔

 ذرہ سوچئے تو سہی

اربوں انسانوں سے آباد اس دنیا میں باہمی تعلقات کس بنیاد پر استوار ہو؟

اعمال کے سامنے کیا اہداف ہو؟

معاملات چلانے کے لیے کیا پیمانے تشکیل پائیں؟

اخلاقی آقدار کس "مرکز” کے ساتھ جڑے رہیں؟

انسان کا جبینِ نیاز کس کے سامنے جھکے؟

قدرتی وسائل کو برتنے کا انصاف پر مبنی طریقہ کیا طے ہو؟

تنازعات اگر جنم لیں تو حل کے لیے کس بلند تر "درگاہ” کو کوئی دیکھے؟

ان تمام بنیادی سوالات کا اگر کوئی شافی جواب انسان کو کہیں سے مل سکتا ہے تو وہ ہے "خدائی منشاء”۔

تمام مذاہب کے ماننے والے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین ہیں لیکن ہر انسان محسوس کرتا ہے کہ آج کے حالات میں سکون اور زندگی میں ٹھہراؤ کافی حد تک مفقود ہے۔ رحمت خدا وندی کہیں رخصت اور غیض و غضب کا نزول مسلسل لگ رہا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں انسانوں سے کوئی بہت بڑی خطا ہوئی ہے۔

اللہ کے ساتھ انسانوں کا رشتہ دو ستونوں پر استوار ہے ایک یقین اور دوسری اطاعت لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ یقین تو مختلف نتاظر میں اکثر و بیشتر لوگ کرتے ہیں پر زندگی میں اطاعت کی طرف کوئی نہیں آتا۔ یہیں وجہ ہے کہ آللہ اور انسان کا باہمی رشتہ کمزور پڑ چکا ہے، آللہ سے انسان کا رشتہ کمزور یا ختم ہو جائے تو لامحالہ خود انسانوں کے باہمی تعلقات اور مجموعی حالات بھی پیچیدہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اس مرکز یقین و طاعت کے بارے میں وحدت و شراکت کا وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خود اللہ نے بذریعہ نبوت جوڑ رکھا ہے۔

خالق سے ذیادہ بھلا کون بہتر جان سکتا ہے کہ مخلوق کے لیے درست طرز عمل کیا ہے۔ ایسے طرز عمل کے پشت پر دراصل منشاء خدا وندی کار فرما ہوتی ہے۔ خدا کی دنیا میں خدائی منشاء کے بغیر "درست روش” تک پہنچنا سو فیصد ناممکن ہے۔ زندگی میں درست طرز عمل اختیار کرنے سے ایک طرف حق سچ تسلیم ہوتا ہے، حقیقت کا اعتراف ہوتا ہے بلکہ خالق حقیقی یعنی اللہ راضی بھی ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زندگی میں سچائی، انصاف، مقصدیت اور اصلاح کی حلاوت بھی گھل مل جاتی ہے۔

انسانی کردار اور سماج ( کرداروں کا مجموعہ) وہ میدان ہے جس میں اللہ اپنی منشاء کا ظہور دیکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسان کو مخاطب کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ خدائی منشاء کیا ہے؟ جواب تاریخ اور احوال کی روشنی میں بڑا واضح ہے یعنی اللہ کی کتابیں اور اس کے رسولوں کی سیرت۔

یہ رسول ہی ہیں

جو انسانوں کو زندگی کے حقائق اور مقاصد سے آگاہ فرماتے ہیں۔

اخلاق اور معاملات کے لیے آفاقی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔

تعلقات نباہنے اور درست باہمی سلوک استوار کرنے کے لیے وہ ربانی اصول دنیا کو دیتے ہیں جو انسانوں کی انکھوں سے خود غرضی کے پردے ہٹا کر اللہ کے نور سے سرفراز فرماتے ہیں۔

وہ انسانوں کو باور کراتے ہیں کہ زندگی محض ایک "اتفاق” نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کا ایک عظیم "منصوبہ” ہے جس میں اپنی منشاء کی صورت گری اس کو مطلوب ہے۔

وہ یقین دلاتے ہیں کہ حق کے بغیر زندگی گونگی، بہری اور تاریک ہوتی ہے۔

وہ یہ بات سمجھانے میں پوری طرح اپنی جان لڑا دیتے ہیں کہ ایمان و یقین اور فلاح و بہبود کا اصل "منبع” اللہ ہے اور جس بندے اور قوم کے سامنے اللہ نہ ہو اس کی زندگی شر کا "گڑھا” اور تاریک "غار” ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو زندگی "ایمان باآللہ” سے سرفراز ہو جائے وہ کبھی نامراد نہیں ہوتی۔

یہی زندگی کا "حاصل حصول” ہے۔

یہی "منشاء خدا وندی” ہے اور پھر یہ خدا ہی تو ہے جو زندگی کو ہر آن

خیر،

توازن،

اطمینان،

تعمیر،

اصلاح

اور مقصدیت سے ہمکنار رکھتی ہے۔

جس نے خدا کو پایا اس نے حقیقت میں زندگی کا مقصد پایا اور جس نے خدا کو بھلایا اس نے اپنے آپ کو گم کر دیا۔ خدا سچائی، بقاء اور اطمینان کا وہ ازلی و ابدی خزانہ ہے جیسے پانا ایک اچھی، سچی، کھری اور میٹھی زندگی کے واسطے ضروری ہے۔ آج جو ظلم ہے، جہالت ہے، شقاوت ہے، نفرت و عداوت ہے، بے سکونی اور ناآسودگی ہے اس سب کے پیچھے دراصل خدا سے غفلت اور بغاوت پر مبنی طرزِ عمل کار فرما ہے۔ ہم میں سے اکثر نے صرف موجودہ دنیا اور زندگی کو ہی "سب کچھ” سمجھا ہے حالانکہ بہت کچھ اس کے آس پاس اور نیچے پیچھے واقع ہیں جن سے ضرور ہمیں واسطہ پڑے گا لہذا آزمائش کے امتحان میں پاس ہونے کے لیے نہ صرف آس پاس بلکہ ظاہر و باطن میں خدا کا ساتھ ضروری ہے ورنہ فیل ہونے کے لیے گرد و پیش میں بے شمار اسباب بے چین کھڑے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے